Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ ’’آؤٹ پاس‘‘ کے بغیر ہی ملکِ عدم روانہ ہو گیا

نور الدین22سال تک دستاویزات کے منتظررہے ، وہ مجھ سے کہتے کہ میرے گھر پاکستان فون کرو مگر وہاں سے جواب ملتا کہ ہم کسی نور دین کو نہیں جانتے

سبین علی ۔ جدہ

نور دین پر کھانسی کا شدید دورہ پڑا تھا۔ کئی دنوں سے وہ مسجد کے بیرونی چھپر تلے ڈیرہ ڈالے ہوئے تھا۔ جدہ شہر کے اس گنجان محلے میں بہت سے پاکستانی، بنگلہ دیشی اور ہندوستانی ملازمین رہائش پذیر تھے۔ چند پاکستانی ہمدرد پچھلے 2سال کے دوران اسے وطن واپس بھجوانے کی کئی سنجیدہ کوششیں کر چکے تھے۔ اس بار کئی لوگوں نے مل کر پیسے بھی جمع کئے۔ اسے ترحیل کے ذریعے وطن واپس بھجوانے کی کوشش بھی کی مگر حج سیزن ختم ہونے کے بعد شہر کی مرکزی سڑکوں اور پلوں کے نیچے غیر قانونی مقیمین کا ایک جم غفیر تھا جو ترحیل کے ذریعے ڈی پورٹ ہونے کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر واپس جانا چاہتا تھا، ایسے میں نور دین کی شنوائی کہاں ہوتی۔ میںگاڑی ریورس کرتے کرتے نور دین کے قریب پہنچ چکا تھا لیکن اتنے سخت غبار میں گاڑی سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ سانحے ہوں یا واقعے،خبریں ہوں یا تبصرے سب گرد کی تہوں میں تو کہیں ریت کے چھلاووں میں دب جاتے ہیں مگر کہانی سینہ با سینہ، نسل در نسل، ورق در ورق سفر جاری رکھتی ہے ۔

نور دین کے لئے وہ دن بھی ایک ایسی ہی کہانی کا ورق تھا۔ پتوکی کے نور دین کی زندگی بجائے خود ایک افسانہ تھی۔ اس کی زندگی میں لوک کہانیوں اور حکایتوں جیسے کئی موڑ آئے تھے مگر کہانی کے باقی کرداروں کا رول کبھی اس کے پلے نہیں پڑ سکا۔ اپنی زندگی کے حساب کتاب کا گوشوارہ دیکھتے وہ گھٹن اور تنہائی کے عالم میں اپنی یادوں کی کتاب سے ورق ورق پلٹتا اور ٹوٹی پھوٹی باتیں کرتا رہتا تھا۔ مجھے وہ اکثر پتوکی کے قریبی گاؤں میں مغرب کے بعد کا منظر بتاتا۔اس کی چھوٹی سی نرسری، ہوا میں رچی موتیا، چنبیلی کی مہک ، گاؤں کے کمہار اور ان کے مشاق ہاتھوں میں ڈھلتی مٹی، لیور کے ساتھ پاؤں سے گھمانے والے چاک پر بہت خوب صورت گملوں میں ڈھلتی چل جاتی ۔انہی دیسی گملوں میں ایک دن قیمتی اِن ڈور پودوں کی آرائش کرتے ہوئے ایک کانٹا بہت زور سے اس کی ہتھیلی میں چبھا تھاجس کا نشان آج تک موجود ہے ۔

اکثر وہ اس نشان کو دیکھ کر مسکراتا ہے گویا کانٹوں سے بھی رشتہ داری رہی ہو ۔ گاؤں کی نیم پختہ مسجد میں عشاء کی نمازاداکرنے کے بعد وہ گھر لوٹتا تو بیوی باورچی خانے میں لکڑی کی چوکی پر چولھے کے قریب بیٹھی اس کی منتظر ہوتی ۔ پھر اس کی یادوں کے مناظر بدلتے ہیں ۔بیٹے جوان ہوئے ،الگ سے کمانے لگے تو گھر میں تنگی کے بعد قدرے خوش حالی جھانکنے لگی۔ وہ سچا مسلمان تھا، مدینہ منورہ کی مبارک گلیوں میں گھومنے کی تمنا اور کعبہ مشرفہ کے دیدار کا اشتیاق اس کی حسرت تھی۔ اس نے کمیٹیاں ڈال کر پیسے جمع کئے اور کچھ الگ سے رقم پس انداز کی۔ یوں وہ اپنی بیوی اوربیٹے کے ہمراہ عمرے کے لئے ارض مقدس پہنچ گیا۔ یہیں سے اس کی زندگی میں قصے کہانیوں اور افسانوں جیسا انقلاب رونما ہوا۔

عمرے کی ادائیگی کے بعد وہ اپنی بیوی بیٹے کے ہمراہ بلد کے بازار میں واقع اپنے کسی عزیز کی دکان پر اس سے ملنے اور کچھ خریداری کرنے آیا۔ بازار میں شدید گرمی اور گھٹن کا احساس ہونے پر وہ ایک شاپنگ سنٹر میں موجود حمام میں غسل کی نیت سے گیا۔ اس نے کپڑے دروازے کے اوپر ہی لٹکا دئیے۔ ابھی اس نے پانی کو چھوا بھی نہیں تھا کہ کسی نے حمام کے باہر سے ہی اس کے کپڑے دروازے پر سے اتارے اور چلتا بنا۔ وہ اندر آوازیں دیتا رہ گیا۔ اسی قمیص کی جیب میں اسکی کچھ رقم، پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور ہوائی ٹکٹ بھی موجود تھا ۔اس چور کا پتا نہ چلنا تھا اورنہ چلا۔وطن واپسی میں فقط ایک دن باقی تھا۔ بڑی دوڑ دھوپ کے بعد بھی کچھ سجھائی نہ دیا تو اسے لوگوں نے مشورہ دیا کہ اپنی فیملی کو بھیج دے اور بعد میں کسی طرح سفارت خانے سے آؤٹ پاس لے کر وطن واپس چلا جائے۔

قونصلیٹ سے عارضی پاسپورٹ کے حصول کیلئے اسے اپنی شناخت ثابت کرنی تھی۔ وطن میں موجود بیٹے کو تاکید کی کہ وطن جاتے ہی شناختی دستاویزات اور ’’ب فارم‘‘وغیرہ کی نقول ڈاک سے جدہ بھجوا دے۔اس وقت ڈاک بھی قدرے تاخیر سے پہنچا کرتی تھی۔ عارضی پاسپورٹ کے انتظار میں اس نے فارغ بیٹھنے کی بجائے اپنے واقف کار کی دکان پر چھوٹا موٹا کام کرنے کو ترجیح دی تاکہ اپنے میزبان پر بھی بوجھ نہ بنے۔ کوئی 2 مہینے کے بعد اس نے ملنے والی اجرت اس نے پاکستان روانہ کردی تاکہ اس رقم سے اسکا بیٹا کاغذات مکمل کروا کر اسے بھیج دے ۔شاید یہی اس کی زندگی کی فاش غلطی تھی۔ شناختی دستاویزات نہ پاکستان سے جدہ آنی تھیں اور نہ آئیں مگر ہر ماہ اس کی جانب سے پس انداز کی ہوئی رقم پاکستان پہنچتی رہی ۔ پھر بیوی اور اولاد نے بھی اس کی طرف سے کان ڈھانپ لئے ۔اُلٹا اسے کہتے کہ اچھا روزگار لگا ہوا ہے، یہاں آ کر کیا کرنا ہے؟ پاکستان میں کیا رکھا ہے سوائے مسائل کے؟ 2 سال بعد بڑی بیٹی بیوہ ہو کر میکے کی دہلیز پر آن بیٹھی اور نور دین کی ذمہ داریوں میں نیا اضافہ ہو گیا ۔ ہر مہینے بیوہ بیٹی کی کفالت کیلئے اسے الگ سے پیسے بھیجنا پڑتے ۔بڑھاپے میں اعضاء جواب دینے لگے، وزن اٹھانا اور مزدوری کرنا دوبھر ہوا تو مانگنا شروع کر دیا۔ 2 عشرے یونہی بیت گئے ، وطن سے شناختی دستاویزات ہی نہ آئیں ۔

کچھ عرصے سے وہ مسجد کے باہر بیٹھا نظر آنے لگا۔بڑھاپا بجائے خود ایک بیماری ہے۔ اوپر سے اپنوں کی خود غرضی اور بے اعتنائی نے اس کی صحت اتنی گرا دی کہ چند دنوں کا مہمان لگنے لگا ۔ محلے داروں نے کئی مرتبہ اسے وطن بھجوانے کی کوشش کی مگر قونصلیٹ سے آؤٹ پاس نہ مل سکا ۔اس حوالے سے جب استفسار کیاجاتا تو کہا جاتاکہ اس کا پاکستان میں کوئی شناختی ریکارڈ موجود نہیں اس لئے مشکوک شہریت کی بناء پر اسے آؤٹ پاس نہیں مل سکتا ۔

ایک باروہ پکڑا بھی گیا مگر محکمے والوں نے اس پر ترس کھا کر اسے پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ کسی طرح اپنے وطن سے کاغذات منگوا لو تاکہ تمہارا سفارت خانہ تمہیں آؤٹ پاس بنا دے۔ ریت کے غبار میں اس دن نور دین کو یوں بے یارومددگار پڑا دیکھ کر میرا دل بہت دکھا۔مجھے یاد آیا جب میرے بابا فوت ہوئے ، میں دبئی میں نوکری کرتا تھا اور بڑا بھائی انگلینڈ جا بسا تھا۔ محلے والوں نے دروازہ توڑ کر میت باہر نکالی تھی۔ نور دین کو دیکھ کر مجھے اپنے بابا بہت یاد آئے۔ میں نے سوچا کہ اسے یوں پردیس میں اکیلے نہیں مرنا چاہئے۔نور دین نے مجھے دیکھ کر کھانسی بمشکل روکتے ہوئے کہاکہ ’’پتر! میں نے پاکستان کااپنا فون نمبر تجھے دیا تھا ، بتا کیا کہتے ہیں میرے گھر والے، کاغذات کب بھیجیں گے؟ اب اخیر ویلا آ گیا ہے بڑی خواہش ہے اپنے گاؤں میں جا کر دم دوں ۔ یہاں مر کھپ گیا تونجانے مجھے کون کہاں دفنائے گا؟ میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہاکہ’’بابا تم فکر نہ کرو، ہم کسی نہ کسی طرح تمہارا آؤٹ پاس بنوا دیں گے۔ اب تو سارا کچھ کمپیوٹر پر آ گیا ہے۔ کہیں نہ کہیں آپ کا نام بھی نادرا والوں کو مل جائے گا ۔ اچھا رب کریم تیرا بھلا کرے پتر۔ اپنی اولاد کو تو پروا نہیں، میں جیوں یا مروں ان کی بلاسے۔ انہیں تو بس پیسے چاہئیں ۔خواہ سارا مہینہ بھیک مانگ کے جمع کروں، مگر میں اب انہیںپیسے نہیں بھیجوں گا ۔یہ دیکھو2000 ریال جمع ہیں۔ کیا اتنے میں جہاز کا ٹکٹ آ جائے گا؟میں نے کہا کہ ’’بابا! آپ پیسوں کی فکر نہ کریں، ٹکٹ بھی آ جائے گا بس حوصلہ نہ ہاریں۔آپ کو ضرور واپس بھیجیں گے ۔میں ذرا آپ کے ڈیرے والوں کو فون کرلوں۔ انہوں نے آپ کو اکیلے باہر کیوں نکلنے دیا؟ یہ کیا کہ مسجد کے باہر پڑے ہوئے ہیں ۔ پھر دمے کا دورہ پڑ گیا تو پریشانی ہوگی ۔

نور دین سنی ان سنی کرتے ہوئے کہنے لگے!پتر تو نے پاکستان فون کیا؟ تجھے نمبر دیا تھا تو نے وعدہ کیا تھا تو فون کرے گا… میرے کاغذ منگوائے گا۔ نور دین کو سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے میں نے انہیںاپنی گاڑی میں بیٹھنے کیلئے کہا تاکہ انہیں ان کے سابقہ ڈیرے پر چھوڑ آؤں مگر وہ بضد تھے کہ ڈیرے پر نہیں جانا بلکہ میرے سامنے ہی پاکستان میرے گھر فون کرو۔ کھانس کھانس کر ان کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں اور پسلیاں دھونکنی کی مانند چل رہی تھیں۔میں نے کہا بابا آپ یہاں سے چلو، اللہ کریم واپسی کی کوئی سبیل نکال دے گا۔ویسے جو نمبر آپ نے دیا تھا میں نے وہاں کئی مرتبہ فون کیا مگر … مگر کیا پتر … بتا نا ں،ابھی دو چار مہینے پہلے ہی پیسے بھیجے تھے، گھر بات کی تھی ۔ بابا وہاں سے کوئی جواب نہیں ملتا شاید نمبر بدل گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کسی نور دین کو نہیں جانتے ۔ مگر آپ فکر نہ کریں، آپ کا آؤٹ پاس ہم بنوا دیں گے۔ نور دین کی گردن ڈھلکنے لگی … 22 سال سے کاغذات کا منتظر نور دین کسی آؤٹ پاس لئے بغیر ہی ملکِ عدم کے سفر پر روانہ ہو گیا تھا۔

محترم قارئین !

اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ۔

اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کا نام شائع نہ ہو تو ہم نام تبدیل کردینگے،مگر آپ کی کہانی سچی ہونے چا ہیے۔

ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔۔      ہم سے فون نمبر      0966122836200       ext: 3428پر بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے ۔

آپ کی کہانی اردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی

۔۔ ای میل:[email protected]

شیئر: