Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیا میں امن کا قیام ، اسلام کا مرہون منت

جس نے ہم سے اپنی تہذیب مستعار لی ، اسی کی اندھی تقلید میں فخر محسوس کرنے لگے ، نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نہ اسلام کے رہے اور نہ مغربی بن سکے

 

مولانانثاراحمد حصیر القاسمی ۔ حیدرآباد دکن

آج ساری دنیا کی قومیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بہ یک زبان اس کی بیخ کنی اور اس کے انسانیت نواز متوازن پیروکاروں کو نہایت مذموم وقابل نفرت شکل میں پیش کرنے کی سعی کررہی ہیں۔ ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ آج اپنی پوری قوت وتوانائی اسلام ومسلمان دشمنی میں صرف کررہی اور نت نئی چیزیں ایجاد وگھڑ کر پیش کررہی ہیںتاکہ دنیا کے باشندے اسلام اور مسلمانوں سے اس قدر متنفر ہوجائیں کہ کوئی ان سے قریب ہونا اور ان کی بات اور سچی دعوت کو سننا بھی پسند نہ کریں۔

آج اسی منفی پروپیگنڈوں کی بنیاد پر الیکشن لڑے جاتے اور اسلام دشمنی کے سارے ملک کے عوام کے ذہن کو مسموم کرکے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اس منفی پروپیگنڈوں ، مکارانہ منصوبوںاور دروغ گوئیوںپر مبنی سرگرمیوں کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ ساری دنیا میں بڑے بڑے محققین ، انصاف پسند باشندے، کھلی ذہنیت رکھنے والے اہل علم ودانشور، خیر وشر کے درمیان امتیاز کرنے کے خواہاں حق کے متلاشی اور چین وسکون وراحت وقرار کے جویا اسلام کا از سر نو مطالعہ کررہے ۔کھلے دل وماغ سے اس کی تعلیمات کا جائزہ لے رہے اور ظاہری پروپیگنڈوں سے ہٹ کر مسلمانوں کے طرز عمل کو تول رہے اور ان کے خلاف پروپیگنڈوں کو میزانِ عدل پر رکھ کر تولنے کی کوشش کررہے ہیں۔

سچائی وانصاف پسندی سے اسلام کا مطالعہ کرنے اور مسلمانوں کو پڑھنے سے انہیں اندازہ ہورہا ہے کہ دنیا کے اندر موجود مذاہب میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کی خصوصیات نمایاں، اس کی تعلیمات منفرد، اس کی اثر انگیزی محیر العقول، اس کی گرفت نہایت مضبوط، اس کی انسانیت نوازی ممتاز، اس کا عدل قابل تقلید ، اس کی فکر اوراس کا نظریہ بالکل صاف وشفاف، اس کا ہر حکم فطر ت انسانی کے مطابق، اس کی ہر بات حقائق وصداقت کی عکاسی کرنے والی اور اس کا پورا نظام نہایت متوازن ہے،جس میں کہیںجھول نہیں اور اس میں نہ بے جا شدت ہے اور نہ بگاڑ وخرابی پیدا کرنے والی نرمی۔ اسلامی نظریہ ہی دنیا کے سارے نظریوں پر غالب ہے۔ اس کے اندر روحانیت بھی ہے اور مادیت بھی، اس کے اندر سچائی ہے جس میں ظاہری ملمع سازی نہیں ، یہی سچا دین ومذہب ہے جو پہلے والوں کیلئے بھی عظیم پیغام تھا اور آج کے لوگوں کیلئے بھی اور آئندہ آنے والوں کے لئے بھی ہے۔ اس مذہب کا ایک مقصد ہے ، غرض وغایت ہے، دعوت وآواز ہے، قوت وعزت ہے ، قیادت وسلطانی ہے، اخلاق واقدار ہے، تعلیم وثقافت ہے، تہذیب وکلچر ہے، رفعت وبلندی ہے، شفافیت وپاکی ہے۔

انسانیت اگر اپنی نفسانیت اور خواہشات نفسانی سے اوپر اٹھ کر غور کرے اور تعصب وعداوت کی پٹیوں کو آنکھوں سے اتا کر اسے دیکھے تو اسے بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ اسلام اور اس کی تعلیمات کتنی عظیم الشان ہے۔اس کا پیغام کس قدر ہمہ گیر اور فلاح وسعادت کا ضامن ہے۔ اس کی قدرو قیمت ادیانِ عالم اور خود ساختہ مذاہب وافکار ونظریات کے درمیان کس قدر بڑھی ہوئی ہے۔اسلام کی اس سچائی اور عظمت شان کی وجہ یہ ہے کہ اس کا پیغام اور اس کا انداز فکر انسانوں تک دنیا کے مفکر ین وعقلاء کے واسطہ سے ،دنیا کے قانون دانوں اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے انسانوں کے ذریعہ یا فلاسفہ وخیالی تانے بانے جوڑنے والوں یا سیاسی قائدین ورہنمائوں کے ذریعہ یا سماجی کارکنوں اور تجربات سے گزرنے والے ماہر نفسیات کی جانب سے نہیں پہنچا بلکہ نبیوں اور رسولوں کے واسطہ سے پہنچا ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی آتی تھی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: بیشک آپ کو اللہ حکیم وعلیم کی طرف سے قرآن سکھایا جارہا ہے (النمل6)۔ یقینا ہم نے آپ کو سات آیتیں دے رکھی ہیں، کہ دہرائی جاتی ہیں اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہیَ(الحجر 87)۔

اسی لئے ہمارا ایمان وایقان ہے کہ اسلام کا پیغام اس کا نظام ِحیات اس کا طریقہ کار، اسکی دعوت اس کی کتاب اور اس کا دستور وقانون ربانی ہے۔ اس کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کا ارادہ ہے، یہ کسی بادشاہ ، کسی سربراہِ ملک ‘ کسی امیر‘ کسی عوام ، کسی پارلیمنٹ ‘ کسی پارٹی ، جماعت کا بنایا ہوا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے اس لئے اللہ کے بنائے ہوئے نظام وقانون میں کسی مخصوص قوم وملک اور کسی خاص جماعت ورنگ ونسل کے مفادات کی رعایت نہیں رکھی گئی بلکہ اس میں پورے عدل وانصاف کیساتھ ساری دنیا کی قوموں اور ہر رنگ ونسل اور ہر زمانہ کے لوگوں کی رعایت رکھی گئی ہے۔ اللہ کی جانبداری کسی خاص رنگ ونسل اور کسی خاص جنس ونوع اور حسب ونسب سے نہیں بلکہ اس کا سلوک ہر ایک کیساتھ یکساںہے، وہ انسانوں کا بھلا ہی چاہتا ہے، برا نہیں۔وہ خیر ہی کو پسند کرتاہے، شر کو نہیں۔ وہ صلاح وبہتر کو ہی پسند کرتا ہے، فساد وبگاڑ کو نہیں، اس لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت سارے انسانوں کی میراث اسلام ہی ہے۔ وہی انسانوں کا بھلا کرسکتا ہے، دنیا کے نظام کو سنوار سکتا اور انسانیت کو بدامنی ولاقانونیت اور انتشار وخونریزی سے نجات دلا سکتا ہے۔کرپشن کا خاتمہ اور ہر انسانیت سوز حملوں کو دفع کرسکتا ہے۔ چونکہ اسلام اور اس کی تعلیمات ونظام حیاتِ ربانی ہے، اس لئے اس میں نہ کسی سے بغض وعناد ہے اور نہ عصبیت وعداوت کہ اس سے امن وامان متاثر ہو، اور باہمی الفت ومحبت میں کمی آئے۔ ربانی ہونے کی وجہ سے یہ ہر طرح کی غلطیوں ، لغزشوں ، چُوکوں اور رکاوٹوں سے پاک ہے، اس میں فکری ناہمواری بھی نہیں کہ صدیوں انسانیت اس کی ستم ظریفی سے کراہتی رہے۔ اس کے نظام میں کوئی کمی زیادتی بھی نہیں کہ جس سے انسانی دماغ لازمی طور پر دوچار ہوتا ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا مفکر کیوں نہ ہو اور یہ مخصوص زمانہ یا مخصوص خطہ تک محدود بھی نہیں ، یہ نظام ظلم وبربریت ، انتقام وتسلط ، کبر وغرور اور نفسانی خواہشات جیسی کمزوریوں سے بھی پاک ہے، جس نے انسانیت کو صدیوں پیسا، اسے اپنا تختۂ مشق بنائے رکھا، اور اسے امن وامان او ر سکون وچین سے محروم رکھا، اور ان پر ظالم وجابر فرعونی طاقتیں مسلط رہیںاور انہیں اپنی ہوس کا شکار بناتی رہیں۔اسلام کا نظام کوئی تاریخی ودستوری نظام نہیں جو مخصوص زمانہ ، مخصوص خطہ، مخصوص رنگ ونسل اور مخصوص وقت کیلئے ہو۔سابق میں شریعتیں مخصوص خطہ اور مخصوص قوموں ولوگوں کیلئے آتی تھیں تاکہ ان کے مردہ دلوں کو زندہ کیا جائے اور ان کی آبیاری کرکے ثمر آور بنایا جاسکے، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو(فاطر24)۔

ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو !صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو، پس بعض لوگوں کو تو اللہ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی، پس تم خود زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا(النحل36) ۔ سابق میں مبعوث کئے جانے والے نبیوں نے اپنی قوم اور اپنے علاقہ کی تاریکیوں کو دور کیا اور انسانیت کو نورِ ہدایت سے سرفراز کیا ، گمراہوں اور بھٹکے ہوئوں کو سیدھی راہ دکھائی اور ان کی رہنمائی اپنی زندگی میں کرتے رہے ۔اخیر میں جب اسلام کا سورج طلوع ہو اتو اس نے ساری دنیا کو منور کردیااور سارے راستے جگمگا اٹھے۔بلا شبہ دین محمدیؐ اور اس کی کتاب سب سے طاقتور ثابت ہوئی ۔اس کی باتیں نہایت محکم ہیں، اس نے سابقہ سارے پیغامات کو اپنے اندر سمولیا اور بکھری قوموں کو ایک لڑی میں پرو دیا ۔

(مکمل مضمون روشنی25نومبر کے شمارے میں ملاحظہ کریں)

شیئر: