Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بغیر پڑھے ” پی ایچ ڈی “کی سند حاصل کرلی،ثمینہ

 
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا بھر کے طالب علموں کو سست و کاہل بنادیا ہے، لوگ معلومات رکھتے ہیں لیکن علم سے دور ہیں، رضی احمد
 
زینت شکیل۔جدہ 
 
خالقِ کائنات کی ہر مخلوق جمالیاتی حسن کا مرقع ہے ۔ شخصیت کی پہچان اس کی زبان سے ہوتی ہے۔ مہذب ، شائستہ اور متوازن اندازِ گفتگو خود انسان کو متعارف کرادیتا ہے۔ دراصل گفتگو ہی ایسا ذریعہ ہے جس سے کسی انسان کی ذہنی سطح ، قابلیت اور علمیت کااندازہ ہوسکتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ بہترین بات وہ ہے جو مختصر ، مدلل ، جامع ، مفید اور بامعنی ہو۔ 
اس ہفتے ہماری ملاقات ہوا کے دوش پر کراچی میں مقیم محترم رضی احمد اور ان کی اہلیہ محترمہ ثمینہ رضی سے ہوئی۔وہ کہنے لگیں میرے شریک حیات چلتے پھرتے انسائیکلو پیڈیا ہیں۔ جب چاہے ان سے سیاست، معاشرت ، اقتصادیات اور خواہ دنیا بھر کی سیاحت پر گفتگو کرلیں ۔بس جان لیجئے کہ ہم نے بی اے تو نہیں کیا مگر گھر بیٹھے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرلی۔
محترمہ ثمینہ نے کہا کہ ہمارے کمپاونڈ میں خواتین کا گروپ عصر سے مغرب تک اپنی محفل جماتا ہے۔ اس محفل میں ٹی وی ڈراموں پر خوب تبصرے چلتے ہیں۔ مجھے پہلے ڈراموں کا شوق تھا مگر اب مختلف چینلز پر ٹاک شوز دیکھتے ہیں، ان میں سنجیدہ گفتگو کے علاوہ جب توتکار ہوتی ہے تو خیال آتا ہے کہ یہ گفتگو جب بیرون ملک لاکھوں لوگ سنتے ہوں گے تو ان کے اذہان میں ہمارے ملک کی کیسی شبیہ ابھرتی ہوگی ۔ لوگ اپنے انداز بیاں سے ہی اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے چینلز پر آداب گفتگو کا خیال رکھا جاناضروری ہے ۔ 
محترم رضی احمدنے معروف یونیورسٹی سے جیولوجی میں پوسٹ گریجویشن کے بعد قومی ایئرلائن میں فرائض کی انجام دہی کا آغاز کیا۔ والد صاحب چونکہ سرکاری ملازم تھے، اس لئے ان کا تبادلہ مختلف جگہوں پر ہوا کرتا تھااور والدہ جہاں گھر گرہستی میں طاق تھیں، وہیں ڈگری کے بغیر بھی تعلیم یافتہ خاتون مانی جاتی تھیں کیونکہ انہوں نے اس زمانے میں مروجہ تعلیم گھر پرہی حاصل کی تھی جبکہ اردو، عربی اور فارسی زبان بھی انکی بہترین تھی۔ اقبال کے فارسی اشعار پڑھتیں اور بچوں کو معنی کے ساتھ خودی کے اسرار سکھاتی جاتیں۔
رضی صاحب نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم ساری دنیا میں آج فقط جمع، تفریق، تقسیم اور ضرب کا کلچر رائج کررہے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں ہم نسل ِ نوسے اعلیٰ اخلاقی اقدار کی توقع کیسے کرسکتے ہیںجبکہ انہیں آج ادب اور تاریخ کا مطالعہ کئے بغیر مہذب ہونے کا طریقہ خود سکھارہے ہیں جبکہ تہذیب و تمدن انسان کو مہذب بناتی ہے۔ بالخصوص علوم و فنون ، زبان و ادب پر تصنیفات اور تالیفات کا کام ہر دور میں اس لئے کیا جاتا ہے کہ اہل علم ،اہل فن اور اہل قلم اس سرچشمہ¿ فیض سے ہمیشہ سیراب رہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آجکل کتاب بینی کا شوق محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا بھر کے طالب علموں کو سست و کاہل بنادیا ہے۔ لوگ معلومات رکھتے ہیں لیکن علم سے دور ہیں ۔
عالمی تاریخ اور جغرافیے کا مطالعہ آپ کو کشاں کشاں ان جگہوں کی سیاحت پر آمادہ کرتا ہے ۔یوں پرانی ترقی یافتہ تہذیب کا پتہ چلتا ہے کہ کہاں کہاں، کن کن جگہوں پر،کس زمانے میں کون حاکم وقت تھا اور کیسی اس کی رعایا تھی۔ یہ ایک ایسا دلکش احساس ہے کہ دنیا گھومتے جائیں، تاریخ پڑھتے جائیں ، مالک حقیقی کے اس جہاں کا کوئی حصہ بے وقعت نہیں۔ میںنے 40سال پہلے سیاحت شروع کی اور روزانہ کی بنیاد پرسفر کی ڈائری تحریر کرتا رہا لیکن اس کو سفر نامے کی صورت کبھی نہ دے سکا۔اس کی ایک وجہ وہ واقعہ ہے جس کے بعد یہ زندگی سچ مچ پانی کا بلبلہ ہی محسوس ہوتی ہے۔ 
”میں نے بچپن میں ایک ایسا خواب دیکھا جو میری عمر سے بہت آگے تھا۔ میںدہشت سے جاگا اور پوری قوت سے چھلانگ لگا کر بستر سے نیچے اترا اور ماں کی گود میں پناہ لینے کے لئے ان کے کمرے کی جانب دوڑا۔بہر حال وقت گزرتا گیا، حتیٰ کہ میں زندگی کی نصف صدی گزار آیا کہ اچانک پھر مجھے وہی خواب پوری جزئیات کے ساتھ دوبارہ نظر آیا ۔ آج میں خود اتنا طاقت ور تھا کہ اپنے بھیا خورشید عالم کے گرد سیسہ پلائی دیوار بن سکتا تھا۔ جتنے گھنٹے سفر میں لگے ،میں کراچی سے اسلام آباد بھیا کے گھر پہنچا ۔ میں انہیں ان کے گھر میں زندہ سلامت دیکھ کر کچھ مطمئن ہوا لیکن میری پریشانی کسی طور کم نہ ہوئی۔میں ڈرائنگ روم میں بھیا کے پاس اکیلا سرجھکائے بیٹھا تھا، وہ کہنے لگے ”رضی کیا بات ہے ! تم پریشان ہو، کیا وجہ ہے؟ مجھے بتاو “پہلے تو میں ان کی شکل دیکھتا رہاپھر خواب جیسی حالت میںچونکا اور انکے دونوں ہاتھ پکڑکر کہا ” بھیا آپ میرے ساتھ کراچی چلئے، یہ نوکری، یہ گھر ، یہ بزنس، یہاں کے تمام معاملات چھوڑ کر میرے ساتھ چلئے۔ ہمیں کس چیز کی کمی ہے؟ میں ان سے التجا کر رہا تھا ۔ وہ میرے اس انداز پر چونک گئے اور گویا ہوئے، ”رضی مجھے وجہ بتاو۔“ میں اپنے بھیا کو اس التجا کی ”وجہ“ نہیں بتاسکتا تھا۔ وہ کچھ دیر حیرت سے میری حالت پر غور کرتے رہے لیکن وہ وجہ پھر بھی نہ جان سکے۔ میں نے ان سے کہاکہ لوگ بہت حاسد ہیں۔ کچھ بھی کسی کے خلاف کرسکتے ہیں۔انہوں نے بے حد محبت سے میری بات سنی اورکہاکہ ”تم بالکل بھی پریشان مت ہو۔ میں بالکل ٹھیک ہوں اور تمام حالات بھی ٹھیک ٹھاک چل رہے ہیں بلکہ تم بھی میرے پاس ٹھہرجاو “
آخر میں کتنے دن رکتا، بالآخر کراچی واپس آگیا۔ چند دن نہیں گزرے تھے کہ میرا خواب اندوہناک حقیقت بن کر میرے سامنے آگیا۔ اسلام آباد سے میری بھتیجی کا فون آیاکہ ”چچا جان! 3 گھنٹے پہلے پاپا کا فون آفس سے آیا کہ وہ گھر کےلئے روانہ ہورہے ہیں لیکن اب تک گھر نہیں پہنچے،“میں سکتے میں آگیا۔ 
میرے ہاتھوں میں میرے بھیا کی نعش تھی۔ میں نے ان کے جسم پرموجود زخموں کو دیکھا سر، کندھا، بازو، ہاتھ پیر، سینہ ، پسلی کون سی جگہ تھی جہاں ظالموں نے وار نہیں کیا تھا۔ میں روتا رہا اور میرے آنسووں سے بھیا کا چہرہ دھلتا رہاچونکہ اب میں ہی تمام خاندان کا سب سے عمر رسیدہ فرد ہوں اور بھیا کی طرح سب کا سائبان بننا چاہتا ہوں۔ وقت گزرنے کےلئے ہوتا ہے، اس لئے گزرتا ہی جاتا ہے۔
ہم نے اس دعا کے ساتھ گفتگو مکمل کی کہ، ان شاءاللہ، جب تمام مسلمان جنت میںپہنچ جائیںگے جہاں ہر خواہش پوری ہوگی اور لوگ فرصت میںایک دوسرے سے دنیا کی باتیں کریں گے وہیں رضی احمد اپنے بھیا خورشید عالم کو وہ ”وجہ“ بتارہے ہونگے جو اس دنیا میں نہیںبتاسکے تھے۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: