Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈاکوکی تحقیر، ڈیفالٹرکی توقیر

اگر آپ سرراہ لوٹنے والے کو اُچکا کہیں تو وہ برا مان کر پستول وغیرہ کا استعمال کر سکتا ہے- - - - - -

 

شہزاد اعظم

 

ہمارے بعض ہموطن پہلی دنیا یعنی ٹھنڈے موسم کے حامل خطوں کے لوگوں کے چال چلن کی نقالی کرنے والوں پر تنقید کرتے ہیں مگر ان ناقدین کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جو انگریزوں کے دور کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ ہم اکثر ا ن کے سامنے انگریز دور کی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہیں تو وہ ہمیں بری طرح شرمندہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ابھی گزشتہ دنوں ایسا ہی ہوا۔ ہم اپنے وطن میں انتہائی پسندیدہ اور قدیم دوست کے گھر میں موجود تھے۔ ہمارے اس دوست کا نام ویسے تو’’دریا‘‘ ہے مگر وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے محلے میں ’’چریا‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ہم ’’چریا‘‘ کے گھر بیٹھے چائے کی چُسکیاں لے رہے تھے ، اسی دوران کسی بات پر ہمارے منہ سے نکل گیا کہ لوگ نجانے کیوں انگریز اور انگریزی سے اس قدر مرعوب ہیں حالانکہ اُن میں کوئی سرخاب کا پرنہیں ہوتا، وہ بھی ہمارے جیسے ہی انسان ہیں۔ بس ہمارا یہ کہناتھا کہ ’’چریا‘‘توآگ بگولہ ہوگیا اور چیخنے کے انداز میں بولا کہ سرخاب کا پر نہ سہی مگر آپ ہی دیکھیں چٹی چمڑی جیسے ابھی ابھی دودھ میں نہا کر آئے ہوں، ایک ہمارے ہاں کی ہستیاں ہیں کہ آئے روز نئے نئے لوشن بدلتی ہیں پھر بھی جلد کی سیاہی ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ انگریز شخصیات کو دیکھیں، ہر کسی کے ہونٹ گلابی رنگ کے ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں سیاہی مائل عنابی ہونٹ ہوتے ہیں اور انہیں شاعر حضرات دروغ گوئی سے کام لے کر ’’گلاب کی پنکھڑی‘‘ کے مماثل قرار ددے ڈالتے ہیں یوں ہم جیسوں کے خون کا دباؤ خطرناک حد تک زیادہ ہوجاتا ہے ۔ اس سے بھی زیادہ غصہ اس وقت آتا ہے جب اس دروغ گو شاعر کی مخاطب ہستی اپنے آپ کو واقعی ملکۂ جمال سمجھنے لگتی ہے اور ہونٹوں پر سرخی لگا کر آئینے میں دیکھ کر مسکراتے ہوئے سوچتی ہے کہ اگر میرا شاعرشوہر پاگل ہے اور وہ سیاہی مائل ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی کی مانند قرار دے رہا ہے تو اس میں میرا کیا قصور۔ اسی طرح چٹی چمڑی والیوں کو کسی قسم کے بناؤ سنگھار کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔انہیں ذرا سا زکام بھی ہو جائے تو اُن کی خوبصورتی میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ ان کی ناک اس انداز میں لال ہوجاتی ہے جیسے کسی نے گلاب کی پنکھڑی مسل دی ہو۔ ماہرینِ ریختہ کا کہنا ہے کہ ’’تاب ناک‘‘ کا لفظ اسی دور کی ایجاد ہے جب ہندوستان میں اردو بولنے والوں پرانگریزمسلط تھا ۔کہتے ہیں کہ اُسی دور میںاردو کے ایک معروف شاعر کسی انگریز باس کی نگرانی میں سرکاری خدمات پر مامور تھے۔

اُس باس کو زکام ہوا، اس کی ستواں ناک سرخ ہو گئی ۔ شاعر موصوف جو پہلے ہی اپنی باس کے جمال سے مرعوب تھے ، اپنے دوست سے کہنے لگے کہ آج ہماری باس کی ناک اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ میںششدر رہ گیا۔ یقین جانئے مجھ میں اتنی ’’تاب‘‘ نہیں رہی تھی کہ میں ’’ ناک‘‘ کودوسری نظر بھی دیکھ سکتا۔ سنا ہے اس کے بعد سے شاعر سے اس کے دوست اشارتاً دریافت کیا کرتے تھے کہ اور سنائیے ، اُس ’’تاب ناک‘‘ کا کیا حال ہے ۔

کچھ عرصے کے بعد اس شاعر نے گوری باس سے شادی بھی فرما لی اور ساری زندگی خوش و خرم گزار دی۔دوسری جانب ہمارے ہاں اگر کسی ہستی کوزکام ہوجائے تو اس کی ناک سوج کر پکوڑا ہوجاتی ہے اور کوئی شاعر تو دور کی بات اس کا شوہر بھی اس کی جانب نظر نہیں اٹھاتا۔ وہ لاکھ میک اپ کرے مگر اس کے ’’ حُسن کی پسماندگی ‘‘میں کمی واقع نہیں ہو پاتی۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ انگلش ہستیوں نے ہمیں بہت کچھ سکھایا اورہم نے خود بھی ان سے بہت کچھ سیکھا۔ہم ان سے ماضی میں بھی مرعوب تھے اور آج بھی مرعوب ہیں ۔

ہمارے سامنے اگر کوئی انگریزی بولنا شروع کر دے تو ہم اپنے دل میں اس کی ’’علمیت‘‘ کی دھاک بٹھا لیتے ہیں۔ ‘‘ بہت سے ایسے الفاظ جو اردو میں بول کر آدمی شرمندہ و شرمسار ہو جاتا ہے ، وہی انگریزی میں بول دیئے جائیں تو لوگوں کے دل میں اس کی عزت و توقیرمیں اضافہ ہوجاتا ہے یا کم از کم اس کی تحقیر میں کمی واقع ہوجاتی ہے مثال کے طور پر اگر آپ سرراہ لوٹنے والے کو اُچکا یا راہزن کہیں تو وہ برا مان سکتا ہے اور غصے میں آکر پستول وغیرہ کا استعمال کر سکتا ہے کہ مجھے اُچکا کیوں کہا تاہم آپ اسے انگریزی میں ’’رابر‘‘ یا ’’اسنیچر‘‘ کہیں تو وہ اس کے لبوں پرفاخرانہ تبسم پھیل جائے گا اور وہ آپ کا مال لوٹ کر خاموشی سے اپنی راہ لے لے گا۔

’’چریا‘‘نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں غریبوں کا خون چوسنے والے کسی کھاتے پیتے شخص کو کو ڈاکو کہہ دیں تو وہ آپ کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دے گا۔ یہی نہیں بلکہ وہ آپ کے خلاف کروڑوں اور اربوں کے ہرجانے کا دعویٰ بھی دائر کر دے گا اور کہے گا کہ ڈاکو کہنے سے میری ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ اس کی بجائے اگر آپ اُسے ’’ڈی فالٹر‘‘کہہ دیں تو وہ چنداں بُرا نہیں منائے گا ۔ ہم نے کہا کہ آخر ڈاکو اور ڈیفالٹر میں ایسا کیا فرق ہے؟ ’’چریا‘‘نے کہا کہ ویسے تودونوں ہی لٹیرے ہوتے ہیں مگر ان میں ’’مال، حال، چال، آل‘‘ وغیرہ کا فرق ہوتا ہے ۔ڈاکو وہ ہے جو کسی علانیہ محنت ، مشقت کے بغیر چند ہزار روپے کی لوٹ مار کرتا ہے۔ اگر یہ پکڑا جائے تو اس کی پکڑ کو ’’رنگے ہاتھوں گرفتار ہونا‘‘ کہا جاتا ہے اور پھر اس کے منہ پر تھیلا یا لفافہ چڑھا کر اسے میڈیا کے سامنے پیش کردیاجاتاہے۔

اسے چند ہزار کی لوٹ مار کے بدلے کئی برس کی سزائے قید دے دی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف ڈیفالٹر وہ ہے جو علانیہ طور پر محنت کرتا ہے، کوئی فیکٹری یا کارخانہ وغیرہ قائم کرتا ہے، یہ بھی سرکاری راہ سے چند کروڑ سے لے کر چند ا رب روپے کی رقم لوٹتا ہے۔ اسے قرضہ کہا جاتا ہے اور کچھ عرصے کے بعد جب اسے قرضے کی واپسی کے لئے کہاجاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرا کاروبار ٹھپ ہوگیا، میں لُٹ گیا، مارا گیا،میں دیوالیہ ہوگیا ’’مینوں معاف کر دیو‘‘، یہ سن کر حکومت کو رحم آجاتا ہے اور وہ اس کو اربوں روپے کا قرضہ معاف کر دیتی ہے۔ اس ڈیفالٹر کو ’’لفافہ پوش‘‘حالت میں میڈیا پرپیش نہیں کیاجاتا بلکہ ان کی تصویر شائع کی جاتی ہے یا پھر ان کا انٹرویو نشر کیاجاتا ہے جس میں انہیں معصوم و مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

’’چریا‘‘ نے کہا کہ کیسی عجیب بات ہے ہمارا معاشرہ ڈاکوکی تحقیر کرتاہے اور ڈیفالٹرکی توقیرکرتا ہے حالانکہ ڈیفالٹر بھی ایک طرح کا ڈاکو ہی ہے، اسے بھی نشان عبرت بنانا ضروری ہے ۔

شیئر: