Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بگڑتی صورتحال میں تجربہ کار جنرل کی اہمیت

 
راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی تبدیلیوں کا بھی امکان ہے، نواز شریف نے میرٹ پر عمل نہ کیا تو ملک کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے
 
صلاح الدین حیدر
 
پاکستان میں گزشتہ کئی مہینوں سے جاری بحث کہ راحیل شریف کو 29 نومبر کو جو فوج سے انکی ریٹائرمنٹ کی مدت ہے ختم ہونے کے بعد بھی کچھ اور عرصہ کیلئے کام کرنے دیا جائیگا یا نہیں بالآخر اس ہفتہ اختتام کو پہنچی۔ حکومت کے اعلامیہ کے مطابق انہیں ریٹائر کردیا گیا ہے لیکن ان کی جگہ کون آرمی کی کمان سنبھالے گا ، یہ ابھی تک معلوم نہیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں فوجی سربراہ کی مدت ملازمت کے بارے میں اتنی چہ میگوئیاں نہیں ہوتیں جتنی پاکستان میں۔ اس کی وجہ ہے۔ اس مملکت خداداد پاکستان میں فوج ملکی تاریخ کے نصف عرصہ تک خود برسراقتدار رہی اور بقیہ نصف عرصہ تک وہ پس پردہ حکومت کو کنٹرول کرتی رہی ہے۔ موجودہ وزیراعظم نواز شریف کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے ۔ وہ واحد سربراہ ِحکومت ہیں جنہیں 3 بار آرمی چیف کو مقرر کرنے کا موقع ملا۔ جنرل آصف نواز، جنرل وحید کاکٹر اور جنرل پرویز مشرف سب انہی کے چنے ہوئے تھے۔ ہر مرتبہ نواز شریف نے سینارٹی کو نظرانداز کرکے اپنے مطلب کا فوجی سربراہ چنا اور ہر مرتبہ انہیں اپنے فیصلے پر نادم ہونا پڑا۔ آصف نواز نے انکی ملک سے غیر موجودگی میں ایم کیو ایم کیخلاف آپریشن شروع کرکے ان کی حکومت کو کمزور کیا۔ وحید کاکڑ نے بجائے ایک منتخب وزیراعظم کے صدر غلام اسحاق کا ساتھ دیا اور انہیں حکومت سے نکالنے میں مدد کی اور پرویز مشرف نے تو انکی حکومت کا تختہ ہی الٹ دیا ۔ 
اس بار نواز شریف نے کافی سوچ بچار سے کام لیا اس لئے معاملات خراب ہونے سے بچ گئے اور جمہوریت کی بساط الٹتے الٹتے آخر بچ ہی گئی۔ اسکا کریڈٹ جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے۔ نواز شریف کی غلطیوں کے باوجود انہوں نے فوج کو اپنے قابو میں رکھا اور جمہوریت کو ہر بار جِلا دی۔ ایک نئی زندگی سے روشنا س کرایا۔ یہاں مجھے آصف زرداری کی بات یاد آجاتی ہے کہ راحیل شریف سے پہلے آرمی کمانڈر انچیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی حکومت کو اپنے پورے 5 سال مکمل کرنے کو مل گئے۔ مطلب صاف ہے کہ کیانی نے زرداری کو بھی سہارا دیا اور اپنے مفادات کا بھی تحفظ کیا۔ ان کے زمانے میں فوج کی تربیت وغیرہ پر بالکل دھیان نہیں دیاگیا جس کی وجہ سے فوج کی تربیت کے معیار میں فرق پڑتا ہے۔ راحیل شریف ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ پنجاب کے دور دراز علاقہ ”کجان“ ہے۔ وہ 1956 ءمیں بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد شریف احمد بھی فوج میں میجر تھے۔ راحیل شریف نے خود تو کجان کبھی نہیں دیکھا کیونکہ انکے والد وہاں سے نقل مکانی کرچکے تھے۔ ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف نے جن سے وہ 13 سال چھوٹے تھے، 1971 ءمیں جام شہادت نوش کیا اور ملک کے اعلیٰ ترین اعزاز نشان حیدر سے نوازے گئے۔ ان کے ماموں زاد بھائی اور خاندان کے کئی دوسرے افراد نے ملک کو خاطر جانیں قربان کیں۔ ظاہر ہے راحیل شریف کو دنیاوی مقاصد سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ ایک نڈر بے باک ، سچے سپاہی ہیں اور عام فوجیوں کے ساتھ اگلے مورچوں پر وقت گزارتے تھے ۔ نہ عید دیکھی نہ بقرعید کی خوشیاں۔ انہوں نے فنِ سپاہ گری کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ راحیل شریف ایک ایسے وقت کمان چھوڑ رہے ہیں جب کشمیر میں صورتحال بہت زیادہ نازک ہوتی جارہی ہے ۔ روزانہ دوطرفہ فائرنگ اور اسکے نتیجے میں جانی نقصانات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہند اپنا پورا توپ خانہ کشمیر کی سرحدوں پر لے آیا ہے۔ بھاری اسلحہ کے استعمال کی وجہ سے شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ ایک مسافر بس پر حملہ میں 9 افراد شہید ہوگئے اور پھر جو ایمبولینس زخمیوں اور شہیدوں کو لے جانے کےلئے آئی تھی اس پر بھی بھرپور حملہ کردیا گیا جس سے جانی نقصان میں اضافہ ہوگیا ۔ پاکستانی افواج نے بھرپور کارروائی کرکے ہندوستانی کشمیر میں کئی ایک چیک پوسٹ تباہ کردیں اور خود ہندوستان نے اپنے کئی سپاہیوں کی موت کا اعتراف کرلیاہے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کشمیر کی سنگین صورتحال بھرپور جنگ میں نہ تبدیل ہوجائے۔ میرے خیال میں اس بات کی توقع تو کم ہے لیکن خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو شاید محدود حد تک جنگ ہو۔جنگ کے پورے ہندوستان ، پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لینے سے دنیا میں ایک بھونچال آجائےگا۔ راحیل شریف کہہ چکے ہیں کہ افواج پاکستان کسی بھی روایتی جنگ کیلئے پوری طرح تیار ہیں۔ ظاہر ہے انکا اشارہ ایٹمی جنگ کی طرف نہیں تھا اسلئے کہ اس صورتحال میں کئی ایک شہر ملیامیٹ ہوجائیں گے ۔ ہزاروں، لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہوسکتی ہیں۔ صورتحال اس لئے بھی گمبھیر ہورہی ہے کہ ہندوستان میں خلفشار بڑھتا جارہا ہے۔ کرنسی تبدیل کرنے کے معاملے پر افراتفری دیکھنے میں آئی ہے۔ اب تک 73 لوگ مرچکے ہیں جن میں 3 بینک منیجر بھی ہیں جو ہارٹ اٹیک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ مودی کو اندرونی طور پر شدید تنقید کا سامنا ہے جس سے توجہ ہٹانے کیلئے انہوں نے کشمیر پر دباو بڑھا دیا ہے۔ کئی ایک نکتہ نظر سامنے آچکے ہیں۔ بہت سی توجیہات پیش کردی گئی ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف دودھ کے جلے ہوئے چھاچھ پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے ہیں۔ فوجی کمان کسے دی جائے؟5 نام زیر غور ہیں۔ ان میں 2نام ایسے ہیں جن کی بہت اہمیت ہے۔ ملتان او ر منگلا جو کہ آزاد کشمیر میں واقع ہے کی کور بہت اہمیت کی حامل ہے۔ جنرل اشفاق ندیم کشمیر میں رہ چکے ہیں، پھر ضرب عضب میں بھی انہوں نے حصہ لیا ہے۔ راحیل شریف نے وزیراعظم سے درخواست نہیں کی کہ اشفاق ندیم کو آرمی کی کمان دےدی جائے۔ اچھے کمانڈر ہیں ، فوجی تربیت میں مہارت رکھتے ہیں لیکن جنرل زبیر جو کہ سب سے سینیئر ہیں اُنہیں شاید جوائنٹ چیف آف اسٹاف بنا دیا جائے۔ عام خیال یہ ہے کہ وزیراعظم کی نظرِ انتخاب شاید جنرل قمر باجوہ پر پڑے ۔ یہ نواز شریف کا استحقاق ہے کہ جسے چاہیں فوج کا سربراہ مقرر کردیں لیکن کشمیر کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال کے تحت تجربہ کار جنرل کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
راحیل شریف کے جانے کے بعد عام توقع یہی ہے کہ ملک میں سیاسی تبدیلیاں بھی آئیں ۔ اسکا اشارہ آصف زرداری کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے۔ انہو ںنے کہا کہ وہ بہت جلد خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے وطن لوٹ آئیں گے۔ ظاہر ہے انہوں نے فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا کہہ کر ملک سے راہ فرار اختیار کی لیکن جب راحیل شریف ریٹائر ہوجائیں گے تو شاید زرداری کو بھی کچھ سکون دیکھنے کو ملے اور وہ ملک واپس آکر پیپلز پارٹی کی گرتی ساکھ کو سنبھالا دینے کی کوشش کریں۔ ملک کی خارجہ پالیسی جسے راحیل شریف نے ایک نئی جہت دی تھی، شاید ایک بار پھر پلٹا کھائے۔ گو کہ راحیل شریف کے جانے کے بعد ملک میں تبدیلی کے آثار نظر آنے لگےںگے ۔ نواز شریف نے اگر میرٹ کو چھوڑ کر ذاتی پسند ناپسند کو سامنے رکھا تو ملک کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: