Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منظم لُوٹ اور قانونی غارت گری

بڑے نوٹوں کی منسوخی نے پورے ملک کو معاشی طورپر شدید بحران میں مبتلا کردیا ہے، سماج کا کوئی طبقہ نہیں جو اس فیصلے سے متاثر نہ رہا ہو

 

معصوم مرادآبادی

سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بڑے کرنسی نوٹوں کا چلن بند کرنے کے مسئلہ پر اپوزیشن کی قیادت کرتے ہوئے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔انہوں نے راجیہ سبھا میں نوٹوں کی منسوخی کے مسئلہ پر مباحثے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ’’ یہ دراصل منظم لوٹ اور قانونی غار ت گری ہے اورحکومت کے فیصلے سے عام آدمی اور غریب عوام پریشانیوں اور مسائل کا شکار ہیں۔‘‘ وزیراعظم نریندرمودی نے بڑے کرنسی نوٹوں کو بند کرنے کا اچانک فیصلہ کرکے ملک کے عوام کو جو گہرے زخم دیئے ہیں، ان پر مرہم رکھنے کی کارروائی صرف اپوزیشن لیڈر ہی کررہے ہیں اور اس معاملے میں تمام اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان بے مثال اتحاد نظر آرہا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے اس معاملے میں پارلیمنٹ تعطل کا شکار ہے اور اپوزیشن نے حکومت کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔

پارلیمنٹ کے احاطے میں ایک درجن سے زیادہ اپوزیشن پارٹیوں کے تقریباً200ممبران پارلیمنٹ کا بے نظیر احتجاج اس بات کا گواہ ہے کہ نوٹ بندی کے فیصلے سے ملک کے عوام سخت مصیبت اور پریشانی سے دوچار ہیں۔ حکومت اس معاملے میں لوگوں کو مصیبتوں سے چھٹکارہ دلانے کے بجائے ہر روز نئی دھمکیوں اور وارننگ کے ساتھ سامنے آرہی ہے۔ یہاں تک کہ بینکوں سے پرانے نوٹ تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا گیا ہے۔

عوام کو کسی قسم کی راحت نہیں دی جارہی ۔ حکومت اس وقت بھی ٹس سے مس نہیں ہوئی جب گزشتہ ہفتہ سپریم کورٹ نے نوٹوں کی منسوخی سے پیدا شدہ صورتحال کو انتہائی سنگین قرار دیتے ہوئے سڑکوں پر فسادات کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔یوںبھی نئے کرنسی نوٹ حاصل کرنے اور پرانے بینکوں میں جمع کرانے کی جدوجہد جان لیوا ثابت ہورہی ہیں اور اب تک اس’’ سنگھرش‘‘ میں ملک گیر پیمانہ پر 70سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔بازار ویران پڑے ہیں اور لوگوں کی جیبیں خالی ہیں۔ سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی باتوں کو لوگ اس لئے بھی توجہ سے سنتے ہیں کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ ملک کی معاشی زبوں حالی دور کرنے میں گزرا ہے۔ ریزروبینک کے گورنر کی حیثیت ہو یا پھر ملک کے وزیرخزانہ کا عہدہ ۔

انہوں نے ہرجگہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ بطور وزیراعظم انہوں نے ہندوستان کو اس وقت معاشی بحران سے بچارکھا تھا جب دنیا کا بیشتر حصہ زبردست معاشی دلدل میں جاچکا تھا۔ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے راجیہ سبھا میں اپنی تقریر کے دوران نوٹ بندی کے فیصلے کو نافذ کرنے کے طریقہ کار کو پوری طرح ناکام قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس کی وجہ سے ملک بھر میں خوب منظم طورپر ’’قانونی لوٹ مار‘‘ ہوئی ہے اور عام آدمی کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑاہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیصلے کو نافذ کرنے میں حکومت نے زبردست غلطیاں کی ہیں اور وہ پوری طرح ناکام ثابت ہورہی ہے، جس کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہاکہ اس سے لوگوں کا کرنسی اور بینکنگ نظام پر اعتماد کم ہوگا۔ سابق وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس فیصلے سے 90 فیصد عام لوگ اور غیر منظم سیکٹر کے 55فیصد مزدور سخت پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ جس طرح سے حکومت ہرروز نئے احکامات جاری کررہی ہے اس سے ریزروبینک کے کام کاج کا نظام پوری طرح مفلوج ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ ‘‘ جس وقت سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ ایوان بالا میں تقریر کررہے تھے تو وہاں پوری طرح سناٹا چھایا ہوا تھا اور وزیراعظم نریندرمودی اور وزیرخزانہ ارون جیٹلی اپنی نشستوں پر ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔

ان دونوں کے تاثرات سے یہ نہیں محسوس ہورہا تھا کہ نوٹ بندی کے فیصلے سے عوام کو ہورہی پریشانیوں کا انہیں کوئی احساس ہے۔ ظاہر ہے اسی روز وزیراعظم نریندرمودی نے اپنے ذرائع سے ایک سروے کراکے یہ پتہ لگالیا تھا کہ 90فیصد لوگ ان کے فیصلے کے حق میں ہیں ۔ ایک خصوصی ایپ کے ذریعے وزیراعظم کے دفتر نے نوٹ متروک کئے جانے کے فیصلے پرجو سروے کرایاتھا اس میں لوگ حکومت کو ہری جھنڈی دکھاتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ پی ایم او کے مطابق 24گھنٹوں کے اندر اس سروے میں 5 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ سروے میں فی منٹ 400جواب حاصل ہوئے اور اس دوران2ہزار لوگوں کے خیالات سے بھی وزیراعظم کو آگاہی ہوئی جن میں سے زیادہ تر لوگوں نے حکومت کے قدم کو حق بجانب قرار دیا۔ اس سروے کا نتیجہ آنے کے بعد پی ایم او کی طرف سے تشہیر کی گئی 90 فیصد لوگوں نے وزیراعظم کے فیصلے پر مہر لگادی ہے لہٰذا باقی سب خیریت ہے۔

ظاہر ہے جب کوئی وزیراعظم یا ان کی حکومت ملک کے حالات سے پوری طرح بے خبر ہوکر شترمرغ کی طرح ریت میں اپنی گردن چھپالے تو پھر اس کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل نہیں ۔ ایک سو25کروڑ لوگوں کے ملک میں جہاں محض 5 لاکھ لوگوں کی رائے اتنی اہمیت رکھتی ہو تو پھر اس حکومت کی ذہنی حالت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ ہم آپ کو یاد دلادیں کہ ہندوستان کی مجموعی آبادی میں صرف 22 فیصد لوگ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں اور اگر وہ سب مل کر بھی کسی سروے میں حصہ لیں تب بھی ہمیں ملک کے 78فیصدی عوام کی رائے معلوم نہیں ہوپائے گی۔ چہ جائیکہ وزیراعظم کا دفتر ایک خصوصی ایپ کے ذریعہ 5 لاکھ لوگوں کی رائے معلوم کرکے اسے پورے ملک کی رائے ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ بڑے نوٹوں کی منسوخی نے دوہفتوں کے اندر پورے ملک کو معاشی طورپر شدید بحران میں مبتلا کردیا ہے اور سماج کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو اس فیصلے سے خود کو ٹھگا ہوا محسوس نہ کر رہا ہو۔ باربار حکومت سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے یا پھر عوام کو متبادل راستہ دکھائے تاکہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی گزارنے کے لائق ہوسکیں لیکن حکومت کے کارندے کہتے ہیں کہ ’’فیصلہ واپس لینا مودی کے خون میں شامل نہیں۔‘‘ حکومت خواہ کتنا ہی پروپیگنڈہ کیوں نہ کرلے کہ ا پوزیشن نوٹ بندی کے معاملے میں افواہیں پھیلارہا ہے لیکن یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ ملک کے عوام اس فیصلے سے جس قدر پریشان اور حیران ہیں اس کی ملک کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

عوام کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ یہ فیصلہ و اضح طورپر ایک حکمراں کی انانیت کا نتیجہ ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ ملک کے وہ عوام جنہوں نے اس حکمراں کو اقتدار کی بلندیوں تک پہنچایا ہے،اس نے بھکاری بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ملک کے عوام اپنے ہی پیسے حاصل کرنے کے لئے بینکوں اور اے ٹی ایم کی لمبی قطاروں میں ذلت آمیز سلوک سے گزررہے ہیں۔ وزیراعظم نریندرمودی نے اس فیصلے کو اتنے خفیہ طریقے سے نافذ کیا ہے کہ اس کے لئے نہ تو اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کا وقت تھا اور نہ ہی ارباب اقتدار کو۔ درحقیقت حکومت عوام کو یہ باور کرانے میں ناکام ہے کہ ان کی محنت کی کمائی اور خواتین کی طرف سے پس انداز کی گئی دولت کو حکومت نے جس طرح حلق میں ڈال کر نکال لیا ہے وہ عوام کے استعمال میں ہی آئے گی۔ اپوزیشن کا یہ الزام بڑی حد تک درست معلوم ہوتا ہے کہ مودی سرکارنے یہ فیصلہ ڈوبتے ہوئے بینکوں اور جعلسازی میں ملوث سرمایہ داروں کے حق میں لیاہے ۔

شیئر: