Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’مری بیوی بھی بایومیٹرک تصدیق کرتی ہے‘‘

ہمارے معاشرے میں لوگ بیویوں کو اس قدر سرپر سوار کرلیتے ہیں کہ پھر انہیں پشیمانی اٹھانی پڑتی ہے

 

ڈاکٹرعابد علی۔ مدینہ منورہ

بیوی جسے انگلش میں وائف، عربی میں زوجہ، سندھی میں زال، ڈینش میں کون ، فرنچ میں فیم ، جرمن میں ایہی فراؤ، اٹیلین میں موگلی، پولش میں زونا، پورٹوگیزی میں اسپوسا، سویڈش میں فرو ، ہندی میں لگائی، ازبک میں رفیقہ، فارسی میں زن ، تگالو میں اساوااور ملائی میںاستری کہاجاتا ہے، اس نام سے پہچانی جانے والی شخصیت سے کون واقف نہیں۔

میرے ایک دوست کی بیوی کا نام ثروت ہے۔ مذاق میں ، میں اسے صاحب ِ ثروت کہہ کر پکارتا ہوں۔ کہتے ہیں اپنی غلطی پر ہنسنا آپ کی زندگی کو لمبا کردیتا ہے جبکہ اپنی بیوی کی غلطی پر ہنسناآپ کی زندگی کو مختصر کردیتا ہے۔ بیوی کو تھپڑ مارکر شوہر بولا، آدمی اسی کو مارتا ہے جس سے وہ پیار کرتا ہے۔ بیوی نے جواباً دو تھپڑ اور چار لاتیں رسید کر کے کہا’’ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ میں آپ سے پیار نہیں کرتی؟‘‘ سنا ہے تھپڑ کھانے سے گالوں پر فنگر پرنٹس ابھرآتے ہیں ۔

بقول شاعر:

جماکر روزگالوں پر مرے دوچارچھ تھپڑ

وہ میرے شوہرانہ خوف کی تحقیق کرتی ہے

مرے گالوں پہ چھپ جاتے ہیںخودفنگر پرنٹ اسکے

مری بیوی بھی بایومیٹرک تصدیق کرتی ہے

ہمارے معاشرے میں لوگ بیویوں کو اس قدر سرپر سوار کرلیتے ہیں کہ پھر انہیں پشیمانی اٹھانی پڑتی ہے ۔ مرد2 قسم کے پائے جاتے ہیں، ایک وہ جو بیوی سے ڈرتے ہیں ،دوسرے وہ جن کی بیویاں ان سے نہیں ڈرتیں۔ گھر سے باہر پولیس آفیسر شیر بنا پھرتا ہے لیکن گھر میںآنے کے بعد بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ اپنے گھر میں گم صم زندگی گزارنے والے گھر سے باہر ایک اچھے مقرر ، شاعر یا ادیب ہوتے ہیں اور وہ افراد جن کو بیگم کی جلی کٹی باتیں سننا پڑتی ہیں، وہ عموماً نقاد ضرور بن جاتے ہیں۔ مارک ٹوئین سے کسی نے پوچھا کہ آپ اتنا اچھا مزاح کس طرح تخلیق کرلیتے ہیں؟ تو اس نے کہا کہ میں جو کچھ لکھتا ہوں اپنی بیگم کو ضرور پڑھاتا ہوں ۔جن فقروں پر وہ زور زور سے قہقہے لگاتی ہے میں انہیں اپنے مضمون سے نکال دیتا ہوں اور جن کو پڑھ کر وہ بالکل نہیں ہنستی انہیں رہنے دیتا ہوںکیونکہ ان جملوں پر ساری دنیا ہنستی ہے۔ اسد جعفری کہتے ہیں:

اے مری بیگم نہ تومیری خودی کمزور کر

یہ شریفوں کا محلہ ہے نہ اتنا شور کر

شب کے پر تسکین لمحوں میں نہ مجھ کو بور کر

اس سعادت مند شوہر کو نہ یوں اگنور

کر ہمارے معاشرے میں لوگ بیویوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں:

٭پولیس : سب مجھ سے ڈرتے ہیں اور میں بیوی سے۔

٭موچی: میںجوتوں کی مرمت کرتا ہوں اور بیوی میری۔

٭اداکار:میں ڈراموں میں اداکاری کرتا ہوں اور بیوی حقیقت میں۔

٭ٹیچر : میں اسکول میں مسلسل بولتا ہوں اور گھر میں صرف سنتا ہوں۔

٭کرکٹر : میں گراؤنڈ میں چوکے چھکے مارتا ہوں اور بیوی گھر میں۔

٭افسر : میں دفتر میں افسر ہوں اور گھر میں ادنیٰ سا ملازم۔

٭جج : میں کورٹ میں انصاف دیتا ہوں اور گھر میں انصاف طلب کرتا ہوں۔

٭ناظم : میں علاقے میں خوشحالی لاتا ہوں اور گھر میں اپنی بدحالی پر روتا ہوں۔

٭وزیر: میں سارے ملک کا دورہ کرتا ہوں اور گھر میں مجھے دورے پڑتے ہیں۔

٭سیاستدان : میں عوام سے جھوٹے وعدے کرتا ہوں اور بیوی سے کھری کھری سنتا ہوں۔

٭مصنف : میں صرف خیالات بنتا ہوں۔ کہتے ہیں دنیا میں مردوں کو زندہ رہنے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے’’ دولت ، بیوی اور بیوی سے چھٹکارا۔ ‘‘دنیا کے تمام شوہر تاج محل بنواسکتے ہیں بشرطیکہ ان کی بیویاں مرنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ دنیا میں اکثر بری چیزوں کا نام ’’ب‘‘ سے شروع ہوتا ہے مثلاًبدروح، بدمزاج، بدتمیز، بے شرم ، بے حیاء وغیرہ وغیرہ۔

شیئر: