Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صبح کا بھولا

 
 تاریخ نئی کروٹ لے رہی ہے، اسکے سر پر گوادر کا تاج جگمگا رہا ہے، یہ احساس ماسکو میں بیٹھے دور اندیشوں کو ہوچکا ، ماضی میں پاکستان اور روس کی مشترکہ فوجی مشقیں ہوئیں
 
جاوید اقبال
 
نکولائی کپائف کی شخصیت ان سب سے الگ تھی۔ ہونٹوں پر سائبان کی طرح تنی بے لگام مونچھیں، سرخ و سفید بھرا بھرا چہرہ جس کی وہ بڑی باقاعدگی سے شیو کرتا تھا۔ آزاد منش طبیعت ، ماسکو سے تھا اور ہر وقت لیونڈ برزنیف او رآندرے گرومیکو کی تعریف میں رطب اللسان رہتا۔ وسطی افریقی جنگل میں کھڑے تعلیمی ادارے میں تدریس کےلئے تقریباً 3 درجن ممالک سے اساتذہ آئے تھے اور جب آخری ہفتہ کی شام ڈنمارک کے مونز لارسن کے گھر ان کا اکٹھ ہوتا تو کرہ¿ ارض پر ہر صدی میں وقوع پذیر ہونے والے تقریباً ہر حادثے کے اسباب و نتائج کی چیر پھاڑ ہوتی۔ اسی دوران نکولائی کپائف کسی بلی کی طرح ساکت قدم رکھتا کمرے میں داخل ہوتا اور کسی کونے میں خالی کرسی کی طرف بڑھ جاتا۔ بحث جاری رہتی، کیا کیا موضوع نہ ہوتے۔ تخلیقِ کائنات ، تاریخِ مذاہب، ابن آدم کا ابن آدم پر ظلم، ڈارون کا بوزنہ پن، سیاست، اگر یوں ہوتا تو کیا ہوتا؟ مفروضے، پھر مفروضے اور پھر مفروضوں کی تحلیل اور پھر جب بات ویت نام پر آتی تو امریکی اور مغربی یورپی اساتذہ خاموشی کو ہی ا پنی عزت کا رکھوالا سمجھتے۔ سائیگاون کو ہوچی منہ سٹی ہوئے ابھی 3 برس ہوئے تھے اور ہند چینی کے جنگلوں میں ابھی تک امریکیوں کے ہاتھوں مارے گئے ویت کانگ گوریلاجنگجووں کے خون کی اداس باس گردش میں تھی، تب کونے میں خاموش بیٹھا نکولائی کپائف اچانک جاگتا اور اس کی بھاری آواز کمرے میں گونجتی ، جنٹلمین! میری پیشگوئی یاد رکھیں۔ وہ دن دور نہیں جب واشنگٹن ، نیویارک اور لندن میں حکومتی عمارتوں پر درانتی اور ہتھوڑے کے نشان والے پرچم لہرا رہے ہوں گے۔ سفید فام اساتذہ احتجاج میں پھٹ پڑتے لیکن کپائف کی آواز سب پر بھاری پڑتی۔ عموماً صلح جو، خاموش طبع روسی جب سوویت اتحاد کی بات کرتا تو اس کا چہرہ جوش سے سرخ ہوجاتا۔ ویت نام سے امریکہ کی پسپائی نے اس کی گفتگو کو انداز تفاخر دےدیا تھا۔ اپنے رہنماوں سے انتہائی حد تک محبت کرنے والا کپائف الگ عادات کا مالک تھا۔ ہر اتوار کی صبح گہرے رنگ کی ٹی شرٹ اور نیکر پہنے گھر سے نکلتا ، شانے پر ماہی گیری کی چھڑی ٹکی ہوتی، سر پر ہیٹ ہوتا اور ہاتھوں میں ایک تھیلا۔ کوئی ڈیڑھ میل دور بہتے ایک ننھے دریا کے کنارے پہنچتا ، تھیلے میں سے ایک ڈبہ نکال کر اس میں سے ایک کینچوا کنڈی پر چڑھاتا اور ڈوری گھما کر چارہ پانی میں پھینک کر چھڑی قریبی جھاڑی میں اڑستا۔ پھر پاس کے درخت سے ٹیک لگائے سگار سلگا کر کسی رسالے کے مطالعے میں لگ جاتا۔ وقت گزرتا، دوپہر ہوتی تو تھیلے میں سے ایک سربند ڈبہ نکال کر اسے کھولتا اور اندر سے گوشت نکال کر کھالیتا۔ مچھلی کا انتظار رہتا۔ مغرب سے ذرا پہلے پانی میں سے کُنڈی نکالتا، ڈوری لپیٹتا اور شانے پر چھڑی ٹِکا واپسی کا سفر اختیار کرتا۔ دن بھر کا انتظار بے سود رہتا۔ مچھلی ہاتھ نہ آتی۔ یونہی اسکا چند ہفتے معمول رہا ،کسی مچھلی نے اس کے چارے کو قابل اعتنا نہ سمجھا تو ایک دن میں نے اسے خالی ہاتھ شام کو واپس آتے دیکھ کر سوال کردیا: کپائف! تم ہر اتوار کی صبح بڑے دھوم دھام سے تیار ہوتے ہو، رنگین لباس زیب تن کرتے ہو، پانی میں کنڈی ڈالے سارا دن انتظار میں گزارتے ہو، کوئی مچھلی آج تک ہاتھ نہیں لگی۔ تم نے ماہی گیری کا سامان خریدا، خصوصی لباس حاصل کیا۔ اخراجات اٹھے، کیا فائدہ؟ سب کچھ تو ضائع گیا۔ اس نے زور کا قہقہہ لگایا۔ مونچھوں کا سائبان لمحے بھر کو اوپر اٹھا اور پھر ہونٹوں پر اتر گیا۔ وہ بولا:میرے لئے اتوار کی صبح مخصوص لباس پہننا، ماہی گیری کا سامان لئے گھر سے نکلنا، کنڈی پانی میں ڈالنا اور درخت سے ٹیک لگائے مطالعے میں دن گزارنا ہی بہت کچھ ہے۔ میرا دن خوشگوار ہوجاتا ہے۔ رہی بات مچھلی کی تو وہ نہ بھی ملے تو کوئی حرج نہیں۔ پھر وہ اِدھر اُدھر دیکھ کر دھیمی آواز میں رازدارانہ انداز میں بولا:ویسے میں ایک راز کی بات کہوں ؟ اس دریا میں مچھلیاں ہیںہی نہیں۔
حکیم الامت کی دلکش نظم” ساقی نامہ “مستقبل کی صورتگری کا موثر نقشہ کھینچتی ہے:
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ سے چشمے ابلنے لگے
کاشغر سے گوادر تک کے 1750 میل ہر قدم پر گواہی دے رہے ہیں کہ ممولے اور شہباز میں کشمکش کا آغاز ہوچکا ہے جس میں گزشتہ کل کی ننھی جان فاتح بن کر آئندہ اقتصاد کی فضاوں پر راج کرےگی۔ اس وقت چین کی تیل کی درآمدات کا 80 فیصد آبنائے ملا کا سے ہوتا ہے جس میں کھڑی امریکی اور ہندوستانی بحریہ اس راہ کو چینی جہازوں کیلئے مشکل بنار ہی ہے۔ علاوہ ازیں چین کے مشرقی ساحلو ں سے خلیج عرب کے ساحلوں تک تقریباً 12 ہزار میل کی مسافت ہے ۔ گوادر کا استعمال اس فاصلے کو کاٹ کر صرف 3 ہزار میل تک کردے گا۔ گوادر کے مکمل طور پر برسرکار آنے کی صورت میں ایشیا اور افریقہ کی منڈیوں پر چینی برآمدات کی حکومت ہوگی جبکہ سابقہ نوآبادیوں کی د رآمدات میں یورپ کا حصہ صرف 13 فیصد رہ جائےگا۔ اپنی تیل کی درآمدات براستہ گوادر کرنے کی صورت میں چین کو سالانہ 20 ارب ڈالر کی بچت ہوگی جبکہ پاکستان کو راہداری کی مد میں 5 ارب ڈالر آئیں گے۔
آج جاپان، انڈونیشیا، ملائیشیا اور کوریا گوادر کی بندرگاہ میں سرمایہ کاری کیلئے بے تاب ہورہے ہیں جبکہ ایران، سعودی عرب او ر افغانستان بھی اس تجارت میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔ وسطی ایشیائی ریاستیں تاجکستان، ازبکستان، کرغیزستان اور ترکمانستان اس منصوبے میں شمولیت کیلئے حکومت پاکستان کو درخواستیں گزار چکے ہیں ۔ کیا منظر ہوگا جب گوادر سے روزانہ 60 لاکھ بیرل تیل چین کیلئے سفر کرے گا اورہر روز 80 ہزار باربردار ٹرک اس بندرگاہ سے چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی طرف اور ان سے گوادر کی طرف چلیں گے۔
تاریخ نئی کروٹ لے رہی ہے اور اسکے سر پر گوادر کا تاج جگمگا رہا ہے۔ یہ احساس ماسکو میں بیٹھے دور اندیشوں کو بھی ہوچکا ہے۔ ماضی¿ قریب میں پاکستان اور روس کی مشترکہ فوجی مشقیں انعقاد پذیر ہوئیں جن کے فوراً بعد پوٹین کی حکومت نے پاکستان سے درخواست کی کہ اسے بھی پاک چین اقتصادی راہداری میں شامل کرلیا جائے۔ گزارش کو قبولیت ملی اور روس نے اس عظیم منصوبے میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی پیشکش کردی۔ بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک بزورِ بازو رسائی حاصل کرنے کا ہدف لئے ماسکو دسمبر 1979 ءمیں کابل پر حملہ آور ہوا۔ 80 ارب ڈالر، 300 ہیلی کاپٹر، ایک سو جنگی جہاز اور ایک سو ٹینک جفاکش افغانیوں کے ہاتھوں پگھلوانے کے بعد پسپا ہوا اور شکستہ ہوکر کریملن کے خجالت کدے میں جاچھپا۔ آج پھر آیا ہے۔ ملتجی! شانے پر ماہی گیری کی چھڑی ٹکائے آنکھوں میں درخواست و آرزو کے سائے بسائے گوادر کے ساحل پر کھڑا اجازت کا طلبگار ہے۔ آگے بڑھو نکولائی کپائف! صبح کے بھولے! آگے بڑھو اور کنڈی ڈالو، تمہیں بہت مچھلی ملے گی۔
******

شیئر: