Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں جراتمند صحافت کا آغاز

 
پاکستانی میڈیا نے بازی جیت لی، ڈان کی خبر میں صداقت ہے، انتقام اور تعصب نہیں تو اسے کسی بھی طاقت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیئے
 
کلدیپ نیر
 
روزنامہ ڈان برصغیر کا موقر اخبار ہے۔ اس کی بنیاد محمد علی جناح نے اپنے پاکستان کے مقصد کی تشہیر کیلئے دریا گنج، نئی دہلی میں ڈالی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ڈان کراچی سے شائع ہونے لگا۔ اس کے بعد یہ اخبار مسلسل وہیں سے نکلتا آیا ہے۔ حال ہی میں ڈان میں فوج اور شہری حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات پر ایک اسٹوری شائع ہوئی تھی۔ نواز شریف حکومت نے اخبار سے یہ جاننا چاہا کہ اس کا لکھنے والا کون تھا لیکن اس نے اس بارے میں کچھ بتانے سے انکار کردیا۔ پھر حکومت نے پریس کونسل آف پاکستان سے رجوع کیا اور اس نے بھی اخبار کے اپنے ذریعے کی پردہ داری کے حق کی حمایت کی۔
پاکستان میں اس پر ملک گیر بحث چھڑ گئی ہے کہ اس خبر کے ذریعے کا انکشاف کیا جائے یا نہیں۔ عوام کی اکثریت ڈان کی طرفدار ہے اور خبر کے ذریعے کو راز میں رکھنے کے حق کی حمایت کررہی ہے۔ حقیقی معنیٰ میں ملک پرحکومت سے ٹکرلینا اس اخبار کیلئے جرات مندانہ قدم ہے لیکن اس سے پاکستانی پریس کی گرفت اور شریف حکومت کی پالیسی کی کمزوری بھی ظاہر ہوتی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ معاملہ کیسے سلجھے گا لیکن سردست پاکستانی میڈیا نے بازی جیت لی ہے۔ ڈان کی مثال سے جو سبق ہندوستانی میڈیا کو لینا چاہیئے یہ ہے کہ حکومت خواہ کتنی ہی طاقتور ہو میڈیا جب تک حق پر قائم ہے ، اپنی آواز بلند کرسکتا ہے۔ اسے حکومت کے دباوکے آگے جھکنے کی ضرورت نہیں۔ اگر ڈان کی چھاپی ہوئی خبر میں صداقت ہے یا اس کے تبصرے میں انتقام اور تعصب نہیں تو اسے کسی بھی طاقت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیئے۔
چند سال پہلے پاکستانی میڈیا کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ اسی کی بازگشت ہے۔ زیادہ تر حکومت ِوقت کیلئے سازگار پالیسیا ںوضع کرتا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کی کارگل کی مہم کو ان کے آرمی اسٹاف کے سربراہ ہونے کی مدت میں بلاعذر تسلیم کرلیاگیا۔ ان صحافیوں کی مثالیں بھی تھیں جنہوں نے حکومت کی خراب شبیہ پیش کرنے والی خبریں شائع کرنے کی سزا دی گئی۔ بدقسمتی سے آج کا ہندوستانی میڈیا ڈان کی قائم کردہ مثال کے برابر نہیں آرہا۔ پٹھان کوٹ کے واقعہ کی کوریج کیلئے وزارت اطلاعات و نشریات کی طرف سے این ڈی ٹی وی پر ایک دن کی پابندی کا دفاع اس چینل نے تن تنہاءکیا۔ ایڈیٹرز گلڈ کی طرف سے صدائے احتجاج بلند ہونے تک دوسروں نے خود کو اس سے دور ہی رکھا۔ اس کے بعد اس چینل نے عدالت عظمیٰ میں مقدمہ بھی دائر کیا۔ اس دوران دیگر پارٹیوں کی طرف سے پڑنے والا دباو بھی بڑھتا گیا۔ این ڈی ٹی وی کے مالک پرینا رائے کو وزارت اطلاعات و نشریات کے سامنے پیش ہونے کیلئے کہا گیا جہاں چینل کو سمجھوتے کے فا رمولے کی پیشکش کی گئی لیکن پرینا رائے تعریف کے قابل ہیں کہ اپنے موقف سے نہیں ہٹے۔ وزیراطلاعات وینکیا نائیڈو نے یہ کہہ کر اپنا قد گھٹا لیا کہ این ڈی ٹی وی پر ایک دن کی پابندی ملک کے مفاد میں ہے۔ وہ کون ہوتے ہیں یہ فیصلہ کرنے والے کہ کون سی چیز ملک کے مفاد میں ہے اور انہیں اس کا اختیار دیا کس نے؟ آخر وزیر موصوف کو اپنی غلطی کا احساس ہوااور انہو ںنے بات کو طول نہیں دیا۔
واقعہ یہ ہے کہ میڈیا کا منظر نامہ تبدیل ہوگیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ٹائمز آف انڈیا کے سابق مدیر شیام لال جین نے بتایا تھا کہ اس کے مالک شانتی پرشاد جین ان سے بالواسطہ بھی یہ نہیں کہتے تھے کہ اخبار کو کیا چھپنا چاہیئے اور کیا نہیں۔ میں شانتی پرساد جین کو جانتا تھا اور وہ واقعی جیسا کہ گاندھی نے کسی اخبار کے مالک کے کردار کی وضاحت کی تھی، اس کے قائل تھے کہ مالک محض ایک ٹرسٹی ہوتا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مالک رام پرساو¿ گوئنکا کا کردار بھی اتنا ہی قابل ستائش تھا۔ میں اس وقت اسی اخبار سے وابستہ تھا جب اندرا گاندھی حکومت کی طرف سے اشتہارات پر پابندی کیوجہ سے مالی بحران کا سامنا کرنے کے باوجود اخبار اپنے موقف پر قائم رہا۔ گوئنکا نے اپنے ایڈیٹروں کو پوری آزادی دے رکھی تھی جس کا استعمال انہوں نے اپنے حکومت مخالف خیالات کے اظہار کیلئے کھل کر کیا۔ ایمرجنسی کے دنوں میں حکومت کا عتاب انڈین ایکسپریس پر ٹوٹا لیکن پھر بھی اس نے تن تنہاءحکومت کیخلاف اپنی لڑائی جاری رکھی۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جب اس اخبار نے سنسر شپ کی پروا نہیں کی۔
آج کا ہندوستانی میڈیا بڑی حد تک نظام مخالف (اینٹی اسٹیبلشمنٹ) نہیں لگتا۔ صحافی حضرات خود اسی سمت میں جانا چاہتے ہیں جدھر کی ہوا چل رہی ہو۔ ماضی کے برخلاف ان میں سے اکثر کی دیانتداری پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔ میڈیا کے رجحان میں اس تبدیل کے کئی اسباب گنائے جاسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ میڈیا گھرانوں کے مالکان اخبارات یا نیوز چینلز کو تجارتی سرگرمی سمجھنے لگے ہیں۔ ان کا مقصد منافع ہے نہ کہ اصول۔ اس سے مٹھی بھر ایماندار صحافیوں کیلئے اپنے پیشہ وارنہ فرائض کی آزادانہ انجام دہی کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔
تاہم بنگلہ دیش کی آج بھی ایک ا ستثنائی مثال ہے۔ 2معروف ترین اخبار انگریزی کا اسٹار اور بنگلہ کا پروتھم الو، کی جرات کو تسلیم کرنا ہوگا جو آمریت پسند اور تنقید بیزار وزیراعظم شیخ حسینہ کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی نے اختلاف کی آواز پر پہرہ بٹھا دیا ہے اور اپنے باپ کے تمام اصولوں کی نفی کردی ہے۔ ڈان کی مثال سے بنگلہ دیش اور برصغیر کے میڈیا کا حوصلہ بڑھنا چاہیئے۔ کسی جمہوری نظام میں پریس کی آزادی پامال کی جاسکتی ہے نہ ہی کسی حالت میں اس سے سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے۔ جو حکمراں عوام کی آزادی پر قدغن لگاتے ہیں عوام خود ان سے انتقام لیتے ہیں۔
اندرا گاندھی جن کی ولادت کی صدی تقریب منائی جارہی ہے، ان کی ایک مثال ہے۔ 1977 ءمیں ان کے کانگریس اقتدار کا صفایا ہوگیا تھا۔ یہاں تک کہ جب ایمرجنسی میں نرمی آئی تو انتخاب میں خود ان کی نشست بھی ہاتھ سے نکل گئی۔ کسی جمہوری نظام میں اقتدار عوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور عوام نے بار ہا ثابت کیا ہے کہ سیاسی حکمرانوں کا فیصلہ کرنے والے آقا وہی ہیں۔ 
حکومت کی مرضی سے سرتابی کرکے ڈان نے پاکستانی عوام کو یاد دلایا ہے کہ وہ حکمرانوں کے مقابلے پر آکر حقیقی معنوں میں جمہوریت بحال کرسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا اقتدار سے ذاتی مفاد وابستہ ہوتا ہے جبکہ عوام کا مفاد بہتری اور ترقی سے اور عوام کے مفاد کو بالادستی حاصل ہونی چاہیئے۔
******

شیئر: