Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

واپسی کا سفر

اگر پیپلز پارٹی انتخابات سے قبل اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہو گئی تو ناراض اراکین کی واپسی نا ممکن نہیں

 

محمد مبشر انوار

موسمی تغیرات ،حصول رزق اور بقائے زندگی مخصوص پرندوں کیلئے ہجرت کو لازم کر دیتی ہے تا کہ زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں۔پاکستانی سیاست کے افق پر یہ مثال صد فیصد صادق آتی ہے کہ سیاست دان فقط سیاست میں زندہ رہنے کی خاطر ایک سے دوسری سیاسی جماعتوں میں ہجرت کرتے رہتے ہیں تا کہ ہر صورت موجودہ یا متوقع اقتدار کا حصہ بن سکیں۔بد قسمتی سے پاکستان جیسے ملک میں ابھی تک نظریاتی سیاست کو فروع نہیں مل سکا اور نہ ہی موقع پرست، ابن الوقت قسم کے سیاست دان ایسی سیاست کو پروان چڑھنے دیں رہے ہیں کہ ان کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد مسمار ہونے کا خدشہ ہے،اقتدار کے دسترخوان سے جو بوٹی انہیں میسر ہے،وہ اس سے بھی محروم ہو جائیں گے جو کسی صورت بھی گوارا نہیں۔ آج مجھے یہ کہنے میں بھی باک نہیں کہ جس نظریاتی سیاست کی بنیاد بابائے قوم نے رکھی اور جس کو کسی حد تک قائد عوام نے پروان چڑھانے کی کوشش کی، آج پاکستانی سیاست میں وہ دونوں جنس نایاب ہیں۔ بابائے قوم نے تو آقائے نامدار محمد مصطفی ہی کے نظریات کو آگے بڑھاتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کو الگ وطن لے کر دیا جس کی عدم پیروی میں یہ قوم آج اس حد تک ٹکڑوں میں بٹی ہے کہ ہر فرقہ دوسرے کو کافر سے کم نہیں گردانتا۔اللہ رب العزت کے فرمان کے مطابق ہر مسجد کے منبر سے یہ آواز ضرور گونجتی ہے کہ ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھا مے رکھو اور آپس میں تفرقے میں نہ پڑو‘‘ مگر یہ آواز صرف اور صرف منبر پر ہی گونجتی ہے اور دوسرے لمحے صرف اپنے فرقے کو ہی مسلم گردان کر ایک ہونے کی تلقین کی جاتی ہے۔

مفاد پرستوں،موقع پرستوں اور ابن الوقتوں کو صرف ایک الگ ملک چاہئے تھا جس میں وہ اپنی اجارہ داری ،اپنا اقتدار قائم رکھ سکیں اور جو قائد اعظم ہی انہیں دلوا سکتے تھے۔ دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست تھی، جسے حقیقی معنوں میں (وقت کی مناسبت سے)نظریات کی سیاست کہا جا سکتا تھا مگر افسوس اس قوم اورموسمی پرندوں پر جس نے سیاست اور شخصیت پرستی میں فرق ملحوظ نہ رکھا،ایک نظرئیے،سوچ کو ایک شخص کے ساتھ منسوب کرکے اسے بھٹو ازم کا نام دے کر قوم کو بھٹو اور انٹی بھٹو میں تقسیم کر دیا۔

بات یہیں تک رہتی تو بھی کوئی مضائقہ نہ تھا اور ملک نظریاتی سیاست کا راستہ اپنا ہی لیتا، بتدریج دونوں نظریات میں کوئی ایک باقی رہ جاتا،اپنی اہمیت منوا لیتااور مسائل حل ہونا شروع ہو جاتے، ملک و قوم کی تقدیر بننا شروع ہو جاتی مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم بحیثیت قوم ثمرات کی اس شاہراہ سے کوسوں دور ہیں جس پر چل کر ملک وقوم ترقی کرتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی سیاست پر نظر رکھنے والے اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو جب 1986میں وطن واپس آئی تھیں تو انہیں کن مسائل کا سامنا تھا، عالمی سطح پر کمیونزم ہچکیاں لے رہا تھااوراس کے ساتھ ساتھ ’’اسلامی سوشلزم‘‘ بھی 1985کے آخر میں واشنگٹن ملاقات کے دوران کہیں دفن ہو گیا تھا۔ محترمہ کی واپسی سے پہلے واشنگٹن میں دی گئی یقین دہانیاں اور بعد میں نیشنلائزیشن کے برعکس پالیسی سازی اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی روس کے حصے بخرے ہوتے ہی کہیں کھو چکی تھی، سیاست کا مدارالمہام فقط اقتدار کا حصول تھا، نظریات کا سیاست میں دور دور تک کوئی واسطہ نہ رہا تھا ماسوائے ایک دوسرے کی غلطیوں پر ٹانگ کھینچنے یا شب کی تاریکیوں میں ’’طاقت کے منبع‘‘ سے خفیہ ملاقاتیں کرکے دوسرے فریق کو اقتدار سے الگ کروانا ہی سیاست رہ گئی تھی۔میثاق جمہوریت نے دو مخالف جماعتوں کے درمیان ،شخصیت پرستی کی بنیاد پر قائم،وہ باریک لائن بھی ختم کر دی اور آج دونوں جماعتیں ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آتی ہیںجو ایک دوسرے کی کرپشن پر ’’پارلیامنٹ‘‘ کے اندر اور باہر ایک دوسرے کو سہارا دیتی نظر آتی ہیں اور جہاں اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی نظر آتی ہے ماسوائے دھمکیوں اور بلیک میلنگ کے انداز میں فائلوں کی موجودگی کے اظہار ،عملاً کوئی بھی کارروائی ہوتی نظر نہیں آتی۔

اس پس منظر میں پیپلز پارٹی کے نئے کنٹرولڈ چیئر مین بلاول بھٹو زرداری انگڑائیاں لیتے نظر آرہے ہیں اور وقتاً فوقتاً قومی ،ریجنل اور عالمی سیاست میں اپنے نانا و والدہ کا انداز اپناتے ہوئے زبردست بیانات داغ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر پورے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بنانے کے عملی اقدامات کر رہے ہیں، ان اقدامات کے نتائج کیا نکلیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر فی الوقت اقدامات سے ان کی ترجیحات کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ حیرت مگر یہ ہے کہ جو اقدامات5 سال قبل ہونے چاہئیں تھے ،وہ آج کیوں ہو رہے ہیں اور ان کااثر ،نتیجہ کیا واقعی حسب منشا نکل سکتا ہے کہ آج پلوں کے نیچے سے بے شمار پانی نکل چکا ہے۔ کیا آج قمرالزمان کائرہ کو پنچاب کا صدر نامزد کرنے سے پیپلز پارٹی کا احیا ممکن ہو سکے گا؟کیا پیپلز پارٹی 2018کے انتخابات میں غیر معمولی نتائج فراہم کر سکے گی؟پنجاب میں انتخابی حرکیات کاادراک رکھنے والے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پنجاب کے ہیوی ویٹس کا انتخابی میلان ہمیشہ جیتنے والی سیاسی جماعت کی طرف رہا ہے ماسوائے 1970کے انتخابات میں جب نو آموز پیپلز پارٹی نے تمام سیاسی پنڈتوں کے اندازے الٹ کر رکھ دئیے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کا امیدوار مخالفین کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا تھا۔1970کے انتخابات کے بعد اس ملک میں ہمیشہ بھٹو اور انٹی بھٹو انتخابی میلہ ہی سجا ہے،جس کا علم کبھی نواز شریف اٹھاتے رہے اور آج کل اس کے علمبردار عمران خان ہیں مگر اس دوران مسلم لیگ ن نے جو اہم دسترس انتخابات کے حوالے سے حاصل کر رکھی ہے ،کوئی دوسری پارٹی اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی۔ انہیں علم ہے کہ انتخابات کیسے جیتنے ہیں ،اداروں کو کیسے اپنی مٹھی میں رکھنا ہے، افراداور افسران کو کیسے استعمال کرنا ہے، اس کا انہیں وسیع تجربہ ہے وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ 2013کے انتخابات میں پی ٹی آئی اس خلاء سے فائدہ نہ اٹھا پاتی جو پیپلز پارٹی نے اس کے لئے پنجاب میں چھوڑا تھا، یہ کیسے انتخابات تھے کہ جس میں شامل ہر سیاسی جماعت نے دھاندلی کاشور بھی بلند کیا مگر ہر سیاسی جماعت اقتدار کا حصہ بھی بن گئی؟ پنجاب کے ہیوی ویٹس کی سیاست کا ادراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ ان کے لئے سیاست صرف ڈیرے داری،پولیس،تھانہ کچہری اور پٹواریوں کی حد تک محدود رہتی ہے تا کہ ان کا ٹور ٹپا برقرارر ہے ،رہی بات قانون سازی کی تو ماسوائے معدودے چند افراد کے باقیوں کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی اور یہ چند افراد بھی قانون سازی میں صرف اپنے ذاتی مفادات کے تابع ہی رہتے ہیں۔ایسی صورتحال میں قمر الزمان کائرہ اور ان کی نئی ٹیم پیپلز پارٹی کو پنجاب میں کیسے زندہ کر پائے گی،یہ ان کے ساتھ ساتھ دیگربہت سے لوگوں کے لئے بھی قابل دیدہو گا کہ ایک طرف تو ایسی چہ میگوئیاں بھی سننے کو مل رہی تھی کہ قمرالزمان کائرہ اور ان جیسے دیگر پارٹی کارکن بھی اگلے انتخابات سے قبل اڑانیں بھرنے کا سوچ رہے تھے ممکن ہے یہ اقدام ایسے کارکنان کو فی الوقت روکنے کا ایک طریقہ ہو لیکن سوال پھر یہی ہے کہ کیا موجودہ حالات میں ،جب پارٹی عملاً دو حصوں میں تقسیم نظر آ رہی ہے کہ سندھی کارکنان موجودہ صورتحال کو جوں کا توں رکھنے میں خوش ہیں جبکہ پنجاب میں کارکنان یا تو حقیقی اپوزیشن کرنا چاہتے ہیں یا پھر کوئی اور ٹھکانہ تلاش کریں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال پی ٹی آئی کی بھی نظرآرہی ہے جو پیپلز پارٹی کے ناراض کارکنان کو اپنی جماعت کا حصہ بنانے کے باوجود جیتنے میں ناکام رہی ہے،کیا اگلے انتخابات میں ایسے کارکنان کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہے گی؟سچ یہی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی،بالخصوص پنجاب، اگلے انتخابات سے قبل اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہو گئی تو ناراض اراکین کی واپسی نا ممکن نہیں۔

شیئر: