Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرنسی کی منسوخی

 
مودی حکومت دیانتداری کا تاثر قائم کرنے میں ناکام , اسکے اقدام پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں اور مقصد پر انگلی اٹھائی جارہی ہے
 
کلدیپ نیر
 
کرنسی کی منسوخی پر بحث سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اراضی و املاک کے تاجروں نے صرف 5 فیصد نقد کاروبار کیا اور 95 فیصد ہنڈی کے ذریعے۔ یہ فرق بہت بڑا ہے اس سے دونوں طرف برتی گئی ایمانداری اور مفاہمت بھی ظاہر ہوتی ہے۔
تاہم مودی حکومت دیانتداری کا تاثر قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے اقدام پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں اور مقصد پر انگلی اٹھائی جارہی ہے۔ یوں بحث شاید بدقسمتی سے پڑی سے اتر گئی ہے کیونکہ پورا زور نوٹ بندی سے ہونے والی دشواری پر دیا جارہا ہے نہ کہ بذات خود اس اقدام پر ۔ اس میں شک نہیں کہ ملک سے باہر جمع شدہ یا ملک مخالف عناصر کے پاس پڑے پیسے کے چلن پر روک لگ جائے گا لیکن اس سے تو گیہوں کےساتھ گھن بھی پس رہا ہے۔ بیرون ملک بہت سے کاروباریوں کوکرنسی تبدیل کرنے میں مشقت کا سامنا کرنا پڑےگا۔ بعضوں کا تو کاروبار بھی ختم ہوسکتا ہے لیکن اگر اس سے مجموعی مقصد حاصل ہوتا ہے تو یہ قدم اٹھائے جانے کے قابل ہے۔ مخالف پارٹیوں کا اس مسئلے پر متحد ہونافطری ہے اور سمجھ میں آتا ہے۔ وہ غیر محسوب رقوم جن سے وہ اپنا کام کرتے ہیں ان کے پاس نہیں رہ جائےگی۔ بی جے پی پر یہ الزام بھی لگایا جارہا ہے کہ اس نے اپنے لوگوں کو اس اقدام سے آگاہ کردیا تھا تاکہ وہ پیسہ بینک میںمنتقل کردیں۔
کرناٹک کی ایک ایسی مثال ہے جہاں نوٹ بندی کے دن ہی کرنسی نوٹ جمع کئے گئے تھے۔ اچھا ہے یا برا ، یہ قدم اٹھایا جاچکا ہے اوراسے کامیاب بنانے کیلئے متحد ہونا قومی مفاد کا تقاضا ہے۔ اعلیٰ سرکاری عہدیداروں اور سیاستدانوں میں سے چند ہی ہیں جن پر غیر ملکی بینکوں میں جمع پیسہ رکھنے کا داغ نہ لگا ہوا ہو لیکن بیرون ملک جمع کالی دولت کی واپسی کا دباوبرابر پڑتا رہا ہے اور یہ مطالبہ بدعنوانی کے خاتمے کی تحریک کا حصہ بن گیا ہے۔
حکومت کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کے بجائے کالی دولت کو منظرعام پر نہ لانے کیلئے پوری طرح کوشاں نظر آرہی ہے ۔ سپریم کورٹ کی اس ہدایت پر حکومت کے وضاحت طلب کرنے کی کیا وجہ ہے کہ بیرونی ممالک بینکوں میں ہندوستانی شہریوں اور دیگر اداروں کی جمع شدہ غیر محسوب رقم شہریوں کی بہبود کیلئے اساسی اہمیت رکھتی ہے۔
بدعنوانی کے مسئلے پر حکومت کی ٹال مٹول پر عدالت عظمیٰ کی سرزنش کا یہ پہلا واقعہ نہیں ۔ ماضی میں بھی عدالت نے کالی دولت سے متعلق مقدمات کی تفتیش کے معاملے میں حکومت کے طریقہ کار پر ناگواری کا اظہار کیا ہے۔ عدالت نے حکومت کو اس مفروضے سے خبردار کیا تھا کہ سوئٹزرلینڈ میں چھپائی ہوئی دولت ٹیکس کی چوری سے آئی ہے۔ یہ نشیلی دواوں ، دہشتگردی یا کسی مجرمانہ عمل سے کمائی ہوئی دولت کے ناجائز دھندے کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔ حکومت کو اب بھی ٹیکس چوروں کے ناموں کو جاننے کیلئے غیر ممالک سے دہرے ٹیکس کاری معاہدوں کے طریقے کی ترجیح کا جواز فراہم کرنا ہے۔
2006 ءمیں سوئس بینک کاری انجمن کی رپورٹ کے مطابق سوئس بینکوں میں ہندوستانی کالی دولت سب سے زیادہ یعنی تقریباً 1456 بلین ڈالر تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ رقم دیگر تمام ممالک کی مجموعی رقم سے زیادہ ہے۔ رقم کے اعتبار سے یہ مقدار ملک کے غیر ملکی قرضوں سے 13گناہ زیادہ ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان کے تقریباً 45 کروڑ لوگوں میں سے ہر شخص کو ایک لاکھ روپے مل سکتے ہیں۔
تمام تر غیر ملکی قرضوں کو چکانے کے بعد بھی حساب یہ بنتا ہے کہ ہمارے پاس کل غیر ملکی قرضوں سے 12 گنا زیادہ بچ رہے گی مگر اس اضافی رقم کی سرمایہ کاری کردی جائے تو اس کا سود ہی مرکزی حکومت کے سالانہ بجٹ سے زیادہ ہوگا۔ اس طرح اگر تمام ٹیکس ہٹا دیئے جائیں تب بھی مرکزی حکومت ان میں سے اکثر کو اٹھالینے کے بعد بھی خسارے میں نہیں رہے گی۔
تحقیقات میں کم اعتمادی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کالی دولت سے متعلق تمام مقدمات کا تعاقب کرنے کی غرض سے سپریم کورٹ کے 2سبکدوش ججوں کی سربراہی میں خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی تشکیل کی۔ عدالت خود تفتیش میں پیشرفت کی نگرانی کررہی ہے۔ فیصلہ صادر کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے محسوس کیا کہ سیاستداں، افسر شاہ اور تاجر اپنی دولت غیر ملکوں میں جمع کرنے اور پھر غیر ملکی ادارہ جاتی ذرائع سے ملک میں لانے کیلئے مشہور ہیں۔
یہ بہت چبھتا ہوا تبصرہ ہے لیکن ہے لفظ بہ لفظ صحیح۔ حکومت پر شاید ہی اس کا کوئی اثر ہو جس نے بیرون ملک کالی دولت کے معاملے پر کوئی مستعدی نہیں دکھائی۔ ظاہر ہے کہ کانگریس کے زیر قیادت حکومت بعض ناموں کو منظرعام پر لانا نہیں چاہتی تھی کیونکہ ان کے انکشاف سے وہ پریشانی میں پڑ جائےگی۔ اب حکومت مشکل میںپڑ گئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اسے جرمنی سے دہرے ٹیکس معاہدہ کے تحت کچھ نہیں تو 26 نام ملے تھے۔ جرمنی نے سیکڑوں استفادہ کنندگان کے نام محفوظ رکھے تھے جو اس نے استفسار کرنے والے تمام ممالک کو پیش کردیئے تھے۔ نئی دہلی کے بس میں انکار کرنا نہیں تھا۔پھر اُس وقت کے وزیر مالیات پر نب مکھرجی نے یہ کیوں کہا کہ استفادہ کنندگان کے نام ظاہر نہیں کئے جا سکتے۔اگر وہ اِن ناموں کا انکشاف نہ کرنے پر مجبور ہیں تو یہ نئی دہلی کی غلطی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس قیل و قال کو مسترد کرتے ہوئے حکومت سے ناموں کو ظاہر کرنے کیلئے کہا ہے ۔ پھر بھی حکومت اس پر راضی نہیں ۔ بی جے پی اور قومی جمہوری اتحاد(این ڈی اے) میں اس کے حلیفوں نے کہاکہ بیرون ملک ان کی کوئی رقم نہیں ۔ اس بیان کو تو کانگریس اور اس کے حلیفوں پر دباوکا کام کرنا چاہیئے ۔ ہوسکتا ہے کہ بعض حلیف حکومت سے کنارہ کش ہونے لگیں۔ 26 ناموں پر سے پردہ اٹھانے کے سوا اس کے سامنے کوئی راستہ نہیں۔ پھر توفساد پھوٹ پڑے گا۔
میں نے ہندوستان کو بدعنوانی میں اتنا شرابور نہیں دیکھا جتنا یہ آج ہے اور یہ بات بھی ہے کہ اس سے پہلے حکومت پر اتنی زیادہ تنقیدیں سننے کو نہیں ملیں۔ ہاں جس بات کی کمی ہے وہ یہ ہے کہ معاشرہ میں کہیں سے مزاحمت نہیں ہورہی کہ کوئی اٹھ کر غلط کو علی الاعلان غلط کہے۔
مقررہ ضابطے کے ذریعے چھان بین کی بات تو سمجھ میں آنے والی ہے لیکن یہ عمل اتنا سست رفتار اور بدعنوانی کے ذریعے جوڑ توڑ سے اتنا بھرا ہوا ہے کہ قصور وار کو پکڑنا اور سزا دینا برسوں تک ممکن نہیں۔ حکومت کو ضرور ایسا کوئی نظام وضع کرنا چاہیئے کہ بدعنوانی کے الزام کی چھان بین فوری تاثر پر مبنی شہادت کی روشنی میں کی جاسکے۔
******

شیئر: