Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’سیاست! سیاستدانوں کے بچوں کاکھیل ‘‘

الیکٹرانک میڈیا سے خواتین اور بچے’’3ف‘‘بہت دلجمعی سے سیکھ رہے ہیں اور وہ ہیں’’ فیشن ، فحاشی ،فضولیات‘‘

 

ثمینہ عاصم ۔ جدہ

ہماری ایک سہیلی کے منہ سے ایسا جملہ نکل گیا جسے کم از کم ہم نے اسے گزشتہ100سال کے دوران بیان کیاجانے والا سب سے بامعنی، بامقصد اور باکمال جملہ قرار دیا ہے ۔اسے جملہ نہیں بلکہ’’ فرمودہ ‘‘ کہنا زیادہ موزوں اور مناسب ہے کیونکہ یہ پاکستان گیر حقیقت اور دو نسلوں کی باہم رغبت بیان کرتا ہے ۔ہماری سہیلی نے فرمایا کہ ’’سیاست ! سیاستدانوں کے لئے بچوں کا کھیل ہے‘‘،یہ پاکستان کے طول و عرض میں جانی، مانی اور پہچانی حقیقت ہے ۔ اب ذرا اس میں سے لفظ ’’لئے‘‘ منہا کر دیں توایک اور عقدہ یوں عیاں ہوتا ہے کہ ’’سیاست! سیاستدانوں کے بچوں کا کھیل ہے۔‘‘

آپ دنیاکے جھمیلوں سے چند لمحے کے لئے نجات حاصل کرکے دل کی گہرائیوں سے غور کیجئے کہ ہماری سہیلی نے کتنی ’’بھیانک حقیقت ‘‘کتنے خوبصورت الفاظ میں نظر نواز کی ہے۔ اس فرمودے کے علاوہ ہماری سہیلی نے جو کچھ کہا وہ ’’ٹرٹر‘‘ کے زمرے میں آتا ہے ۔ مثلاً وہ یوں گویا ہوئیں کہ : ہمارے ہاںجن سیاست کاروں کے پاس پیسہ ذرا کم ہوتاہے، وہ انتخابات بھی بلدیات وغیرہ کے یعنی نسبتاً کم درجے کے’’لڑتے ، جھگڑتے ‘‘ہیں۔ ایسا سیاستکار بلدیاتی عہدے کے لئے ووٹ مانگتا ہے اور ووٹروں میں بریانی تقسیم کرتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ ’’بریانی کھائی جاؤ ، ووٹ پائی جائو‘‘۔ رہے ہمارے عوام بے چارے توان کی حالت اتنی خستہ ہو چکی ہے کہ وہ ایک پلیٹ بریانی کے بدلے اپنا ا نتہائی قیمتی ووٹ قربان کر دیتے ہیں۔

یوںنہ صرف وہ اپنے حقِ رائے دہی کا ستیا ناس کر تے ہیں بلکہ بھوک سے چند گھنٹوں کی نجات کے عوض عوام پرکئی سال کے لئے ایک ناکارہ یا غیر کارکرد قسم کی ہستی کا بوجھ لاد دیتے ہیں۔ یہ لوگ انتہائی سیدھے سادھے ہوتے ہیں۔ وہ جس کی بریانی کھاتے ہیں، اسی کو ووٹ دیتے ہیں۔ ان سے کہا جائے کہ آپ ’’الف‘‘ سے بریانی لے کر کھالو مگر ووٹ ’’بے‘‘ کوڈال دو تو وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر کہتے ہیں کہ ہمیں اُلٹی پٹیاں نہ پڑھائیں، ہم جس کا کھاتے ہیں، اسی کے گُن گاتے ہیں۔ ہم نے کچھ اور سیکھا یا نہیں سیکھا، نمک حلالی ضرور سیکھی ہے۔ جن سیاسی ہستیوں کے پاس نہ بہت کم اور نہ بہت زیادہ بلکہ درمیانے درجے کی دولت ہوتی ہے ، ان میں بعض ایسے ہوتے ہیں جو صوبے شوبے کی اسمبلی کی رکنیت کے لئے انتخابی میدان میں اُترتے ہیں۔ یہ لوگ عموماً سلائی مشین یا اس کے ہم پلہ کوئی دوسری کارآمد شے کے عوض لوگوں سے ووٹ مانگتے ہیں۔ وہ ووٹروں سے کہتے ہیں کہ ’’مشین چائی جاؤ، ووٹ پائی جائو۔‘‘

جن سیاست دانوں کے پاس’’ لوٹمار‘‘ کی دولت ہوتی ہے، انکی تجوریاںاتنی بھر جاتی ہیں کہ ان میں سے اکثر کے منہ پھٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض سیاسی ہستیاں ایسی ہو تی ہیں جو ووٹ لینے کے لئے لیپ ٹاپ جیسی قیمتی ’’اشیائے تعیش‘‘عوام میں تقسیم کرتی ہیں۔ یہ لوگ عموماًقومی سطح پر ’’انتخابات لڑتے جھگڑتے ‘‘ہیں ۔ معاشرے کی خرابی کا ایک اورذمہ دار ہمارا الیکٹرانک میڈیا ہے جو عوام کوبعض ایسے پروگرام بھی دکھاتا ہے جو فتنے سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ان میں نہ تہذیب کا کوئی شعور ہے ہوتا ہے، نہ فنون لطیفہ کا کوئی ذوق۔ ان سے ہماری عمومی معلومات میںبھی کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔

الیکٹرانک میڈیا سے خواتین اور بچے’’3ف‘‘بہت دلجمعی اور تیزی کے ساتھ سیکھ رہے ہیں اور وہ ہیں’’ فیشن ، فحاشی ،فضولیات ۔‘‘ ہم تبدیلی کے نعرے خوب لگاتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ تبدیلی کے لئے ہمیں صرف سیاستدانوںکو ہی نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو بھی بدلنا ہوگا۔ تبدیلی صرف کسی ایک کے دھرنا دینے سے،ریلیاں نکالنے سے ٹائر اور بسیں جلانے، بم دھماکے اور توڑ پھوڑ کرنے سے نہیں آتی بلکہ تبدیلی لانے کے لئے مختلف اداروں ، میڈیا،صحافت ، فنون لطیفہ ، مصوری ہر چیز کو احساس دلانا ہوگا یہ سب کوششیں کریں گے تو تبدیلی آئے گی۔سب کو قانون کا پابند بنانا ہوگا۔ یہ قانون سب کے لئے ایک جیسا ہونا چاہئے ۔ چاہے وہ غریب ہو، امیر یا وزیر ۔

شیئر: