Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قرآن کریم،اختلاف اور تضاد سے پاک

اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں ایسی غیبی حقیقتیں بیان کردیں جن کا علم نہ تو پیغمبر اسلام کو تھا اورنہ ان کے صحابہ کو

 

ڈاکٹر محمدلئیق اللہ خان

جدید علمی ترقی نے پوری دنیا پر یہ بات ثابت کردی ہے کہ تورات اور انجیل میں مذکور مضامین اور جدید علوم کے انکشافات کے درمیان تضاد اور اختلاف پایا جاتاہے جبکہ مشرق و مغرب کے سائنسداں قرآنی معلومات اور سائنسی حقائق کے درمیان تضاد یا اختلاف ثابت کرنے سے قاصر رہے۔اس تناظر میں قدیم مذاہب کے پیروکار قرآن کریم کے سائنسی اعجاز کے موضوع سے عداوت برتنے لگے۔

انہوں نے قرآن کریم میں جدید علوم کی روشنی چھپانے اور اپنی کتابوں میں موجود سائنسی غلطیوں اور خامیوں سے اہل علم و فکر کی نظریں ہٹانے کیلئے باقاعدہ مہم چلا رکھی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ قرآن پاک مقدس کتاب ہے۔ انسانی علوم جو اکثر و بیشتر غلطیوں کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں ، کبھی بھی قرآن پاک پر ٹھوس بنیادوں کے تحت رائے زنی کی جسارت نہیں کرسکے اور نہ کرسکتے ہیں۔یہ تسلیم ہے کہ قرآن پاک سائنسی علوم کی کتاب نہیں ،اس میں سائنسی حقائق ، سائنسی کتابوں کی طرح جزئیات و تفصیلات کی طرح بحیثیت سائنسی حقائق مذکورنہیں۔ قرآن میں سائنسی حقائق کی تعلیم بھی سائنس کی کتابوں کی طرح نہیں دی گئی تاہم قرآن پاک میں علمی حقائق، سائنسی کتابوں کے برخلاف زیادہ بہتر اوراہم شکل میں بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن پاک میں علمی حقائق ، نورانی اشاروں کی شکل میں دیئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ، کائنات میں خدائی قوانین پر دلالت کرنیوالے علمی حقائق کا ذکر نورانی شکل میں کیا کرتا ہے۔

علمی حقائق ،قرآنی آیات میں تفکر و تدبرکرنے پر ملتے ہیں۔ قرآن پاک بندوں کو کائنات میں تفکر و تدبر پر آمادہ کرتا رہتا ہے۔ قرآن نے تفکر و تدبر کے حوالے سے عقل کی جولانی کو مفلوج نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ عقل پر مختلف علوم سے استفادے کے حوالے سے کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔ اسلام کے سوا دنیا میں کوئی اور مذہب ایسا نہیں نظر آتا جو تفکر و تدبر کے سلسلے میں عقل کے حق کو بجا طور پر تسلیم کرتا ہو۔ یہاں یہ وضاحت بہتر معلوم ہوتی ہے کہ مادی علوم کو سچائیوں اور علمی حقائق تک رسائی میں کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مادی علوم کے ماہرین پہلے کوئی ایک علمی حقیقت فرض کرتے ہیں پھر اس کا تجربہ کرتے ہیں، کبھی کبھی فرض شدہ فارمولا ایسا ہوتا ہے کہ اس کا تجربہ انسانی دسترس سے باہر ہوتا ہے کیونکہ جس چیز کا تجربہ درکار ہوتا ہے وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہے۔ روح اس کی نمایاں ترین مثال ہے۔ روح کا تجربہ اس لئے محال ہے کیونکہ یہ ناقابل دید شے ہے، اس حوالے سے صرف علیم و خبیر ہستی کی اطلاع پر ہی انحصار کیا جاسکتاہے۔ دوسری جانب یہ بات بھی مد نظر رہے کہ تجربات بھی کبھی کامیاب ہوتے ہیں اور کبھی ناکام ہوجاتے ہیں۔کبھی کبھی مفروضے میں ترمیم کرلی جاتی ہے ، نئے جائزے اور تجربے کئے جاتے ہیں، جب تک کسی علمی مفروضے کے شواہد اور دلائل نہیں ملتے تب تک وہ مفروضہ نظریات تک ہی محدود رہتاہے۔

اگر ناقابل انکار دلائل سے کوئی نظریہ ثابت ہوجائے تو اسے علمی حقیقت کا نام دیاجاتا ہے پھر اس ثابت شدہ علمی حقیقت کا تقابل قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ میں مذکورمضامین سے کیا جاتاہے۔قرآنی علوم اور سنت مبارکہ کے علوم کو مادی علوم کے مسلمہ حقائق کے سامنے رکھا جاتا ہے ۔ قرآن وسنت کے علوم کو جانچنے کیلئے تجربات کی بھٹی سے نہیں گزاراجاتا، وجہ یہ ہے کہ قرآن کلام الٰہی ہے اور اس میں جو علمی حقائق آتے ہیں وہ بحث کا موضوع اور چوں چرا کا موضوع نہیں بنتے۔ قرآنی حقائق ، علیم و خبیر ہستی کی طرف سے ہوتے ہیں ان میں کسی طرح کی غلطی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔

اگر کوئی یہ دعویٰ کرنے لگے کہ تمام علمی معارف (ظنی ) ہوتے ہیں تو وہ غلط بیانی کا دعویدار کہلائے گا۔ وجہ یہ ہے کہ ہر حقیقی علم کا دارومدار مخصوص مسلمہ ضابطوں اور قاعدوں پر ہوتا ہے۔ کسی بھی علم کے ماہرین ان اصولوں اورضابطوں پر متفق ہوتے ہیں۔ اسی طرح علوم و فنون کے ماہرین کے یہاں بعض امور ظنی ہوتے ہیں ،یہ ان کے درمیان بحث و مباحثے کا موضوع بنتے ہیں۔ اگر مسلمہ حقائق نہ ہوتے تو تہذیبوں اور تمدنوں کا وجود نہ ہوتا۔ لہذا قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز کو یہ کہہ کر کہ یہ علم ظنی ہے ،لایعنی بنانے کا کوئی مطلب نہیں۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے حق سے عاری ہیں، قرآن و سنت تمام علوم کیلئے تجدد پذیر سائبان یا چھت کا درجہ رکھتے ہیں ۔ علوم کی ترقی کی جہت میں مادی علم جیسے ایک قدم آگے بڑھتا ہے ،ویسے ہی وہ قرآن و سنت کے سائبان یا چھت کے قریب ہوجاتا ہے اور اس طرح قرآن و سنت کے معجزات طبعی شکل میں اجاگر ہونے لگتے ہیں۔ اس منزل تک پہنچنے کیلئے کئی سیڑھیاں طے کرنی پڑتی ہیں۔

ایک مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ جدید علوم کے مضامین کو قرآن و سنت سے معلوم شدہ حقائق کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھا جائے۔ قرآن وسنت کے سائنسی اعجاز پر کام کرنیوالے یہی کام انجام دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے غلطیاں نہیں ہوسکتیں، ان سے غلطیاں سرزدہوسکتی ہیں تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں یہ کام کرنے سے صرف اس لئے روک دیا جائے کہ وہ جدید سائنسی حقائق اور قرآن پاک سے معلوم شدہ حقائق کا تقابلی مطالعہ کرکے قرآن و سنت کا سائنسی اعجاز ثابت کرنے کا مشن ترک کردیں کیونکہ اس مشن کی بدولت تلاش حق کی راہیں کھل رہی ہیں۔ اگر خدانخواستہ ان سے کوئی غلطی سرزد ہوبھی گئی تو ممکن ہے ان کے بعد آنیوالا اسکالر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے صحیح بات کی نشاندہی کرجائے اور ان کے یہاں جو غموض یا ابہام رہ گیا تھا اسے دور کرکے حق کی نشاندہی دقیق ترین انداز میں کردے۔ اگر اس قسم کی ٹھوس کوششیں نہ ہوئی ہوتیں تو اب تک سائنسی اعجاز کے سفر کا پہلا قدم بھی آگے نہ بڑھا ہوتا۔بلا قصد معمولی غلطیاں تو کسی بھی عمل کا اٹوٹ حصہ ہوتی ہیں۔

اگراس لغزش یا غلطی کے خوف سے قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز کے مشن کو ترک کردیا ہوتا تو کلام الٰہی کے اس بیان کی بابت اہل اسلام کچھ بھی نہ کرپاتے جس کا تذکرہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ فصلت کی آیت 53میں یہ کہہ کر کیاہے ہم انہیں عنقریب اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ واضح ہوجائیگا کہ قرآن برحق ہے۔ غلطی کی حوصلہ افزائی ہمارا منہاج نہیں ، جو لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوں وہ اپنی سوچ کی جہت درست کرلیں، ہمارا مقصد تو صرف یہ بتانا ہے کہ علمی تحقیق کے اس منہاج کی پابندی کی جانی ضروری ہے جو علمائے شریعت نے سائنسی اعجاز پر کام کرنیوالے علماء کے ساتھ مل کر طے کررکھا ہے۔ دونوں یہ بات طے کرچکے ہیں کہ قرآنی آیات یا احادیث مبارکہ کے مضامین کا مختلف علوم سے دریافت ہونیوالے حقائق سے تقابل کیا جائے۔ علمی اعجاز اور علمی تفسیر میں فرق کیا جائے کیونکہ ہر علمی تشریح یا ہر علمی نظریہ ، علمی حقیقت نہیں ہوتا۔اگر مجتہد غلطی کریگا تو اسے شرعی اصول کے مطابق اجتہاد کا اجر ضرور ملے گا جبکہ نادان غلطی کریگا تو اسے اللہ اور اس کے رسول پر افتراپردازی کی غلطی کے ارتکاب کی وجہ سے سزا ملے گی۔ اسلام جس طرح صراط مستقیم کیلئے دین ہدایت ہے ، اسی طرح علم و معرفت کا بھی دین ہے۔ اس کا بہترین ثبوت رسول اللہ کی وہ دعا ہے جس میں آپ نے قرآن پاک میں اضافے کی درخواست صرف ایک بار ہی کی تھی۔

آپ نے یہ درخواست علم میں اضافے کی دعا کرکے کی تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس کا تذکرہ سورہ طٰہ کی آیت 114میں یہ کہہ کر کیا ہے (اور محمد) کہہ دیجئے میرے پروردگار مجھے مزید علم عطا کر۔ قرآن کریم ، نہ تو کبھی محض فصاحت و بلاغت کی کتاب تھی اور نہ ہوسکتی ہے اور نہ کبھی صرف قوانین کی معجزاتی کتاب ہوسکتی ہے اور نہ کبھی صرف کتاب العقائد تک محدود ہوگی اورنہ یہ صرف اور صرف قصوں کا مجموعہ ہوگی۔ قرآن کریم میں یہ سب کچھ ہے اور ہر دور اور ہر جگہ کے لوگوں کیلئے اللہ کا لازوال معجزہ ہے۔اسے صاف الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہم قرآن پاک کو محض فصاحت و بلاغت کا معجزہ مانیں تو اس کا دائرہ مایہ ناز عرب ادیبوں، نثر نگاروں اور زبان دانوں تک محدود ہوکر رہ جائیگا ۔

(مکمل مضمون روشنی 25نومبر کے شمارے میں ملاحظہ کریں)

شیئر: