Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خلیجی ممالک اور ٹرمپ کے درمیان قدر مشترک

اخوان المسلمون اور ایران سے عداوت ٹرمپ اور خلیجی ممالک کے درمیان قربت اور تعاون کی نئی راہیں کھول سکتی ہے

 

عبد الستارخان

امریکی انتخابات میں نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر دنیا بھر کے میڈیا نے روشنی ڈالی ہے۔ اب جبکہ انتخابات کی دھول بیٹھ گئی تو مطلع اگرصاف نہیں تو کافی حد تک واضح ہوگیاہے۔ وہائٹ ہاؤس کے نئے باسی کے متعلق نہ صرف تجزیہ نگاروں کو خدشات ہیں بلکہ کئی ریاستیں قلق اور پریشانی کا شکار ہیں۔ ٹرمپ کی ممکنہ پالیسیوں کے متعلق بہت کچھ لکھاجاچکا ہے اور مزید لکھنے کی بھی گنجائش موجود ہے تاہم اس کالم کو خلیجی ممالک تک ہی محدود رکھا جارہا ہے ۔ ٹرمپ کی ممکنہ پالیسیوں کو خلیجی ممالک کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

خلیجی ممالک اور امریکہ کے تعلقات کا مستقبل کیا ہوگا اور خطے میں کن تبدیلیوں کی توقع کی جاسکتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ اور خلیجی ممالک کے درمیان کئی قدریں مشترک ہیں جن پر صحیح طور پر کام کیاجائے تو امریکہ اور خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات کی نئی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں۔سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے امریکہ کے ساتھ تعلقات تاریخی ہیں تاہم ان تعلقات میں اتارچڑھاؤ بھی ہوتا رہا ہے۔

امریکہ کے ساتھ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے اختلافات کی بنیاد دیگر ممالک ہیں جن میں یمن اور شام کامسئلہ سرفہرست ہے۔ اسی طرح لیبیا کے بارے میں متضاد موقف کی وجہ سے بھی تعلقات میں سردمہری ہوتی رہی ہے۔ تاریخی حقیقت ہے کہ امریکہ کے اصل باشندے ریڈ انڈین ہیں۔ یہ ملک مہاجروں سے آباد ہے۔ یہاں مغربی ممالک سے ہجرت کرنے والے آکر آباد ہوئے ۔ یہ بذات خودکوئی قوم نہیں بلکہ مہاجرین کا مجموعہ ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ مہاجرین کی سرزمین اب نئے مہاجرین پر اپنے دروازے بند کرنا چاہتی ہے۔ مغربی نژاد امریکی جو خود کو امریکہ کے اصل باشندے اورامریکی تہذیب کے اصل وارث سمجھتے ہیں اپنے ملک میں خود کو اقلیت محسوس کرنے لگے ہیں۔ ان کا یہ گمان بے بنیاد بھی نہیں۔

بعض ریاستوں میں وہ واقعی اقلیت میں ہیں جہاں افریقی، عرب اور مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں ہے۔ بس یہی وہ نبض ہے جس پر ٹرمپ نے ہاتھ رکھا اور جس نے انہیں بالآخر وہائٹ ہاؤس تک پہنچادیا۔ ٹرمپ سے خدشات اور قلق کی بنیادی وجہ انتخابی مہم کے دوران ان کے شدت پسند بیانات تھے جو انہوں نے مسلمانوں کے بارے میں دیئے مگر اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ انتخابی مہم کے ٹرمپ اور ہیں اور وہائٹ ہاؤس کے ساکن ٹرمپ اور ہوں گے۔

ویسے بھی مہم کے دوران کی جانے والی باتیں کسے یاد رہتی ہیں۔ مصر کے موقر اخبار’’الا ہرام‘‘ میں ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطی ولید الفارس کاانٹرویو شائع ہواہے جس میں انہو ں نے اسلام اور مسلمانوںکے بارے میں نو منتخب صدر کے نظریات کافی حد تک واضح کئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ نومنتخب صدر اسلام اور مسلمانوں کے نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگائی جائے تو ان کا مطلب تھا کہ اخوان المسلمون اور دیگر تنظیموں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی لگائیں گے۔ ٹرمپ اور خلیجی ممالک کے درمیان پہلی قدر مشترک بھی یہی ہے۔

مصر میں اخوان المسلمون پر پابندی ہے نیز سعودی عرب، امارات اور دیگر ممالک میں بھی یہ کالعدم تنظیم ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اور خلیجی ممالک اس نکتے پر تعاون کی کئی راہیں کھول سکتے ہیں۔ امریکہ ، سعودی عرب اور خلیجی ممالک دہشت گردی سے نبر آزما ہیں۔ داعش سے امریکہ سمیت سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو خطرات لاحق ہیں۔ انسداد دہشت گردی اور داعش کے خلاف ان کے درمیان مضبوط تعلقات قائم کئے جاسکتے ہیں۔ٹرامپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ ولید الفارس نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ ٹرمپ سعودی عرب کے ساتھ تاریخی تعلقات کو مزید وسعت دینے کے خواہشمند ہیں۔

وہ خطے میں دہشت گردی کے انسداد کے لئے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ خلیجی ممالک اور ٹرمپ کے درمیان دوسری قدر مشترک ایران ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر اوباما نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کرکے اپنے خلیجی دوستوں کو ناراض کیا ہے۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر اعتراض نہیں ۔ و ہ امریکہ کی طرف سے ایران کے ایٹمی پروگرام سے صرف نظر پر خدشات کااظہار کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے بارہا کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر نظر ثانی کریں گے۔ یہ بحث اپنی جگہ ہے کہ وہ قانونی طور پر ایسا کر سکیں گے یا نہیں تاہم خلیجی ممالک کے لئے ٹرمپ کے یہ نظریات کا فی حوصلہ افزا ہیں۔ خلیجی ممالک کو ایران کی خطے میں توسیع پسند اقدامات سے پریشانی ہے۔

وہ ایران کو حد میں رکھنے کے لئے باراک اوباما سے مایوس ہوگئے ہیں۔ انہیں امید ہوچلی ہے کہ نو منتخب صدر اور ان کے درمیان ایران کے حوالے سے تحفظات مشترک ہیں۔ اگر ٹرمپ خطے میں امن واستحکام، دہشت گردی کا انسداد اور ایران کے توسیع پسندعزائم کو روکنا چاہتے ہیں تو انہیں اعتدال پسند ممالک کی ضرورت ہوگی اور خطے میں سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے زیادہ اعتدال پسند کون ہوگا۔ انہیں سعودی عرب، امارات، کویت اور مصر کی صورت میں تیار شدہ حلیف میسر ہیں جو نہ صرف دہشت گردی کے انسداد کے لئے پہلے سے ہی کوششیں کر رہے ہیں بلکہ ان کے ساتھ نئے سرے سے کئی پرانے معاہدوں کی تجدیدواحیاء کی جاسکتی ہے۔ نومنتخب صدر جنوری کے آخر میں زمام اقتدار سنبھالیں گے اور اس وقت ان کی خارجہ پالیسی کی حقیقت معلوم ہوگی مگر وہ وقت آنے تک خلیجی ممالک کو قدر مشترک کی بنیاد پر دوستی اور تعلقات کی نئی راہیں کھولنے کے لئے کئی اہم اقدامات کرنے ہوں گے۔ خطے کے امن واستحکام اور دہشت گردی کے انسداد کے لئے ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ممکنہ مہم جوئی کا مقابلہ کس طرح کیا جائے گا اور کن راہوں پرخارجہ پالیسی اختیار کی جائے گی یہ وہ اہم اقدامات ہیں جو خلیجی ممالک کو چند دنوں میں کرنے ہوں گے۔

شیئر: