Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تارکِ نماز، کافر ہے یا محض فاسق؟

جب اسلام تصدیق خبر اورا طاعتِ امر کانام ہے تو اللہ نے اس کی دوضدیں بتائی ہیں اور وہ ہیں عدمِ تصدیق اور عدمِ نماز

 

ابوعدنان محمد منیر قمر۔ الخبر

روشنی گزشتہ شماروں میں ہم نے تارکِ نماز کاحکم اور اسے کافر نہیں بلکہ مرتکبِ کبیر ہ گناہ ، فاسق قرار دینے والوں کے دلائل ذکر کئے ہیں اور بعض اہلِ علم کے اقوال وافادات کی روشنی میں ان کاتجزیہ بھی پیش کیا ہے ۔ اب باری ہے تارکِ نماز کے بارے میں قائلینِ کفر کے دلائل کی جبکہ اس دوسرے قول کے قائلین میں سے صحابہ وتابعین، تبع تابعین وائمہ اور فقہاء ومحد ثین سبھی قسم کے لوگ ہیں جیسا کہ اس موضوع کے شروع میں ہی ہم یہ وضاحت کر آئے ہیں ۔

اس فریقِ ثانی کے دلائل قرآنی آیات ، احادیثِ رسول ، اجماعِ صحابہؓ ، آثارِ صحابہ وتابعین اور اقوالِ تبع تابعین و ائمہ ہیں تو آئیے اس سِلسلہ میں پہلے قرآنِ کریم کامطالعہ کریں ۔ علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب الصلٰوۃ میں قائلینِ فسق کے دلائل نقل کر نے کے بعد قائلینِ کفر کے دلائل بھی ذکر کئے ہیں اور قرآنِ کریم کے 10 مقامات سے تارکِ نماز کے کفر پر استدلال اور وجوہِ استدلال بیان کی ہیں جن میں سے 3 مقامات کوتو تارکِ نماز کے ’’انجام‘‘ کے ضمن میں ہم ذکر کر چکے ہیںلہذا ان کی تفصیل کودہرانے کی بجائے ان سے وجۂ استدلال کاخلاصہ بیان کردیتے ہیں ۔

پہلے مقام میں سورہ مدثر آیت 38تا48ہے جہاں مذکور ہے کہ جنتی لوگ مجرموں سے جہنم میں جانے کاسبب پوچھیں گے تووہ ترکِ نماز وغیرہ جرائم کاذکر کریں گے ۔ ان آیات میں سے41ویں آیت میں اللہ نے انہیں ’’مجرم ‘‘کہا ہے جبکہ قرآنِ کریم کے متعدد مقامات پراللہ تعالیٰ نے مجرموں کومومن مسلمانوں کی ضد قرار دیا ہے جیسا کہ سورہ قمر آیت47،48 میں ارشادِ الہٰی ہے بے شک مجرمین (گناہگا ر دنیا میں)گمراہ ہیں (اور آخرت میں) دہکتی آگ میں پڑ یں گے ، جس دن وہ اوند ھے (جہنم کی ) آگ میں گھسیٹے جائیں گے (توان سے کہا جا ئے گا) دوزخ کی آگ (اپنے بدن سے لگنے ) کامزہ چکھو ۔ اور سورہ المطفّفین آیت29 میں ارشادِالہٰی ہے بے شک مجرمین (گنا ہگار لوگ دنیا میں) ایمان والوں پر ہنستے (مسخرہ پن کر تے )تھے۔ ان دومقامات پر اللہ نے مجرمین کومؤمن مسلمانوں کی ضدبتایا ہے ۔ جب تارکِ نماز کو اہلِ جہنم مجرمین سے شمارکیا ہے اور مجرمین بمقابل مؤمنین ہے تویہ تارکِ نماز کے کفر کی دلیل ہو ئی۔ دوسرا مقام سورۃ المرسلات آیت46تا48ہے ، وہاں بھی آیت 46 میں مجرمین کاذکر ہوا ہے اور آیت47میں اس کوویل وہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے جس کاسبب ترکِ نماز ہے ۔

جب اللہ نے 5نمازیں روزانہ فرض کی ہیں اور ان کے ترک پر سخت سزاؤں کی وعید سنائی ہے تواگر کوئی ایماندار ہو، اللہ کی طرف سے اس حکم کے نزول کی تصدیق بھی کر تا ہو توپھر یہ نا ممکن ہے کہ وہ شخص ترکِ نماز پر مصر رہے ۔ اگر کوئی ترکِ نماز پر پھر بھی مصرہے توسمجھ لیں کہ اس کادل ایمان سے بالکل خالی ہے اور یہ فعل اس کے لئے کفر ہے ۔ تیسرا مقام سورۃ توبہ کی آیت11 ہے جہاں اخوتِ اسلامی کوتوبہ ونماز اور زکوٰۃ کی ادا ئیگی کے ساتھ معلق قرار دیا گیا ہے ۔جو نماز ادا نہیں کر تا وہ مؤمنوں کے ساتھ اخوت کامستحق نہیں ۔ لہذا یہ بھی ان کے لئے غیر مؤمن ہو نے کی وجہ سے ان کے کفر کی دلیل ہو ئی ۔ چوتھا مقام سورۃ الماعون کی آیت 4 ، اور5 ہیں جو کہ نماز میں عدمِ پابندی وعدمِ محافظت اور اسے وقت سے بے وقت کر کے پڑھنے سے متعلقہ موضوع کے ضمن میں بھی گزری ہیں جن میں اللہ نے ان نمازیوں کیلئے ’’ویل‘‘ کی وعید سنائی ہے جو نمازوں سے بے خبر ہیں ۔ وہاں اس بے خبر ی کا معنیٰ نمازوں کو بے وقت ادا کرنا لیا گیا تھا جبکہ بعض اہلِ علم نے بے خبر ی سے مراد ترکِ نمازبیان کی ہے ۔

مثلاً حیوہ بن شریح ، ابو صخر کے حوالہ سے بیان کر تے ہیں کہ انہوں نے محمد بن کعب القرظی سے{ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَـٰـوتِھِمْ سَاھُوْنَ} کامعنیٰ پوچھا تو انہوں نے جواب دیا :اس آیت میں نماز سے بے خبر سے تارکِ نماز مراد ہے۔ اگر اس تفسیر کونہ بھی لیا جائے اور کہا جا ئے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ والی موقوف اور حسن درجہ کی تفسیر میں اس سے مراد نماز میں عدمِ پابندی ہی ہے توپھر ان دونوں میں سے پہلی آیت میں جو’’ویل‘‘ کی وعید ہے وہ قرآنِ کریم کے اکثر مقامات پر کفار کے لئے وارد ہوئی ہے اور صرف دومقامات پر غیر کفار یعنی فاسقین کے لئے وارد ہوئی ہے ۔ قرآن مجید کا پانچواں مقام جس سے تارکِ نماز کے کفر پر استدلال کیا جا تا ہے وہ سورۃ مریم کی آیت59 ہے ،یہ بھی نماز میں عدمِ پابندی کے ضمن میں ذکر کی جاچکی ہے اس میں ارشادِ الٰہی ہے پھر ایسے ناخلف لوگ ان کے جانشین بنے جنہوں نے نماز کو ضائع کر لیا اورنفسانی خواہشات کی پیر وی کی ، عنقریب وہ غیّ یا گمرا ہی سے دو چا ر ہوںگے۔

اگلی آیت60 میں فرمایا سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے توبہ کی اور ایمان لا ئے اور اچھے عمل کئے وہ جنت میں داخل ہوں گے ، اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہو گی ۔ آیتِ اول میں مذکور’’غیّ‘‘ کی تفسیر ذکر کی جا چکی ہے کہ یہ جہنم کی ایک گہری وادی ہے جس میں اہلِ جہنم کی پیپ بہتی ہے ۔ان آیات سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ اللہ نے یہ جگہ نماز کو ضائع کر نے اور خو اہشات کی پیروی کرنے والوں کے لئے بنائی ہے ۔ اگر تارکِ نماز گنا ہگا رمسلمانوں کے ساتھ ہو تا تو جہنم کے کسی اوپر کے طبقے میں ہوتا نہ کہ اس گہری کھائی میں جبکہ یہ گہری کھا ئیاں یا وادیاں اہلِ اسلام کانہیں بلکہ کفار کاٹھکانا ہیں ۔

یہیں ایک دوسری دلیل بھی موجود ہے اور وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عنقریب وہ غیّ کے انجام سے دو چارہوں گے سوا ئے ان لوگوں کے جنہوں نے توبہ کی ، ایمان لائے اور اچھے عمل کئے ۔اِن الفاظ سے بھی بے نماز کے کفر کاپتہ چلتا ہے کیونکہ اگروہ مومن مسلمان ہی رہتا تواس کی توبہ کے ساتھ اس کے ایمان لا نے کی شرط نہ ہوتی جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں توبہ کے ساتھ ایمان لا نے کابھی ذکر کیا ہے جواس کے کفر یعنی اہلِ ایمان میں سے نہ ہونے کی دلیل ہے ۔

 

(مکمل مضمون روشنی 18نومبر کے شمارے میں ملاحظہ کریں)

شیئر: