Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیڑھے اُلو

 
 آج ہم اتنی ترقی کر لینے کے باوجود ایک ”نقطے“ پر متفق نہیں ہو پاتے، ہمارا اُلو چونکہ ٹیڑھا ہو گیا تھا، اسلئے آپ کی تعریف کر کے ہم اپنا اُلو سیدھا کرنے کی کوشش کر رہے تھے
 
شہزاد اعظم
 
ہماری ریختہ انتہائی شیریں ، فصیح اور جامع زبان ہے۔ یہ پاکستان کی قومی زبان ہونے کے ناتے ”زبانِ اہل“ ہے مگر ”اہلِ زبان“ اس کا استعمال تمام تر ناز و انداز کے ساتھ کرتے ہیںاسی لئے جب ہم جیسے لوگ اردو میں گفتگو کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہم محض ”بول“ رہے ہیں اورجب اہلِ زبان گفتگو کرتے ہیں تودل گواہی دیتا ہے کہ وہ بول نہیں رہے بلکہ ”فرما“ رہے ہیں۔ہم اب کبھی اُردو کی تاریخ کے بارے میں سوچتے ہیں تو چکرا جاتے ہیں کہ کس طرح بعض لوگ دن رات سرجوڑ کر اجلاس منعقد کرتے ہوں گے، کس قدر محنت ومشقت کر کے الفاظ بناتے ہوں گے اور پھرسب سے بڑی بات یہ کہ آج ہم اتنی ترقی کر لینے کے باوجود کسی ایک ”نقطے“ پر متفق نہیں ہو پاتے اور وہ ”بانیانِ ریختہ“کسی ایک نقطے پر نہیں بلکہ کئی کئی الفاظ پر متفق ہوجاتے تھے۔ مثلاً ”تکوینِ ریختہ“میں ایک ایسا مرحلہ بھی آیا ہوگا جب شرکائے اجلاس نے تجویز دی ہوگی کہ ہم 4ٹانگ والوں کو ”چوپایہ“، 3ٹانگ والوں کو ”تپایہ“،2ٹانگ والوں کو ”دوپایہ“ اور ایک لات والے کو ”پایہ“ کہا جائے گا۔ اس پر ایک اہلِ زبان نے تنقید کی کہ باقی تو سب ٹھیک ہے مگر ”تپایہ“ کچھ درست نہیں کیونکہ یہ پہلے ہی زباندانوںمیں رائج ہے ۔ وہ اکثر کہتے سنائی دیتے ہیں کہ فلاں نے مجھے بہت ”تپایہ“،یعنی بہت غصہ دلایا۔ اس مسئلے کا کیا حل ہو سکتا ہے۔ یہ سن کر وہیں موجود ایک ”مورد ہستی“ نے کہا کہ3پاوں والا تپایہ اور غصہ دلانے کو لکھیں گے ”تپایا“۔اس طرح نجانے کتنی اذیتوں، مشکلوں اور آزمائشوں سے گزر کر ایسا ذخیرہ¿ الفاظ تیار ہوا جسے” اُردولغت“کا نام دیا گیا۔ اس سے بھی مشکل محاورے ہیں جو شکلاً کچھ ہوتے ہیں اور اصلاً کچھ اورانہیں مرتب کرنے وا لوں نے نجانے کس کس طرح کے جذباتی کرب برداشت کئے ہوں گے ۔ان سب سے بڑھ کر ہمیں حیرت اُن لوگوں پر ہوتی ہے جو ”اہلِ زبان“ ہیں اور نہ صرف اُردو فر فر بولتے ہیں بلکہ محاوروں ، روزمرہ اور کہاوتوں کا بھی انتہائی بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ قومی زبان کو اس تپاک کے ساتھ برتنے پر اہلِ ریختہ “ قومی اعزازات کے حقدار ہیں کیونکہ یہ بھی قومی خدمت ہے ورنہ ہمارے ہاں روزانہ کتنے ہی اچھے اچھے، کھاتے پیتے، پڑھے لکھے، لاکھوں کماتے ، کروڑوں اُڑاتے ، ٹی وی پر نظر آتے لوگ ایسے ہیں جو اُردو لفظ، تلفظ، الفاظ، ادائیگی، معانی اور استعمال کے ساتھ نہ صرف دو دو ہاتھ بلکہ کھلواڑ کرتے ہیں۔
ہم نے پیدائش کے فوراً بعد ہی مصمم عزم کر لیا تھا کہ دنیا ادھر کی اُدھر ہوجائے، اُردو میں نہ صرف ”فرفریت“ حاصل کریں گے بلکہ شستگی میں ”اہلیانِ ریختہ“ سے بھی آگے نکل جائیں گے چنانچہ اوائلِ عمری سے ہی ہم اُردو محاوروں کی بنیاد تلاش کرنے میں جُت گئے یوں اپنی ہستی کو ”اُردوانے “ کے شوق میں ہم آج تک مصیبتیں جھیلتے چلے آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے صرف ایک ”واقعاتی سانحہ“ بیان کرنا کافی ہوگا۔ ہوا یوں کہ :
”ایک روز علی الصباح ہمارے والد صاحب اپنی اہلیہ سے کہہ رہے تھے کہ کل ہمارے چھوٹے بھائی دفتر آئے تھے، بڑی للو پتو کر کے سائیکل مانگ کر لے گئے۔ یوں انہوں نے تو ”اپنا اُلو سیدھا کر لیا“، اب ہمیں بس کے ذریعے ہی دفتر جانا ہوگا۔ہم اپنے وا لد کی باقی باتیں تو بھول گئے بس ”اپنا اُلو سیدھا کرنا“ کا محاورہ ذہنی یادداشت کی چھلنی میں رہ گیااور ہم اس محاورے کے مناسب اور کارگر استعمال کرنے پر کمر بستہ ہوگئے ۔ہم نے بچوں، بڑوں ، جوانوں، بزرگوں، خواتین اور مردوںسب کی گفتگو سننا اور اس میں دخل اندازی کرنا شروع کر دی ۔انتہائی منہ زور کوششوں کے باوجود محاورے کے استعمال کا موقع مل سکا نہ محل ۔ کئی دن یونہی گزر گئے پھر یو ںہوا کہ ایک روز ہم اپنی خالہ کی بیٹی کی شادی میں گئے۔ وہاں کافی دیر ہوگئی اور گھر لوٹے تو رات کافی بھیگ چکی تھی۔ نیند ٹوٹ کر آ رہی تھی چنانچہ اسکول کا کام کئے بغیر سو گئے اوراگلی صبح 7بجے اسکول پہنچ گئے۔ سب سے پہلا پیریڈ اردو کا تھا،مس شکیلہ نے کہا سب بچے اردو کی کاپیاں نکالیں اور اپنا کام چیک کرائیں۔ ہم نے کاپی نکالی ، مس شکیلہ کو پیش کی اورفوراً ہی ان کی للوپتو شروع کر دی کہ مس، آپ واقعی مثالی استانی ہیں کیونکہ آپ اپنے شاگردوں کا بہت خیال کرتی ہیں۔ ظلم تو آپ کی سرشت میں سرے سے نہیں۔ اسی دوران مس شکیلہ نے ہماری کاپی کے اوراق اُلٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے کہا کہ اردو کا کام دکھانے کی بجائے آپ یہ خوشامد کر رہے ہیں، کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ ایسا کس لئے؟ہم نے کہا کہ مس !کل ہم شادی میں گئے تھے، اسکول کا کام نہیں کر سکے، ہمارا اُلو چونکہ ٹیڑھا ہو گیا تھا، اس لئے آپ کی تعریف کر کے ہم اپنا اُلو سیدھا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کون سا مشکل کام ہے، آپ کا اُلو میں سیدھا کئے دیتی ہوں۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے دائیں پاوں سے جوتی اُتاری۔ ہم نے آخری حربے کے طور پر اپنی جیب سے رومال نکال کر زمین پر بچھاتے ہوئے کہا کہ اپنا پاوں اس رومال پر رکھئے نہیں تومیلا ہوجائے گا۔ انہوں نے ہماری اس پیشکش کو بلا تشکر قبول کرتے ہوئے ہم پر کوئی 57جوتیاں برسائیں پھر تھک کر کہنے لگیں کہ آئندہ آپ کا اُلو کبھی ٹیڑھا نہیں ہوگا۔وہ دن، سو آج کا دن، ہمارا اُلو کبھی ٹیڑھا نہیں ہوا کیونکہ مس شکیلہ کے ہاتھوں ہونے والی ”چھترول“ سے خائف ہو کر وہ اُسی روزہمیں چھوڑ کر فرار ہو گیا تھا۔
آج ہم اپنے وطن کے حالات دیکھ کر دل گرفتہ ہو جاتے ہیں کیونکہ پاکستان میںجا بجا ”ٹیڑھے اُلو“والوں کے جم غفیر دکھائی دیتے ہیں ۔ ان میں ہر کوئی اپنا اُلو سیدھا کرنے میں مگن ہے۔اسے ملک و قوم کی کوئی پروا نہیں۔ کوئی صاحب اختیار محض اس لئے اُلٹے سیدھے معاہدے کر رہا ہے تاکہ وہ منہ مانگا کمیشن وصول کر کے اپنا اُلو سیدھا کرسکے۔کوئی بااختیار منافع بخش سرکاری کارخانے نجی ملکیت یا شراکت میں فقط اس لئے دے رہا ہے تاکہ وہ اپنااُلو سیدھا کرسکے۔ ڈاکٹر صاحب بھی دردِ سر کے مریض کو4روپے کی دافع درد گولی دینے کی بجائے 5لاکھ لے کر اس کے دماغ کا آپریشن صرف اس لئے کر ڈالتے ہیں تاکہ وہ اپنااُلو سیدھا کرسکیں۔ایوان میں عوام کی بھلائی کے بلوں پر توغیر معینہ مدت کے لئے حمایت و مخالفت کاغیر موثر و بے نتیجہ کھیل کھیلا جاتا ہے،اراکین کی تقاریرسن کر ڈیسک بجائے جاتے ہیں یا خود شعلہ بیانی کر کے ڈیسک بجوائے جاتے ہیں اور گاہے بگاہے ایوان سے ”واک آوٹ“کا ڈرامہ رچایاجاتا ہے۔یوں عوام کو انکی ”نمائندگی“ کے نام پر اُلو بنایاجاتا ہے مگر جیسے ہی ایوان کے اراکین کی تنخواہوں میں ”منہ زور اضافے“ کے بل پیش ہوتے ہیں تو نہ کوئی مخالفت ہوتی ہے، نہ تنقید، کوئی ڈیسک بجتا ہے نہ ڈرامہ رچتا ہے کیونکہ ہر کسی کو اپنا اُلو سیدھا کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ان ٹیڑھے اُلوﺅں نے ہمارا مستقبل دھندلا دیا ہے۔آج ہمارے وطن میںشاید مس شکیلہ نہیں رہیںکیونکہ جب ان کے شاگرد وں میں سے کتنے ہی ملک عدم منتقل ہو چکے ہیں تو ممکن ہے وہ بھی جہانِ فانی سے ”آخری رخصتی “ پر جا چکی ہوں مگریقین کیجئے، ہمیں اپنے وطن کے حالات دیکھ کرمس شکیلہ بہت یاد آتی ہیں۔ وہ ہوتیں تو آج نہ عوام اُلو بنتے، نہ اُلو ٹیڑھے ہوتے اور نہ کسی کو اُلو سیدھا کرنے کی جرات ہو سکتی۔
******

شیئر: