Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہندوستانی ٹیم کی فتح ، بیٹنگ نقائص کا کیا ہوگا

 
 فاسٹ ہی نہیں اسپن بولنگ نے بلے بازوں کی کارکردگی اور بیرونی دورے کی صورت میں ٹیم کی بیٹنگ پر سوالات کھڑے کردیئے ہیں
 
اجمل حسین ۔ نئی دہلی
 
حالیہ ٹیسٹ سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں 246رنز کی جیت جہاں 84سال میں انگلستان کےخلاف دوسری سب سے بڑی جیت ہے وہیں 4سال بعد اپنی ہی سرزمین پر انگلستان کو اس نے پہلی بار کوئی ٹیسٹ میچ ہرایا ہے۔ اس سے قبل آخری ٹیسٹ میچ اس نے 2012میں 4ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ جیتا تھا۔ یہ بات دیگر ہے کہ اس کے بعد ہندوستان ممبئی اور کولکتہ میں لگاتار2 ٹیسٹ میچ ہار کر سیریز 2-1سے ہا رگیا تھا۔ وشاکھا پٹنم میں ہندوستان نے ٹیسٹ میچ جیتا ضرور ہے لیکن فاسٹ ہی نہیں معیاری اسپن بولنگ کے خلاف بھی ہندوستانی بلے بازوں نے جس خراب بلے بازی کا مظاہرہ کیا وہ یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ لگا تار ایک سال تک کئی سیریز کی میزبانی کے بعد جب ہندوستانی ٹیم بیرون ملک جائے گی تو اس وقت اس کے بلے باز اور اسپن بولرز کیاہندوستانی ٹیم کا بھرم قائم رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟
ابھی بیرون ملک سیریز کیلئے بہت وقت پڑا ہے لیکن انگلستان کے خلاف اپنی ہی پچوں پر اب تک جو2ٹیسٹ میچ کھیلے گئے ہیں ان میں سے پہلے ٹیسٹ میچ میںتو ہندوستان بمشکل تمام میچ کو ڈرا کر سکا۔ اس میچ میںپہلے توانگلستان کے بلے بازوں خاص طور پر جوئے روٹ، معین علی اور اسٹوکس نے پہلی اننگز میں اور کپتان کک نے دوسری اننگز میں سنچری بنا کر اور کمسن حسیب حمید نے 82رنز کی شاندار اننگز کھیل کر ہندوستان کے ہر قسم کے بولنگ اٹیک کو پھسپھسا ثابت کر دیا اور جب ہندوستان نے بلے بازی کی تو دونوں اننگز میں معین علی، عادل رشید اور ظفر انصاری پر مشتمل اسپن اٹیک نے ہندوستانی بلے بازوں کی جس طرح پول کھولی اس سے ہندوستانی ٹیم کی اپنے گھر میں بھی مضبوطی کھل کر سامنے آگئی۔کم و بیش یہی عالم وشاکھا پٹنم میں بھی رہا اگرچہ جیت کا سہرا ہندوستانی ٹیم کے سر بندھا لیکن اس میں بھی ٹاس کا کافی دخل رہا۔ پھر بھی مردہ پچ پر بھی اینڈرسن اور براڈ نے پہلے5 اوورز میں ہی دونوں افتتاحی بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھانے میں کامیابی حاصل کر لی اور جس وقت ہندوستان5 وکٹ پر350 رنز بنا چکا تھا تو ایسامحسوس ہورہا تھا کہ ہندوستان کم از کم 600رنز بنا لے گا لیکن ویراٹ کوہلی کے آوٹ ہونے کے بعدمعین علی اور عادل رشید پر مشتمل اسپن جوڑی نے محض29اووروںمیں باقی نصف ٹیم کو بھی صرف100رنز کے عوض آوٹ کر کے ایک بار پھر اپنی اسپن بولنگ صلاحیتوں کالوہا منوایا۔ 
دوسری اننگز میں بھی انگلستان کے بولروں کے آگے ہندوستانی ٹیم کے بلے باز ٹک نہ سکے اور 200رنز کی سبقت کے ساتھ کھیلنے کے باوجود دوسری اننگز میں صرف204رنز ہی بنا سکے۔ مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو صرف 102اوورز میںہندوستانی ٹیم 15وکٹ پر صرف 300رنز ہی بنا سکی اگر اس میچ کے اسکور میں سے ویراٹ کوہلی کی پہلی اننگز میں بنائی گئی سنچری کو منہا کر دیا جائے تو شایدہندوستانی ٹیم کا یہ ٹیسٹ میچ جیت پانا بھی محال ہو جاتا کیونکہ مردہ پچ پر جس طرح انگلستان کے فاسٹ بولروں اینڈرسن اور براڈ نے بولنگ پرفارمنس دی وہ نہایت قابل تعریف تھی اور دیسی پچ پر جہاں آخری روز رنز بنانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا ،انگلستان کا ہندوستانی ٹیم کے اسپن اٹیک کے آگے سر تسلیم خم کردینا ہندوستانی ٹیم کے بولروںکی زبردست کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔اگر کہیں معین علی اور اسٹوکس مزاحمت کرنے میں کامیاب ہوجاتے یا کک اور جو روٹ جلد آوٹ نہ ہوجاتے تو بھلے ہی انگلستان میچ نہ جیت پاتا لیکن پہلے ٹیسٹ میں جس طرح گرتے پڑتے ہندوستانی ٹیم میچ شکست سے بچنے میں کامیاب ہو گئی تھی شاید انگلستان بھی اس ٹیسٹ کو ڈرا کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔
ہندوستانی ٹیم کی اس جیت پر ایک حلقہ کا یہ کہنا کہ ہندوستانی ٹیم نے انگلستان کو کھیل کے ہر شعبہ میں پسپا کر دیا درست نہیں کیونکہ انگلستان اس ٹیسٹ کو آخری روز تک لے جانے میں کامیاب رہا تھا۔یہ میچ اگر ہندوستان نے4 روز میں ہی جیت لیا ہوتا تو یہ کہنا درست بھی تھا حالانکہ جس طرح ہوم پچوں پر ایشون ،جڈیجہ اور ان کے ساتھ کھیلنے والا کوئی بھی ہمہ وقتی یا جزوقتی اسپن بولر حریف بلے بازوں کے کشتے کے پشتے لگانے میں زبردست مہارت رکھتے ہیں ہندوستان کو کم از کم یہ ٹیسٹ ضرور4 روز میں اسی طرح جیت لینا چاہئے تھا جس طرح بنگلہ دیش نے حال ہی میں انگلستان کےخلاف جیتا تھالیکن یہاں 5 روز میں حاصل ہونے والی فتح میں ہندوستان نے ایک تہائی کامیابی تو اسی وقت بلا اور گیندہاتھ میں لینے سے پہلے ہی حاصل کر لی تھی جب کوہلی نے ٹاس جیتا تھا۔ رہی سہی کسر ہندوستانی ٹیم کی455رنز کی اننگز نے پوری کر دی اور اس کے بعد ہندوستانی جیت کا انحصار انگلستان کے دوسری اننگز میں قلیل اسکور پر آوٹ ہوجانے پر تھا اور بلکہ ویسا ہی ہوا۔ اس کے بعد تو مرے پر سو درے لگتے ہی چلے گئے لیکن ان خامیوں کے باوجود ہندوستانی ٹیم سے نہ تو اس کی جیت کا کریڈٹ چھینا جا سکتا ہے اور نہ ہی انفرادی کامیابیوں خاص طور پر کپتان ویراٹ کوہلی اور ایشون کی محنت اور کارناموں کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ 
یہ ویراٹ کوہلی کی سنچری اننگز اور اس پر ایشون کی نصف سنچری کا تعاون ہی تھا جو ہند اور انگلستان کے درمیان84سالہ کرکٹ تاریخ میں دوسری سب سے بڑی جیت حاصل کرنے کا باعث بنا۔ہندوستان کو انگلستان کےخلاف پہلی سب سے بڑی جیت 1986میں لیڈز میںاس وقت ملی تھی جب اس نے انگلستان کو279رنز سے ہرایا تھا۔ ہاں ہندوستان میں یہ اس کی انگلستان کے خلاف اب تک کی سب سے بڑی جیت ہے۔ اس جیت کے ساتھ ہی ویراٹ کوہلی 1977سے1980کے درمیان گھریلو میدان پر 20ٹیسٹ میچوں تک کوئی ٹیسٹ نہ ہارنے کے ریکارڈ کو توڑ سکتے ہیں کیونکہ انگلستان کے خلاف مزید3 اور بنگلہ دیش کےخلاف ایک ٹیسٹ میچ کھیلنا ہے ۔ اس کے بعد آسٹریلیا کے خلاف 4ٹیسٹ میچوں کی ہوم سیریز کھیلنی ہے۔ مجموعی طور پر گھریلو میدان پرہندوستانی ٹیم اب تک کھیلے گئے16ٹیسٹ میچوں میں ایک بھی ٹیسٹ نہیں ہاری ۔13میچ جیتے گئے ہیں جبکہ3 ٹیسٹ ڈرا رہے۔ لگاتار 20ٹیسٹ میچوں میں کوئی میچ نہ ہارنے کا ریکارڈ3 کپتانوں بشن سنگھ بیدی، سنیل گواسکر اور گنڈپا وشوناتھ کی قیادت مین قائم ہوا تھااور یہ16ٹیسٹ میچ نہ ہارنے کا ریکارڈ مہندر سنگھ دھونی اور ویراٹ کوہلی کی قیادت میں قائم ہوا ہے۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: