Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمرہ فیس، فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت

تیل پیدا کرنے والے ممالک کی معیشت متاثر ہے تو دیگر عرب اوراسلامی ممالک کی معاشی حالت ہم سے بہتر نہیں

 

جمال بنون

یہ پہلا سال جس میں سعودی عرب نے عمرہ اور حج ویزے پر دوسری مرتبہ آنے والوں پر 2ہزار ریال فیس عائد کی ہے۔اس سے پہلے سعودی عرب حج اور عمرہ ویزے پر کوئی فیس نہیں لیتا تھا۔ ہمیں اندازہ ہے کہ اگر سعودی عرب مالی بحران کا شکار نہ ہوتا تو یہ فیس کبھی عائد نہیں کرتا مگر عالمی منڈی میں چھائی ہوئی مندی سے دیگرممالک کی طرح سعودی عرب بھی شکا ر ہے۔ حالات کا تجزیہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمرہ فیس کی وجہ سے امسال عمرہ موسم شدید متاثر ہوگا اور اسکے متاثر ہونے سے عمرہ سے متعلق دیگر بہت سے شعبے متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتے۔

ان شعبوں میں خاص طور پر ہوٹلنگ، فرنیچرڈاپارٹمنٹس اور اسی سے متعلق دیگر شعبے بھی متاثر ہوں گے۔اس شعبے سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے اپنے خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومتی ادارے نے جوعمرہ اور حج فیس عائد ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ 2ہزاریال یا 533ڈالر بڑی رقم ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو ایشیائی یا افریقی ممالک کے علاوہ بعض عرب ممالک سے آتے ہیں۔ممکن ہے کہ یہ فیس یورپ اور امریکہ سے آنے والے معتمرین کے لئے مناسب ہو مگر عام معتمرین اسے برداشت نہیں کرسکتے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ 60فیصد معتمرین ایسے ہیں جو ہر سال یا دو 3سال میں ایک مرتبہ ضرور عمرہ کرتے ہیں۔

ایسے لوگوں سے جب ہر مرتبہ 2ہزار ریال فیس لی جائے گی تو شاید وہ ایک مرتبہ تو برداشت کرلیں مگر دوسری مرتبہ وہ اسے برداشت نہیں کرسکتے۔ اس طرح عمرہ شعبہ مستقل گاہکوں سے محروم ہوجائے گا۔رہا معاملہ ان لوگوں کاجو پہلی مرتبہ عمرہ پر آئیں گے اور جو فیس سے مستثنیٰ ہیں ان کی معتمرین کی مجموعی تعداد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ان کی مجموعی تعداد سے عمرہ شعبے سے وابستہ دیگر شعبے بہت زیادہ مستفید نہیں ہوتے۔ عمرہ شعبے کا دار ومدار ان لوگوں پر ہے جو سالانہ عمرہ کرنے آتے ہیں یا 2سال میں ایک مرتبہ ضرور آتے ہیں۔انہی کی بنیاد پر دونوں مقدس شہروں کے ہوٹل ، فرنیچرڈ اپارٹمنٹ اور دیگر بہت سے شعبے کام کر رہے ہیں۔ عمرہ شعبہ میں کاروباری کی تیزی کا انحصار اس بات پر ہے کہ زیادہ سے زیادہ معتمرین آئیں۔

مثال کے ذریعہ بات سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اردن کے معتمرین کی مثال لیجئے۔ عمرہ فیس عائد کرنے سے پہلے اردن کے معتمرین ٹکٹ کے علاوہ 300سے 500ریال میں عمرہ کرلیتے تھے۔ یہ رقم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں 15دن قیام اور کھانے پینے کے لئے کافی ہوتی تھی۔ اسی طرح سوڈان اور مصرسے آنے والے معتمرین ٹکٹ سمیت1200ریال ادا کرتے تھے۔موٹا حساب لگایا جائے تو فیس عائد کرنے سے پہلے ان معتمرین کے ارض مقدس میں قیام کے دوران روزانہ 15سے 20ریال اخراجات ہوتے تھے۔ یہ فی کس رقم تو بہت معمولی ہے مگر عمرہ موسم بھر مجموعی طور پر کافی ہوجاتی ہے۔

یہی حال پاکستان، ہندوستان، انڈونیشیا، ملائیشیا اور دیگر ممالک کے معتمرین کی ہے جن کی سفری اخراجات مختلف ہوسکتے ہیں مگر ارض مقدس میں قیام کے اوسط اخراجات اتنے ہی ہیں یا اس سے کچھ زیادہ۔یہ معمولی رقم جو معتمرین ادا کرتے تھے اس رقم سے کئی شعبے کماتے ہیں۔ارض مقدس میں قیام کے دوران معتمرین اپنے اعزہ اور احباب کے لئے تحفے تحائف خریدتے ہیں، بعض مملکت سے سونا اور زیورات لے جاتے ہیں جبکہ بعض ایسے بھی ہیں جو الیکٹرانک اشیاء خریدتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں کئی شعبوں کو متحرک رکھتے تھے۔ ہمیں معلوم ہے کہ عالمی معیشت مندی کا شکار ہے ۔

اگر تیل پیدا کرنے والے ممالک کی معیشت متاثر ہے تو دیگر عرب اوراسلامی ممالک کی معاشی حالت ہم سے بہتر نہیں۔ بعض عرب ممالک ایسے بھی ہیں جہاں معاشی حالات کی خرابی کے ساتھ سیاسی حالات بھی خراب ہیں۔بیروزگاری کے علاوہ افراط زر اور مقامی کرنسی کی قیمت تنزلی کی طرف ہے۔حکومت نے عمرہ اور حج فیس عائد کرکے قومی پیداوار میں اضافہ کی کوشش کی ہے اور یہ مثبت سوچ بھی ہے ۔ حکومت کو پورا اختیار ہے کہ وہ کسی بھی طرح ملک کی قومی پیداوار کو مستحکم کرے اور آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کرے مگر عمرہ فیس عائد کرنے سے اس شعبے کو سخت نقصان کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

اس سے معتمرین کی تعداد میں خاصی کمی ہوگی جس کا نقصان پورے شعبے کو لاحق ہوگا۔عمرہ شعبے سے وابستہ لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ فیس کی وجہ سے ابھی تک ان کے ہاں معتمرین کی بکنگ نہیں ہوئی جبکہ گزشتہ برسوں میں ان دنوں میں ان کے ہاں بکنگ عروج پر ہوتی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مقدس مقامات کی زیارت تمام مسلمانوں کا خواب ہے مگر ہمیں اس مقصد کے لئے معقول فیس رکھنی ہے۔ایسی فیس جو تمام مسلمانوں کے دسترس میں ہو۔ اس وقت جو فیس عائد کی گئی ہے اس سے شاید قومی پیدا وار میں معقول اضافہ ہوجائے مگر تعداد کے حساب سے جتنے لوگ اس کے متحمل ہوسکتے ہیں اور حقیقت میں فیس کی پروا کئے بغیر آئیں گے ان کی تعداد عمرہ شعبے کے مفاد میں نہیں ہوگی۔ہمارا مقصد عمرے سے وابستہ تمام شعبوں کی بہتری ہونا چاہئے۔ ہم وژن2030میں معتمرین کی تعداد30ملین تک لے جانا چاہتے ہیں مگر اس فیس کی وجہ سے شاید یہ ہدف پورا نہ ہوسکے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ وقت نکل جانے سے پہلے اس فیس کو ختم کیا جائے یا پھر سو ڈالر رکھا جائے۔

شیئر: