Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسکی زندگی میں محبت کی کرنسی رائج ہو چکی تھی

 
اسے کوئی پروا نہیں رہی تھی کہ ”لوگ کیا کہیں گے“کیونکہ اس کی شریکِ زندگی نے اسے سکھا دیا تھا کہ ”کسی کا ہو کر جینا کسے کہتے ہیں“
 
عنبرین فیض احمد ۔ ریاض
 
وہ اپنی زندگی اپنے ڈھب سے گزارنا چاہتا تھا مگر اسے یہ خوف کھائے جاتا تھاکہ لوگ کیا کہیں گے، دنیا کیا کہے گی۔ اس نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو کبھی اپنی ماں کو لوگوں کے خوف میں مبتلا پایا اور کبھی والد صاحب کوسہمتے دیکھا کہ اگر ہم یہ کریںگے تو یہ ہوگا اور نہیں کریں تو وہ ہوگا ۔ اس کے گھرانے کو جس چیز سے بہت نقصان پہنچا وہ لوگوں کا خوف ہی تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے گھر کے ہر کونے کھدرے میں لوگ چھپ کر ان کی باتیں سن رہے ہیں ۔ اس لئے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس پر خوب غور و غوض کیا جاتاتا کہ لوگ باتیں نہ بناسکیں لیکن ہر فیصلے میں تیسرا اہم فریق وہی اغیارہوتے تھے۔ اس کے والد کسی کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کی تنخواہ اتنی تھی کہ بس گزارہ ہو جاتا تھا۔ اس کے والد کی خواہش تھی کہ اس کو بہترین توتعلیم دلوائی جائے۔ اس کے 3بھائی اور بھی تھے۔ اس نے جب انٹرپاس کیا تو اس کی بڑی بہن کی شادی ہوئی ۔ گھروالوں نے رشتہ داروں میں اپنی ناک اونچی رکھنے کی خاطر اپنی بساط سے بڑھ کر پیسہ خرچ کرڈالا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سر سے پاوں تک قرض میں ڈوب گئے۔ ان حالات میں اس کے لئے انٹر کے بعد تعلیم برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا ۔ وہ نوکری کی تلاش میں سارا دن مارا مارا پھرتا۔ ایک دن اس کی ملاقات اس کے کسی دوست سے ہوئی جو کویت میں سیسہ پگھلانے والی کسی فیکٹری میںملازمت کرتا تھا۔اس دوست نے اسے کویت بلا لیا۔کویت میں کام کرتے ہوئے اسے 6سات ماہ ہی ہوئے تھے کہ اس کی دوسری بہن کی بھی شادی کی بات چلی۔پھر وہی بات کہ لوگ کیا کہیں گے چنانچہ اس کے والدین اپنی دوسری بیٹی کی شادی بھی بڑی دھوم دھام سے کرنا چاہتے تھے۔ وہ اپنی بہن کی شادی میں شریک ہونا چاہتا تھا مگر والد صاحب نے منع کردیا کہ آنے جانے میں بہت خرچ ہوگا۔ والد صاحب نے ایک اور فرمائش کرڈالی کہ مکان کا ایک حصہ چونکہ قرض کی نذر ہوگیا تھا لہٰذا اب مکان چھوٹا پڑرہا ہے چنانچہ ایسا کرو کہ چھت پر ایک منزل ڈلوا دو تاکہ جب تمہاری شادی ہو تو جگہ کی کوئی تنگی نہ ہونے پائے۔
وہ سیسہ پگھلانے والی فیکٹری میں مزدوری کرتا رہا اور یہ حقیقت فراموش کر بیٹھا کہ وہ کوئی مشینی پرز ہ نہیں بلکہ گوشت پوست کا ایک مکمل اور زندہ انسان ہے۔ وہ ہر بار یہ سوچتا کہ اب وہ اپنے وطن واپس چلا جائے گا ۔اسے یہ خیال بھی آتا کہ میرے لئے سب اداس ہونگے مگر والد سے اسے یہی جواب سننے کو ملتا کہ نہیں نہیں، ہم سب خوش ہیں ،کوئی پریشانی نہیں ۔ بس تمہاری ماں تمہیں اکثر یاد کرتی ہے، باقی سب خیریت ہے۔اس نے اسی” جذباتی جلاوطنی “میں 20 سال گزاردئیے۔ ان برسوں نے اس کی جوانی، شوخی اور بانکپن کو نگل لیا۔ایک روز اس نے کنگھی کرتے ہوئے آئینے میں اپنا بغور جائزہ لیا تو ایک لمحے کیلئے اس کے ہاتھ ساکت ہوگئے ، اس کے سرخی مائل چہرے پر زردی تو پہلے ہی نمودار ہو چکی تھی مگر سر میںچمکنے والے چاندی کے تاروں نے تو جیسے اس کی”ضعیفی“ پر بھی مہر تصدیق ثبت کردی۔ اسی رات کو گھر سے فون آیاکہ والد صاحب پر فالج کا حملہ ہوگیا ہے ۔ وہ دوسرے ہی دن وطن روانہ ہوگیااوروالد کی خدمت میں جُت گیا۔اب والد صاحب کی طبیعت ایسی نہیں تھی کہ وہ دوبارہ ملک چھوڑ کر چلا جاتا ۔ ویسے بھی اب اتنا کمالیا تھا کہ زندگی آرام سے بسر ہوسکتی تھی۔چند دنکے بعد والد صاحب بھی اس دار فانی سے چلے گئے ۔ جتنا پیسہ کماکر لایا تھاا س میں سے زیادہ تر والد صاحب کے علاج پر خرچ ہوچکا تھا۔ اس کی ماں نے اپنی کسی دور پرے کی رشتے کی بہن کی بیٹی سے اس کی شادی کردی۔ اب تو جو لوگ بھی اس کے گھر آتے، اس کو دیکھ کر آپس میں سرگوشیاں کرتے ۔ اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کے گھر کے کونے کھدروں سے لوگوں کی آنکھیں جھانکنے لگی ہیں۔پردیس میں20 سالوں کی خواری اور جلاوطنی اس کے کسی کام نہ آئی ۔ اتنی مسافت طے کرنے کے بعد بھی وہ خالی ہاتھ تھا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں واپس کویت جاکر فیکٹری میں دوبارہ نوکری کرلیتا ہوں مگر اس کی بیوی نے کہا کہ مجھے پیسوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم دونوں میاں بیو ی روکھی سوکھی کھالیں گے مگر ایک ساتھ رہیں گے۔
عمر کے اس موڑ پر اس کی شریک حیات نے اسے یہ باور کرا دیا تھا کہ” وہ ایسا وجود ہے جو کسی جیتی جاگتی ہستی کے لئے انتہائی قیمتی ہے ۔ اسکا ساتھ ہی اس ہستی کی منزل ہے۔“بیوی کی زبان سے یہ روپہلے الفاظ سن کر اس کی سوچوں کے دھارے بدل گئے ۔ آج اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے پھر بھی وہ اپنے آپ کودنیا کا امیر ترین انسان سمجھ رہا تھاکیونکہ اس کے بازارِ زندگی میں کاغذ کی بجائے محبت کی کرنسی رائج ہو چکی تھی۔ وہ 20سال بعد بھی بلا شبہ وہیں کھڑا تھا جہاں سے وہ چلا تھااس کے باوجود وہ شاداں و فرحاں تھا کیونکہ اس کے احساسات کے لئے بھی وہی 20برس پہلے والا دور لوٹ آیا تھا۔ اب اسے اس بات کی مطلق پروا نہیں رہی تھی کہ ”لوگ کیا کہیں گے ، زمانہ کیا کہے گا ، وہ لوگوں کو کیسے منہ دکھائے گا“کیونکہ آج اس کی شریکِ زندگی اس کے ساتھ کھڑی تھی جس نے اسے سکھا دیا تھا کہ ”کسی کا ہو کر جینا کسے کہتے ہیں۔“
٭٭٭٭٭٭

شیئر: