Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اختیار کا کوئی گھر نہیں ہوتا

 
پاکستان میں اوپر سے نیچے تک فیصلہ سازی کا اصل اختیار کس کس کے پاس ہے، خود صوبائی حکومتیں کتنی با اختیار ہیں ؟ کیا کسی کو پوری پنجاب کابینہ زبانی یاد ہے
 
وسعت اللہ خان
 
پچھلے59 برس میں پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہوتا آیا ہے اُس کے کئی اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ یہی گتھی نہیں سلجھتی کہ اوپر سے نیچے تک فیصلہ سازی کا اصل اختیار کس کس کے پاس ہے۔
11اگست1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے جو تاریخی تقریر کی ممتاز صحافتی مورخ ضمیر نیازی کے بقول یہ تقریر اخبارات کو ریلیز کرنے سے پہلے ایک سیکشن افسر نے سنسر کرنے کی کوشش کی لیکن روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین اڑ گئے کہ اگر انہیں اصل مسودہ شائع نہ کرنے دیا گیا تو وہ یہ معاملہ براہ راست گورنر جنرل کے علم میں لائیں گے چنانچہ جناح صاحب سے بھی زیادہ محب ِ وطن سرکاری بابووں کو بادل نخواستہ یہ تقریر بغیر سنسر جاری کرنا پڑ گئی۔
مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت کو مغربی پاکستان کی عددی کمتری کے مساوی کرنے کےلئے ون یونٹ کے ترازو کی ایجاد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مبینہ طور پر وزیرِ دفاع جنرل ایوب خان اور سیکریٹری داخلہ اسکندر مرزا کا برین چائلڈ تھا جسے سویلین حکومت کے ٹروجن ہارس میں چھپا کر پیش کیا گیا اور تمام وفاقی یونٹوں سے کہا گیا کہ یہ گولی بغیر منہ بگاڑے نگل لیں۔
ایوب خان نے برسرِ اقتدار آتے ہی اوریجنل ”انقلابی ٹیم ” کو مرحلہ وار چلتا کردیا اور پھر کاروبارِ حکومت از قسمِ شعیب احمد ، الطاف گوہر اور ذوالفقار علی بھٹو کی معاون ہدایت کاری سے چلایا جاتا رہا۔اسی طرح یحییٰ دور کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ فیصلے جنرل ایم ایم پیرزادہ ، میجر جنرل غلام عمر وغیرہ کرتے تھے اور بھونپو یحییٰ خان کا استعمال ہوتا تھا۔ 
حال ہی میں ڈاکٹر مبشر حسن کا ایک انٹرویو دیکھنے کو ملا۔فرمایا کہ میں نے بھٹو صاحب سے پوچھا کہ جب آپ سوشلسٹ منشور پر برسرِ اقتدار آئے ہیں تو اسے عملی جامہ پہنانے اور عوام کی طاقت پر بھروسہ کرنے کے بجائے نوکر شاہی اور غیر عوامی قوتوں کو کیوں قریب کررہے ہیں۔اس کا نقصان صرف آپ کو نہیں ملک کو بھی اٹھانا پڑے گا۔بھٹو صاحب نے کہا کہ میں نے جتنا کر دیا اُس سے زیادہ میرے بس میں نہیں۔وزیرِ اعظم ہاوس کے تمام فون بھی ٹیپ ہوتے ہیں اور میں کچھ نہیں کرسکتا۔یہ اس شخص کے الفاظ ہیں جسے تاریخ میں سب سے طاقتور پاکستانی وزیرِ اعظم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ضیاءالحق کی طوالتِ اقتدار میں جہاں موافق داخلی و خارجی حالات اور خوش قسمتی کو دخل ہے وہیں ان کی اس حکمتِ عملی کا بھی خاصا کردار رہا کہ جیسے ہی انہیں محسوس ہوتا کہ ان کے ہاتھ بندھ رہے ہیں وہ گھوڑوں میں ردو بدل کردیتے تاہم آخر میں وہ بھی نادیداوں کے گھیرے میں آ گئے اور شکار ہوگئے۔
بے نظیر بھٹو کے ہاتھ منتخب ہونے سے پہلے کیسے باندھے گئے اور اقتدار کن شرائط پر منتقل ہوا اور پھر کیسے کیسے اسپیڈ بریکرز بنائے گئے اور کن کن کو استعمال کیا گیا....یہ سب اصغر خان ، حمید گل اور اسد درانی سمیت متعدد شخصیات کی زبانی ہزار بار شائع اور نشر ہوچکا ہے۔
پرویز مشرف نے بھی اپنے اقتدار کی طوالت کےلئے ضیا الحق کی طرح متعدد بار اپنے ساتھی اور سویلین گھوڑے بدلے لیکن اقتدار
 میں رہنے کی بہرحال ایک حد ہوتی ہے اور جن پر تکیہ ہو وہی پتے بور بھی ہوجاتے ہیں۔
آصف زرداری نے اگرچہ اپنے5 صدارتی برس بخیر و خوبی گزار لئے لیکن یہ تب ہی ممکن ہوسکا جب انہوں نے اس مقولے پر پورا عمل کیا کہ” جو خدا کا ہے خدا کو دو اور جو حکمراں کا ہے وہ حکمراں کو دو“۔اور پھر اس پالیسی کو وسیع تر مفاہمت کی پیکنگ میں ہر ایک کو اس کا حصہ اور اختیار ایمانداری سے پہنچانے کے سبب ” نہ چھیڑو نہ چھیڑنے دو ” کی بنیاد پر خیریت سے نکل آئے۔
نواز شریف تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم ہیںلیکن3 میں سے دو بار بھاری اکثریت سے منتخب ہونے کے باوجود انہیں صرف اتنی ہی باتوں کا علم ہے جتنی ان کےلئے ضروری ہیں،اور اتنے ہی فیصلوں کا اختیار ہے جتنے وزیرِ اعظم کہلوانے کےلئے ضروری ہیں۔ جیسے یہ بتانا مشکل ہے کہ اس ملک کا وزیرخارجہ کون ہے ؟ خود نواز شریف ، اسحاق ڈار ، شہباز شریف ، سرتاج عزیز یا طارق فاطمی ؟
وزیرِ داخلہ کون ہے ؟ چوہدری نثار علی خان یا آئی ایس پی آر ؟ فیصلے پارلیمنٹ کرتی ہے ؟ کابینہ ؟ کوئی کور کمیٹی یا کوئی غیر رسمی کچن کیبنٹ ؟ فیصلے کئے جاتے ہیں یا فیصلے اترتے ہیں ؟ اس وقت نواز شریف پورے وزیرِ اعظم ہیں یا ان کے عملی اختیارات ممنون حسین سے ذرا زیادہ ہیں ؟ کیا ملک کو واقعی وزیرِ دفاع کی ضرورت ہے یا اس کے بغیر بھی کام بخیرو خوبی نکل سکتا ہے ؟ 
خود صوبائی حکومتیں کتنی با اختیار ہیں ؟ کیا کسی کو پوری پنجاب کابینہ زبانی یاد ہے ؟ چلئے آدھی یاد ہے ؟ کیا آپ شہباز اور حمزہ شہباز کے علاوہ کسی تیسرے با اختیار کا نام فوراً بتا سکتے ہیں ؟ 
سندھ کے وزیرِ اعلیٰ کون ہیں ؟ آپ جھٹ کہیں گے مراد علی شاہ ؟ واقعی ؟ پھر سوچ لیجئے،اور کسی سرکاری حکم نامے پر محض دستخطوں کی بنیاد پر فوری رائے قائم کرنے سے پرہیز کیجئے۔
بلوچستان کا وزیرِ اعلیٰ کون ہے ؟ ظاہر ہے ثنا اللہ زہری،مگر اختیار کس کے پاس ہے ؟ ام....وہ....اونہہ....دراصل ....یہی جواب دیں گے نا آپ ؟ 
اور خیبر پختونخوامیں کہنے کو تحریکِ انصاف کی اکثریتی حکومت ہے جس کا ایک عدد وزیرِ اعلیٰ بھی ہے جسے ایک عدد صوبائی اسمبلی نے منتخب کیا ہے،مگر اختیار کہاں ہے اور کون استعمال کررہا ہے ؟ کیا بنی گالہ پشاور میں ہے یا پشاور بنی گالہ میں ؟ 
زلف اس کی ہے جو اسے چھو لے
بات اس کی ہے جو بنا لے جائے
******

شیئر: