Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مال و اسباب ، سکون اور راحت کا ذریعہ نہیں

اسبابِ تعیش کے باوجود آج کے لوگ پریشانی کا شکار ہیں ،روحانی اور قلبی سکون کسی کو حاصل نہیں،ہر ایک کوبے برکتی کا شکوہ ہے
 
مفتی تنظیم عالم قاسمی ۔ حیدرآباد دکن
 
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مادی اعتبار سے زمانہ ترقی پذیر ہے ۔ سائنسی ایجادات و انکشافات نے رزق اور مال و دولت اکٹھا کرنے کے وسیع تر امکانات پیدا کردئیے ہیں ۔کمپنیوں اور کارخانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔سڑکوں پر دوڑتی ہوئی گاڑیاں ، فلک بوس عمارتیں ، رہائش کے عمدہ مکانات ، تعیش کے اسباب و وسائل اور زیب و زینت کی نت نئی چیزیں نظروں کے سامنے ہیں جن میں صنعتی انقلابات اور ٹیکنالوجی کی کثرت نے تصور سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔انسانی زندگی کے آسائش و آرام اور ارمانوں کی تکمیل کی نئی نئی راہیں کھلتی جارہی ہیں۔اسی مادی ترقی کا نتیجہ ہے کہ کل تک جسے سائیکل بھی میسر نہیں تھی ، آج وہ قیمتی گاڑیوں پر چل رہا ہے ۔جھونپڑی میں زندگی بسر کرنیوالے آج عالیشان عمارتوں میں سورہے ہیں ۔جو کل تک ایک ایک پیسے کے محتاج تھے ، وہ آج کروڑوں کے مالک ہیں اور ان کا پورا گھر اسباب تعیش سے بھرا ہوا ہے لیکن ان سب کے باوجود آج کے لوگ زیادہ پریشانی اور مایوس نظر آتے ہیں ۔روحانی اور قلبی سکون کسی کو حاصل نہیں ۔ہر ایک کی زبان پر مال و جاہ، وقت اور دولت میں بے برکتی کا شکوہ ہے۔کوئی مختلف بیماریوں کا شکار ہے تو کوئی گھریلو اور خاندانی اختلافات اور دشمنی کے سبب نہایت پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ناجائز مقدمات نے کسی کو تھکادیا ہے تو کوئی اپنی بیوی اور اولاد کی نافرمانیوں سے لاچار ہے۔غرض پریشانیوں کی نوعیت کچھ بھی ہو ، پریشان اور مصیبت ہر ایک کے ساتھ ہے۔بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک اور اہل ثروت بھی پریشان ہیں ، جن کو رات کی صحیح نیند بھی میسر نہیں ۔ بالآخر راحت و آسائش کے تمام سامان کے باوجود حقیقی راحت اور سکون کا فقدان کیوں ؟ بے اطمینانی اور پریشانیوںنے ہر ایک کو کیوں مجبور کر رکھا ہے اور کیوں آج کے اس ترقی یافتہ دنیا میں خود کشی اور قتل وقتال کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں ؟
 
در اصل لوگوں نے آج سکون اور راحت عہدوں اور پیسوں میں تلاش کرنا شروع کردیا ہے۔ مال و دولت کی کثرت نے بندوں کا رشتہ رب سے توڑ دیا ، وہ آخرت کو بھول کر دنیا اور دنیا کے اسباب و وسائل کو جمع کرنے میں جُٹ گئے ہیں۔ قبروں کو روشن کرنے کے بجائے دنیوی گھروں کو عالیشان بنانے اور ان کے زیب و زینت میں مگن ہیں۔ ظاہر ہے کہ مال و دولت کی زیادتی اور خوبصورت عمارت میں اتنی قوت نہیں کہ وہ لوگوں کو سکون فراہم کرسکیں۔ مال کی کثرت سے اگر سکون ملتا تو قارون دنیا کا سب سے پرسکون انسان ہوتا۔حکومت اور عہدوں سے اگر سکون ملتا تو فرعون دنیا کا سب سے پرسکون انسان گزرتا ، مگر ایسا نہیں ہوا وہ دولت اور عہدوں کے باوجود پریشان حال رہے اور پریشانی کے ساتھ ہی عبرتناک موت کے ذریعہ دنیا سے چل بسے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دولت اورجائداد کے ذریعہ عالیشان اور اونچی عمارتیں بناسکتا ہے مگر سکون نہیں خرید سکتا۔ عہدوں کے ذریعہ لوگوں میں رعب و دبدبہ قائم کرسکتا ہے مگر اسے حقیقی راحت میسر نہیں ہوسکتی ، جیسے ایک انسان مال سے کتابیں تو خرید سکتا ہے ، علم نہیں خرید سکتا ۔مال سے انسان اچھا لباس تو خرید سکتا ہے ، حسن و جمال نہیں خرید سکتا ۔ مال سے انسان اچھی دوائیں تو خرید سکتا ہے ، اچھی صحت نہیں خرید سکتا ۔ یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں ، وہ جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے عطا کرتا ہے ، سکون اور قلبی راحت بھی اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے ، وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے۔وہ چاہتا ہے تو کم آمدنی میں بھی برکتوں کے خزانے کھول دیتا ہے اور ہر طرح سے آرام و راحت میسر کرتا ہے اور جب چاہتا ہے تو مال و دولت کے باوجود مختلف مصائب اور پریشانیوں میں مبتلا رکھتا ہے اور ہزار کمائی کے باوجود گھر میں برکت کا نام و نشان نہیں ہوتا ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے برکت کے نزول کا ضابطہ بیان کرتے ہوے ارشاد فرمایا
 اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ الأعراف96
 
آسمان اور زمین کی برکتوں سے مراد ہر قسم کی برکات ہیں۔صحت میں ، کاموں میں ، وقت میں ، مال میں ، کھانے پینے اوراستعمال و ضرورت کی تمام چیزوں میں برکت و رحمت نازل کی جاتی ہے ، جس سے مقصود ومطلوب آسان ہوجاتا ہے اور تادیر اسکے استعمال کی توفیق دی جاتی ہے ۔مثلاً ایک آدمی کی صحت تقریباً 10 سال سے بالکل ٹھیک ہے۔ کبھی سر میں بھی درد نہیں ہوا ، ڈاکٹر کے پاس کب گیا تھا ؟ یاد نہیں ہے ، یہ صحت کی برکت ہے کہ ڈاکٹر کے پاس جانے آنے کی کلفتوں اور الجھنوں سے بچ گیا ۔ وہ مستقل اپنا کام کرتا رہا ، وقت بھی محفوظ رہا اور پیسہ بھی۔ اسی طرح تھوڑے وقت میں امید سے زیادہ کام کرنا بھی ایک قسم کی برکت ہے ۔ جس کام کیلئے آدمی کہیں جاتا ہے یا جس کام میں مصروف رہتا ہے ، اگر وہ کام صحیح طرح ہوگیا ، کوئی رکاوٹ نہ آئی تو یہ بھی برکت ہے اور اگر کام میں رکاوٹ پیدا ہوجائے تو سمجھنا چاہئے کہ اس کے اعمالِ بد کی نحوست کے سبب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے برکتی کا انتظام کیا گیا ۔بہت سے لوگ وقت میں بے برکتی کی شکایت کرتے ہیں کہ صبح سے شام ہوجاتی ہے ، وقت اس قدر تیزی سے گزر جاتا ہے کہ دن کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔کوئی کام مکمل نہیں ہوپاتا کہ دوسرا دن بلکہ دوسرا ہفتہ اور دوسرامہینہ شروع ہوجاتا ہے۔ سالہا سال تیزی سے گزر رہے ہیں ، کوئی قابل لحاظ کام انجام نہیں دیا جاسکتا۔ بلا شبہ یہ بے برکتی ہے ، جو انسان کے اعمالِ بد کا نتیجہ ہے لیکن بہت سے بزرگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے بہت کم وقت میں بڑا کارنامہ انجام دیا ، انہوں نے ہزاروں کتابیں تصنیف کیں ، لاکھوں شاگردپیدا کئے ، تصوف وسلوک کی راہ میں بھی خلفاء اور مریدین کی ایک بڑی تعداد تیار کی ، ان کی طویل خدمات کو اگر ان کی عمر پر آج تقسیم کی جائے تو عقل حیران ہوجاتی ہے اور سوچنا پڑتا ہے کہ آخر اتنے کم وقت میں اتنا عظیم کارنامہ کیسے انجام دیا گیا ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نیک اعمال کی برکت کی وجہ سے ان کے وقت میں برکت دی تھی کہ کم وقت میں توقع سے زیادہ وہ کام کرگئے جو آج لوگ صدیوں میں نہیں کرسکتے۔ ایسے خداترس افراد آج بھی موجود ہیں اور ان کے اخلاص و للہیت کے مطابق ان کے اوقات میں برکت کا سلسلہ جاری ہے بلکہ ایک عام مسلمان بھی جب اللہ سے ڈرتا ہے اور اطاعت الٰہی کو اپنا شعار بناتا ہے تو اس کی نیکی اور تقویٰ کے اعتبار سے اسکے وقت میں برکت دیدی جاتی ہے ، جس سے وہ بہت سے ایسے کام کرلیتے ہیں جو گنہگار نہیں کرسکتے ۔
 
(مکمل مضمون روشنی25نومبر کے شمارے میں ملاحظہ کریں)
 

شیئر: