Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام، ایمان اور احسان، دین کا مجموعہ

آدمی دین والا اس وقت ہوگا جب وہ مومن ، مسلم اورمحسن ہوگا، اِن اوصاف عالیہ سے خالی بندہ کچھ ہو مگرصاحب دین نہیں کہلا سکتا

 

ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔ مکہ مکرمہ

ہمارادین وحی ٔ ربانی کے ذریعے عطا کردہ ایمانیات، اسلامیات اور احسانیات پر مشتمل نظام ہے بلکہ تینوں امور ایمان، اسلام اور احسان سے ہی بزبان نبی کریم ہمارے دین کی تکوین وتشکیل ہوئی ہے۔ اسے ہی حدیث جبریل ؑ میں نبی کریم نے ’’دینکم‘‘ تمہارا دین فرمایا ہے ۔ یہ دین ایسا جامع ،ایسا کامل ومکمل اور ایسا شامل نظام حیات ہے جو حضرت انسان کی اندرونی وبیرونی زندگی کے جملہ احوال افعال کو محیط ہے کیونکہ ایمانیات تو باطنی افعال سے متعلق ہیں اور اسلامیات ظاہری اعمال سے عبارت ہیں۔ دونوں کے احکامات کی ادائیگی بندہ پر آسان ہو جائے، اسے ایمان واسلام میں لذت محسوس ہو، اسے اسی میں اطمینان ملے، یہ احسان کا ثمرہ ہے لہٰذا ایمان ،اسلام اور احسان یہی ہمارا دین ہے، یہی شریعت محمدیہ ہے ،یہی خاتم الادیان ہے اور یہی خاتم الشرائع ہے۔ پھر ایک جانب اگر دین کامل ہوگا تو دوسری طرف انسانی حاجات بھی پوری ہوںگی۔ اگرنظام زندگی یادین کامل نہیںتو وہ انسانی حاجات کو بھی پورا نہیں کر سکتا۔ ہم اپنے دین کو کامل اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی تکوین اور تشکیل میں انسانی حاجات کو مد نظر رکھتا ہے۔ ہمارا دین انسان کی ظاہری اور باطنی تمام ضروریات کو آسانی کے ساتھ اپنے تینوں شعبوں ایمان، اسلام اور احسان کے ذریعے پوری کرتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے بغیر دین نامکمل بھی ہوگا اور انسانی حاجات پوری بھی نہ ہوں گی، لہٰذا دین کے ان تینوں شعبوں میں کسی کو غیر اہم سمجھنا یا زائد ونفل قراد دینا، یہ سراسر جہالت ہے اور اپنے اوپر ظلم بھی ،یہ دین محمدیؐ ، شریعت محمدیہؐ اور خیر امت کے ساتھ نا انصافی ہوگی کیونکہ ہمارا دین وہ دین ہے جس پر نعمت تمام کر دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے پسندیدہ دین اختیار فرمالیا نیز کسی امر کا حسن اسکے کمال میں ہوتا ہے تو دین کا حسن بھی ایمان، اسلام اور احسان تینوں امور کے اجاگر کرنے سے ہی ہوگا۔ اگر کوئی شخص ان3 میں سے کسی شعبہ کو زائد سمجھے یا اسے مہمل چھوڑ دے ،وہ کبھی دین کے حسن وجمال سے لطف اندوزنہیں ہو سکتا۔یہ دین داری کی لذت اسے حاصل ہو سکتی ہے، دین میں کمال ہوگا تو حسن و جمال کا مشاہدہ بھی ہوگا اور دینداری کی لذت بھی۔حضرت جبریل علیہ السلام ، امین وحیٔ ربانی ہیں ۔

وہ ہمیں ہمارا دین سکھانے کے لئے فرمان باری تعالیٰ سے ہی جناب نبی کریم کے پاس آپ کے صحابہ کرام ؓ کی موجودگی میں آئے ۔ آنے کی کیفیت کو حضرت عمرؓ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص انتہائی اجلے سفید کپڑوں میں ملبوس، خالص سیاہ بالوں والا، اس پر سفر کے کوئی آثار نہیں تھے اور ہم میں سے اسے کوئی جانتا بھی نہیں تھا، حتیٰ کہ وہ حضور کے قریب ہوکر بیٹھ گیا ،اس نے اپنے گھٹنے حضور کے گھٹنوں سے ملا دیئے اور اپنے ہاتھ حضور کی رانوں پر رکھ دیئے اور کہا: اے محمد ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تُوگواہی دے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرے ، زکوٰۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے ،اگر استطاعت ہو تو حج بیت اللہ کرے ۔ اس نے کہا کہ آپنے سچ کہا ۔ ہمیں تعجب ہوا کہ کیسا سائل ہے کہ آپ سے سوال بھی کرتا ہے پھر آپ کی تصدیق بھی کرتا ہے ۔ پھر اس نے کہا کہ آپ ایمان کے بارے میں خبردیں، تو آپ نے فرمایا کہ تُو اللہ پر فرشتوں پر، اسکی کتابوں پر ،اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے ۔

تو اس نے کہا کہ آپ نے سچ فرمایا۔ پھر اس نے کہاکہ احسان کیا ہے تو آپ نے فرمایا : تُو اللہ کی عبادت کرے گویا تُواسے دیکھ رہا ہے ، اگر ایسا نہیں تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے ۔پھر اس نے پوچھا کہ قیامت کب ہوگی ؟ تو حضور نے جواب دیا کہ جس سے پوچھا جارہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ اس نے کہا کہ اس کی علامات بتادیں ؟ آپ نے فرمایا کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنم دے گی اورتُو دیکھے کہ ننگے پاؤں والے، لباس سے عاری اوربکریاں چرانے والے لمبی عمارتوںمیںمقابلے کرنے لگیں۔ پھر وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ جبریل تھے جو تمھیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ اس حدیث میں تدبر کے لئے مندرجہ ذیل پہلو ہیں: پہلا یہ کہ جس معاشرہ میں اصحاب رسول زندگی گزارتے تھے ،وہ باہمی تعارف، تعاطف اور میل جول کا معاشرہ تھا ۔

لوگ ایک دوسروں کے احوال اور ان کی شخصیات سے واقف ہوتے، اس دور میں سفر چونکہ اونٹ گھوڑوں وغیرہ پر ہوتا تھا تو مسافر پرگردو غبار کی وجہ سے سفر کے آثار نمایاں رہتے تھے، نہ کپڑے اجلے رہتے، نہ بال سیاہ ۔ لوگ جس شخص کو انتہائی سفید لباس ،خالص سیاہ بالوں میں دیکھتے تو جان لیتے کہ یقینا اس نے سفر نہیں کیا،قریب ہی کا ہوگا مگر یہ کیسے ممکن کہ اسے ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا ،یہ ہے اس معاشرے کی تصویر کشی ۔ دوسرے یہ کہ سائل کے سوالات ایمان، اسلام اور احسان3 امور سے متعلق ہیں،تینوں کے مجموعہ کو دین قرار دینا اس امر کی دلیل ہے، یہ تمام امور دین کے ضروری امور ہیںیادین کے 3ضروری شعبے ہیں، ان میں سے کوئی امر، فالتویا غیر ضروری نہیں ۔ تیسرا یہ کہ ہمارے دین میں یہ تینوں امور باہم گہرا ربط اور مضبوط تعلق رکھتے ہیں،پھر یہ تینوں حضرت انسان کی ضرورت ہیں، انسانیت کی تعمیر میں ان کا مؤثر کردار ہے۔ چوتھا یہ کہ حضرت انسان کو مؤمن ، مسلم اور محسن بنانے کے لئے بیان ہورہے، یہی حضرت انسان سے شارع کی طرف سے مطلوب ہے ۔ پانچواں یہ کہ ایمان کے جواب میں باطنی (اندرونی) امور کا بیان ہوا ہے ، جن کو دل سے یقین محکم اور پختہ اعتقاد سے تسلیم کئے بغیر حضرت انسان، بندئہ مؤمن نہیں ہوسکتا۔ اس حدیث شریف نے امت مسلمہ کے سامنے دین کے 3حقائق، ایمان، اسلام اور احسان کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ۔ حق تعالیٰ شانہ نے جب ہمارے دین کے وصف میں فرمایا کہ دین اللہ کے ہاں ’’اسلام‘‘ ہے نیز فرمایا کہ جس نے اسلام کے سوا دین تلاش کیا اس سے ہرگز قبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں ہوگا ۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ہماری دنیا اور آخرت کی سعادت جس دین سے وابستہ رہنے میں فرمائی اور شقاوت جس دین کے ترک کرنے میں رکھی اسے باری تعالیٰ نے سہل اور آسان اسلوب سے پورے اہتمام اور وضاحت سے بیان فرمادیا، لہٰذا اب اسے اسی اندز میں لینا ہماری دینداری ہے ۔ اسے اسی انداز سے بیان کرنا ہماری دینداری ہے ۔ اسے اسی انداز سے سمجھنا ہماری دینداری ہے ۔اسے اسی انداز سے سمجھانا یہ ہماری دینداری ہے، اسی دین کامل میں ہماری رفعت اور سر بلندی ہے اسی میں ہماری فوز و فلاح ہے، نبوی بیان سے ہٹ کر دین کا بیان کرنا ، نبوی انداز سے ہٹ کر دین کو سمجھنا، نبوی انداز سے ہٹ کر دین کو لینا ، اس میں یقینا ہماری پستی ہے، شقاوت ہے اور ناکامی ہے ۔

 

(مکمل مضمون روشنی 25نومبر کے شمارے میں ملاحظہ کریں)

 

شیئر: