Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کنٹرول لائن پر جنگ نہیں امن ناگزیر

 
 جنگ معیشت پر خودکش حملہ ثابت ہوگی ، مسئلہ کشمیر کا پُر امن حل نکالنا کشمیریوں کے مفاد میں ہوگا،دنیا کی مدد حاصل کرنا ضروری ہے
 
ارشادمحمود
 
کنٹرول لائن پر لگ بھگ ایک جنگ کی سی کیفیت جاری ہے۔عالم یہ ہے کہ ایک مسافر بس پر بھی فائرنگ کی گئی۔زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کی خاطر جب ایمبولینس پہنچی تو اسے بھی نشانہ بنایاگیا۔شہری سراسیمہ ہوچکے ہیں، کوئی پرسان حال نہیں۔مال مویشی اوراجڑے گھروں کو مال واسباب سمیت اللہ تعالے کے حوالے کرکے لوگ پناہ کی تلاش میں بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کررہے ہیں۔اس وقت تک35 کے لگ بھگ شہری شہید اور ڈیڑھ سو کے قریب زخمی ہوچکے ہیں جبکہ درجنوں دیہات خالی ہوچکے ہیں۔
کنٹرول لائن عام سرحدوں سے بہت مختلف ہے۔ یہ کوئی باقاعدہ سرحد نہیں بلکہ جنوری 1949 ءکوجہاں ہند یاپاکستان کی فوج کھڑی تھی وہاں ایک لیکر کھینچ کردیوار برلن کے طرز پرمصنوعی سرحد کھڑی کردی گئی۔ایک بھائی پاکستانی کنٹرول کشمیر میں پایاجاتاہے تو دوسرا ہندوستانی کشمیرمیں۔وہ ایک دوسرے کو دیکھ تو سکتے ہیں لیکن گلے مل نہیں سکتے کہ سنگینوں کے پہروں میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔مشکل یہ ہے کہ لوگوں نے گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے سے انکار کردیا۔ بعد میں پاکستانی فوج نے بھی مقامی لوگوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں آباد رہیں اور فوج کاساتھ دیں۔یہ آبادیاں فوج کی حلیف ہیں اورملک کے دفاع میں فوجی جوانوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہیں لیکن اب معاملہ یہ ہے کہ ہندکی گولہ باری ماضی کی تمام حدیں پار کرچکی ہے۔چھوٹے ہتھیار ہی استعمال نہیں ہورہے بلکہ توپ خانہ بھی میدان میں اتاراجاچکا ہے۔
برہان مظفروانی کی شہادت کے بعد کشمیر ایک غیر معمولی احتجاج کی گرفت میں آگیا۔5 ماہ سے مسلسل لوگ سراپا احتجاج ہیں اور وہ حق خود ارادیت کا مطالبہ کررہے ہیں۔دنیا میں بھی یہ احتجاج کچھ نہ کچھ پذیرائی حاصل کررہاہے لیکن اُڑی جیسے حادثات اور اب کنڑول لائن پر طبل جنگ بجا کر ہندنے دنیا کی توجہ دیگر مسائل کی طرف مبذول کرادی ہے۔خطرناک بات یہ ہے کہ ہند کی سیاسی اور عسکری قیادت اپنے فیلڈ کمانڈروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ گولہ باری میں جس حد بھی جاسکتے ہیں جائیں۔ایک ہندوستانی سابق فوجی افسر نے لکھا کہ ماضی میں ہمیں ایک ایک فائر کےلئے بھی دہلی کی اجازت درکار ہوتی تھی اور اب عالم یہ ہے کہ ایک کے بدلے میں 10 فائر نہ کریں تو جواب طلبی کی جاتی ہے کہ کس حکیم نے تمہارے ہاتھ باندھے جو اس قدر کمزور جواب دیا؟
وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کسی بھی قیمت پر پاکستان کے سامنے کوئی کمزوری نہیں دیکھنا چاہتی۔وہ ہند کے اندر ریاستی الیکشن میں داخل ہوا ہی چاہتی ہے۔ اترپردیش کا الیکشن تو سر پر کھڑا ہے جہاں حزب اختلاف کی جماعتیں اور بہوجن سماج پارٹی کا کافی زور ہے۔ حال ہی میں چین اور روس کے صدور ممبئی میں ایک کانفرنس میں شریک ہوئے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین جو انسانی حقوق کے علمبردار ہیں اور شہری آزادیوں کا ڈھنڈورہ پوری دنیا میں پیٹے ہیں مودی سرکار کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔انسانی حقوق کی علمبردار عالمی تنظیموں نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔محض اسلئے کہ ہند کی مارکیٹ بڑی ہے اور وہ مہنگے ہتھیار خریدنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ سوال یہ ہے کہ اس موقع پر کیا جواب دیا جائے؟توپ کے گولے کا فطری جواب توپ کا گولہ ہی ہوتاہے اور ہمارے لوگ بھی ایسا ہی جواب پسند کرتے ہیں لیکن جنگ کی تمنا کرنا اور اسے دعوت دینا ایک خطرناک کھیل ہی نہیں بلکہ ذہنی مریض ہونے کی دلیل ہے۔
کشمیریوں کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی پرامن حل نکل آئے اور اس کےلئے دنیا کی مدد حاصل کرنا بھی ناگزیر ہے۔ ہند بھی ایک کھلی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ خود اس کی معیشت کےلئے ایک خود کش حملے سے کم نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی حکومت اور فوج اپنے دفاع کیلئے چوکس ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔یہ جوہری ہتھیاراب بہت چھوٹی چھوٹی شکل میں بھی بنالئے گئے ہیں تاکہ اگر ضرورت پڑے تو ہند کے ٹینکوں کی یلغار کا مقابلہ کیاجاسکے۔بہت سارے مبصرین کا خیال ہے کہ ان چھوٹے ہتھیاروں کی کمانڈاورکنٹرول کا سسٹم اتنا موثر نہیں ہوسکے گا جتناکہ بڑے ایٹمی ہتھیاروں کا ہے۔اس صورت میں محدور یا روایتی جنگ نیوکلیائی جنگ کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے۔ 
پاکستان اورہند کے سیاستدانوں اور سفارتکاروں کی یہ اجتماعی ناکامی ہے کہ وہ تنازعات کا کوئی پُرامن حل تلاش نہیں کرسکے اور آج خطے پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔اگلے ماہ ہندکے شہر امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کے نام سے ایک کانفرنس ہورہی ہے جس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی شرکت کااعلان کیا جاچکا ہے لیکن بہت سارے عقاب صفت عبقری مشورہ دے رہے ہیں کہ بات چیت کا ہر دروازہ بند کردیا جائے۔کشیدگی کم کرنے کےلئے یہ ایک اہم موقع ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
سرحدوں پر جاری کشیدگی پاکستان کی اپنی معاشی ترقی اور بالخصوص پاک چین اقتصادی راہ داری کے مستقبل کےلئے بھی سود مند نہیں۔ چین کی سرمایہ کاری کے بعد دنیا کے بہت سارے اور ملک بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب ہورہے ہیں لیکن اگر یہ خطہ تناو یا کشیدگی کا شکار ہوتاہے تو پھر کوئی بھی سرمایہ دار پاکستان کا رخ نہیں کرے گا۔
داخلی طور پر بھی پاکستان غیر مستحکم ہوسکتاہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر کوئی مفاہمت یا سودے بازی کیے بغیر ہندکے ساتھ تعلقات کی بہتری کی کوشش جاری رکھے۔اس سلسلے میں مغربی ممالک کی معاونت بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کے پاس ایک موقع ہوگا کہ وہ خارجہ امور پر اپنے سیاسی نقطہ نظر کو منوائے، اہم پالیسی معاملات پر اپنی گرفت مضبوط بنائے اور زیادہ تیزی اور آزادی کے ساتھ پہل قدمی کرے۔
علاوہ ازیں پاکستان کو اقوام متحدہ کے خطے میں تعینات فوجی مبصرین کو بھی متحرک کرنا چاہیے تاکہ یہ عالمی ادارہ بھی کوئی کردار ادا کرسکے۔اس سلسلے میں اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے ابھی تک کافی سرگرم دکھائی ہےںجسے مزید مربوط بنایاجاناچاہیے۔آخری بات یہ ہے کہ آزادکشمیر کی حکومت کے پاس مالی وسائل ہیں اور نہ استطاعت کہ وہ کنڑول لائن پر جاری جنگ کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات یا نقل مکانی سے نبردآزما ہوسکے چنانچہ وفاقی حکومت کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔اس وقت تک وفاقی حکومت معمول کے مالی وسائل بھی واگزار نہیں کررہی جس کے سبب راجہ فاروق حیدر کی حکومت سخت مالی مسائل کا شکار ہے۔وقت آگیا ہے کہ وزیراعظم ہاوس میں نقل مکانی کا شکار لوگوں کی مشکلات دور کرنے کیلئے باقاعدہ ایک سیل قائم کیا جائے جو میڈیا کو بھی معلومات فراہم کرے اور حکومت کو بھی مسلسل حالات سے آگاہ کرے۔ 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: