Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پلیز!ذرا سی ’’ٹپ‘‘ دے دیجئے

ہر مقام کی طرح ہوٹل کی بھی کچھ روایات ہوتی ہیں،آپ جب بھی کسی معقول ہوٹل میں جائیں تو وہاں بیرا آپ کا استقبال کرتا ہے

 

ابو غانیہ ۔ جدہ

ہوٹل ایسی جگہ ہے جہاںوضع وضع کے پکوان تیار کئے جاتے ہیں چنانچہ کوئی ضرورت کے تحت، کوئی اپنی خوشی سے اور کوئی محض اپنوں کی خوشی کے لئے زندگی میں کبھی کبھار یا بے شمار باروہاں جاتا ضرور ہے ۔ہر مقام کی طرح ہوٹل کی بھی کچھ روایات ہوتی ہیں ۔آپ جب بھی کسی معقول ہوٹل میں جائیں تو وہاں بیرا آپ کا استقبال کرتا ہے، کرسی پر بیٹھنے کیلئے کہتا ہے، میز صاف کرتا ہے اور پھر مینیو لا کر سامنے رکھ ریتا ہے۔ آپ اس میں سے پکوان منتخب کر کے بیرے کو بتاتے ہیں۔ وہ کچھ دیر کے بعد آپ کے سامنے میز پر کھانا لا کر رکھ دیتا ہے۔ کھانے کے بعدبیرا آپ کو بل پیش کرتا ہے ۔ یہ سب اس کے منصبی فرائض میں شامل ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود جب آپ بل ادا کرتے ہیں تو آپ پر اخلاقی دباؤ اتنا ہوتا ہے کہ آپ بیرے کو اس کی خدمات کی ستائش کے طور پر کچھ رقم دیتے ہیں جسے انگریز نے ’’ٹپ‘‘ کہا اور اردو دانوں نے اسے ’’بخشش‘‘ کا نام دے دیا۔یہ بخشش یا ’’ٹپ‘‘ ایسی روایت ہے جو کم از کم ہمارے اس دنیا میں آنکھ کھولنے کے وقت سے چلی آ رہی ہے۔کسی کی جیب میں پیسے نہ بھی ہوں تو وہ بیرے کویہ سوچ کر ’’ٹپ‘‘ ضرور دیتا ہے کہ جب میں ہوٹلنگ جیسی ’’عیاشی‘‘ کا متحمل ہو رہا ہوں تو ’’ٹپ‘‘ بچا کرکیا کرنا۔ ویسے بھی ایسا کیا تو میں بیرے کی نظر میں ’’رسوا‘‘ ہو جاؤں گا۔اب ذرا زیر نظر تصویر پر غور کیجئے ۔

یہ لاہور میں دریائے راوی کے قرب میں زندگی گزارنے والے بچے ا ور بچیاں ہیں۔راوی کے ہمسائے ہونے کے ناتے انہیں بھی ہم بصد معذرت ’’راوینز‘‘ کہنے کی جسارت کر رہے ہیں کیونکہ یہ سب نہ سہی، ان کی اکثریت ممکن ہے ’’یو جی سی‘‘ میں تعلیم حاصل کر کے سچ مچ ’’راوینز‘‘ کہلانے کے حقدار ہوجائیں مگر فی الحال یہ’’ معمارانِ استقبال‘‘بے در و دیوارمادر علمی کے کچے صحن میں بیٹھے اپنا سبق یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی استانی انہی ’’عبرتناک حالات‘‘ میں بچوں کو اچھا انسان بنانے کی اپنے تئیں سرتوڑ کوشش کرنے میں مشغول ہے۔حیرت اس بات پر ہے کہ یہ اُس سرزمینِ پاک پر کھلنے والے وہ کمزور پھول ہیں جہاں کی طاقتور ہستیاں لاکھوں یا کروڑوں نہیں بلکہ اربوں اور کھربوں کی بدعنوانی کے ’’الزامات‘‘ کی زد میں ہیں۔

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ ’’طاقتور ہستیاں‘‘ہوٹل میں کھانا کھانے والے ’’عیاش غریب ‘‘ سے بھی گئی گزری ہیں ۔ اگر وہ 300روپے کا کھانا کھا کربیرے کو 30روپے بطور’’ٹپ‘‘ دے سکتا ہے توکیا یہ ہستیاں قوم کو اتنی ’’ٹپ‘‘ نہیں دے سکتیں کہ ملک کے مختلف شہروں میں ’’اسکول‘‘ کے نام پر کھڑی کی گئی ایسی بے یار و مددگار عمارتوں کودر و دیوار عطا کر دیئے جائیںتاکہ ایسی’’ مادرانِ علم کو اپنے مستور ہونے‘‘ کااحساس ہوسکے اور یہ معصوم معماران، تحفظ کے احساس سے معمور ہو کر تعلیم حاصل کر سکیں۔’’کھانے ‘‘ والوں سے درخواست ہے کہ پلیز!ذرا سی ’’ٹپ‘‘ دے دیجئے۔ اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

شیئر: