Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کارکردگی میں عدم تسلسل ، پاکستانی ٹیم لاعلاج؟

 
 ہیڈمکی آرتھر اپنے تجربے اور کوچنگ کے گُرسے ٹیم میں موجود بنیادی خامیوں اور تکنیک کو درست کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو بڑی کامیابی ہوگی، کرکٹ ماہرین
 
جمیل سراج۔کراچی
 
پہلے ٹیسٹ میں شکست سے قبل پاکستان کے ہیڈکوچ مکی آرتھر قومی ٹیم کی مکمل اوور ہالنگ کا عندیہ دے چکے تھے۔ عالمی درجہ بندی میں ساتویں نمبر کی ٹیم نیوزی لینڈسے ٹیسٹ ہارنے پر اب وہ مزید فکر مند اور تشویش میں مبتلا ہیں۔انہیں بیٹسمینوں کی کارکردگی میں عدم تسلسل والاعنصر اب پاکستانی ٹیم کا ” لا علاج مرض “ محسوس ہونے لگاہے۔مکی آرتھر مختصر طرز کی ٹیموں کی کارکردگی پر شدید تحفظات تو رکھتے ہی تھے لیکن کیوی دیس جاتے ہی پہلے ٹیسٹ میچ میںٹیم کی بیٹنگ ناکام ہو نے سے اب وہ زبردست دباﺅسے دوچار ہیں۔
حالیہ گفتگو میں مکی آرتھر کا کہناہے کہ وہ ٹیم کی اوور ہالنگ کے بارے میں سنجیدہ تو تھے ہی لیکن موجودہ دورہ نیوزی لینڈ میںقومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے باعث وہ اس اہم معاملے کو پہلے سے زیادہ تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میںان کی گفتگو سے یہی اندزاہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اب اس مسئلے کے دیرپا اور مستقل حل کیلئے گہری دلچسپی رکھنے کے ساتھ پوری طرح کمر بستہ بھی ہیں۔
ٹیم کی اس مجموعی صورتحال پرہیڈ کوچ کی جانب سے پیدا ہونے والے اہم معاملے پر سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ خالد محمود نے نمائندہ اردو نیوز سے گفتگو میں کہاکہ لگ یہی رہا ہے ہیڈ کوچ مکی آرتھر ٹیم اور بالخصوص ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی ”کایا “پلٹنے کیلئے کمر بستہ ہیں اور اس مشکل کام کو کر گزرنے کیلئے وہ کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔، ممکن ہے عہدہ سنبھالنے کے موقع پر انہیں پاکستانی ٹیم کی ان خامیوں کا اندزاہ نہ ہو جن سے تسلسل سے پردہ اٹھتا رہاہے۔
دوسری جانب سابق چیف سلیکٹر محسن حسن خان نے اس پر اپنے تبصرے میں کہا کہ جہاں تک ہیڈ کوچ مکی آرتھر کی قومی ٹیم کے ساتھ ہم آہنگی کا سوال ہے تو اس پر یہی کہا جائے گا کہ انہوں نے ایک ایسی ٹیم کو راہ ِراست پر لانے کی عمدہ کوشش کی ہے جس کی ابتری سب پر واضح تھی ، وہ تو اللہ بھلا کرے قومی ٹیسٹ کپتان مصباح الحق کا جنہوں نے 4 سال قبل والی قومی ٹیم کو نہ صرف سنبھالا بلکہ اپنی انفرادی اور ٹیم کی مجموعی محنت اور کارکردگی کے ذریعے اسے دنیا کی ٹاپ ٹیم بھی بنایا۔کپتان کو4 سال قبل ٹیسٹ ٹیم جس حالت میں ملی تھی اس وقت اسے نہ صرف سنبھالنے کا چیلنج درپیش تھا بلکہ ایک بکھری ہوئی ٹیم کو یکجا کرنے کا اہم مسئلہ بھی حل کرنا تھا۔ انہوں نے خندہ پیشانی ، صبر و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیم کو یکجا اور لڑنے والی سائڈ بنالیا، یہی وجہ ہے کہ ٹیم نے بتدریج کامیابی کا سفر جاری رکھتے ہوئے آج دنیا کی دوسری بہترین ٹیسٹ ٹیم کی شکل میں موجود ہے جس کا سہرا مصباح الحق کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھی کھلاڑیوں اور گزشتہ3 سیریز سے ٹیم کیلئے تعینات ہیڈ کوچ مکی آرتھر کے سر جائے گا۔ لارڈز کے ہیرو کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے جب ٹیم سے بحیثیت ہیڈ کوچ لگ بھگ5 سال قبل کنارہ کشی اختیار کی تھی تو اس وقت قومی ٹیم کی حالت بہت بہتر تھی، ہم نے بنگلہ دیش، سری لنکا کو ان کی سرزمین اور اماراتی کرکٹ وینیوزپر اور انگلینڈ جیسی بڑی ٹیم کومتحدہ عرب امارات میں کلین سویپ شکست سے دوچار کیا تھا جس سے ہماری ٹیم کی طاقت و قوت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، پھر اسی ٹیم پر مصباح الحق نے بھر پور محنت کرکے اسے جس مقام پر لا کھڑا کیا جس کی دنیا آج معترف ہے۔
جہاں تک ہیڈ کوچ مکی آرتھر کی پیشہ ورانہ کوچنگ کا سوال ہے تو انہوں نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں ٹیم ٹیسٹ کی عالمی رینکنگ میں ہند سے پہلی پوزیشن ہتھیانے میں بھی کامیاب ہوگئی تھی تاہم ہند نے ایک مرتبہ پھر پہلی پوزیشن حاصل کر لی یوں تادم تحریر ہند پہلی اور پاکستان دوسری پوزیشن پر براجمان ہے۔
سابق چیف سلیکٹرز صلاح الدین صلو ، عبدالقادر، محمد الیاس اور سابق بیٹسمین عاصم کمال نے ہیڈ کوچ کے ارادوںسے مکمل اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اگر مکی آرتھر اپنے تجربات، کرکٹ اسکلز اور کوچنگ کے گُرسے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں میں موجود بنیادی خامیوں اور تکنیک ٹھیک کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ انکی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ ان کرکٹ ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ یا تو مکی آرتھر پاکستانی کرکٹرز کی نفسیات سے ابھی مکمل آگاہی حاصل نہیں کرپائے یا پھر انہیں پرکھنے میں میاب نہیں ہوسکے، اس کیلئے ان کو مزید وقت اور محنت درکار ہوگی۔
******

شیئر: