Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈاکٹر ذاکر نائیک پر پابندی

ہند علم دوست شخصیت پر پابندی لگاکر دنیا کو باور کروارہا ہے کہ وہ سیکولر نہیں بلکہ ہندوتوا کا دیش ہے

 

محمد عتیق الرحمن۔ فیصل آباد

ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک ایسا نام جس نے تقابل ادیان میں دیگر مذاہب کے علما ء و پیروکاروں پر ایک لرزہ طاری کیا ہوا ہے ۔جن کے پروگراموں میں عیسائی ، یہودی ، سکھ ، ہندو،دہریے ودیگرمذاہب کے پیروکار بڑی دیدہ دلیری سے سوالات کرتے ہیں ۔ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے پروگراموں میں اسلام کے متعلق پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا تسلی بخش جواب دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسی اسلام پسند شخصیت کے حصے میں دیگر مذاہب سمیت ہندوازم کو چیلنج کرنا اور پھر ان کے پنڈتوں کوبحث ومباحثہ میں شکست فاش دینااورمعروف عیسائی اسکالر ولیم کیمبل سے شکاگومیں کئی گھنٹوں پرمشتمل مناظرے میں اسے شکست دینے جیسے کئی اعزازات آئے ۔گزشتہ 25سال میں عالمی سطح پر اسلامی علمی شخصیات میں اگر سب سے بڑا نام ذاکر نائیک کا کہوں تو بے جا نہ ہوگا۔

ہندوستان اپنے آپ کو سیکولر ریاست کے طورپر دنیا میں منواتا ہے اور اس کا وزیر اعظم اپنے آپ کو سیکولرا سٹیٹ کا پردھان منتری بولتا ہے لیکن ہند بوکھلاہٹ کا شکارہوکر جہاں مسلمانوں کی آواز کو دبا رہا ہے وہیں ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسی علمی شخصیت پر طرح طرح کے الزامات لگا کر انہیں خاموش کروانے کی کوشش میں مصروف ہے۔بی بی سی کی خبر کے مطابق ذاکر نائیک پر مذہبی منافرت کو فروغ دینے کے الزام میں کیس رجسٹر کیا گیا تھا۔

ہندوستان میں مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے پیروکاروں پر ہونے والے ہندو جنونیوں کے حملے پر کسی بھی قسم کا ردعمل نہ دینے والا وزیراعظم اور اس کی سرکار ڈاکٹر ذاکر نائیک کو گرفتار کرنے اور ان کی آوازکو دبانے کی سرتوڑکوشش کررہی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے آج تک کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور نہ ہی کسی بھی قسم کی فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش میں مصروف رہے ہیں ۔ایک ایسے ملک میں جہاں وشواہندو پریشد جیسی تنظیمیں کھلے عام اپنا کھیل کھیلنے اور ہندوخواتین کو اسلحہ چلانے کی تربیت دینے میں مصروف عمل ہوں اور مسلمانوں پرگائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں حملے ہوں وہاں ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسی اسلامی شخصیت کو کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے ۔ہندوانتہا پسند ودیگر غیر مسلموں کی ذاکرنائیک سے دشمنی بجا ہے لیکن کچھ فرقہ واریت کے دلدادہ مسلمان بھی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوکر کچھ اختلافات(جوپاکستان میں بھی مختلف فرقوں کے علماء کے درمیان موجود ہیں ) کی آڑ میں اپنی دشمنی نکال کربی جے پی اور دیگر انتہاپسندوں کو اپنی وفاداری دکھا رہے ہیں ۔ممبئی میں انہوں نے مظاہرے کے دوران ڈاکٹر ذاکر نائیک کی قد آور تصاویر پر گوبر اور جوتے اچھال کر اپنی نفرت کا اظہار کیا اور ثابت کیا کہ ان کے علماء انہیں کیا تعلیمات دیتے ہیں ۔

اسی طرح ایک بھارتی حسینی ٹائیگرز نامی تنظیم نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف جاری محاذ میں حصہ ڈالتے ہوئے ان کے سر کی قیمت مقرر کردی۔ ہندوستانی مسلم مخالف لابی کا حصہ بننے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک پر کس وجہ سے ہند عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہے، ان کی کھٹکنے والی بات اسلام کی اصل تصویر دنیا کے سامنے لانا ہے ۔ دہشت گردی کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانے اور اسلام کا امن کا پیغام پھیلانا ہند سمیت دیگر اسلام دشمن ممالک کو برداشت نہیں ہورہا ۔ ہندو انتہاپسندوں کو سمجھنا چاہئے کہ مسلمانوں نے طویل عرصے تک ان پر حکمرانی کی ہے اور پاکستان بھی اپنی کوششوں سے حاصل کیا ہے، یہ کسی عالمی سازش کا نتیجہ نہیں ۔ ڈاکٹر ذاکرنائیک کے خلاف جاری حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہند جہاں کشمیر کے مسئلے پر دنیا میں اپنی جگ ہنسائی کروارہا ہے، وہیں علم دوست شخصیت پر پابندی لگاکر دنیا کو باور کروارہا ہے کہ وہ سیکولر نہیں بلکہ ہندوتوا کا دیش بنارہاہے ۔ ان فرقہ ور ا فراد کو یادرکھنا چاہئے کہ ہندو مسلمانوں کا دشمن ہے ۔ اس کے ساتھ وفاداریاں کرکے بھی گجرات جیسے واقعات لازمی ہوںگے کیونکہ ہندوسمجھتا ہے کہ ہند صرف ہندوئوں کا ہے ۔

شیئر: