Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تعدد ازواج ، حکمت پر مبنی

 
بعض قوموں میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا رواج مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، پہلی ہی کو حقیقی بیوی تسلیم کیاجاتاہے
 
مولانا جلال الدین عمری
 
اس وقت ہندوستانی بلکہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے عائلی قوانین یاپرسنل لا پرجو اعتراضات کیے جاتے ہیں، ان میں ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اسلام نے مرد کو4شادیوں کی اجازت دی ہے، یہ عورت پر سراسر ظلم ہے، اسے ختم ہونا چاہیے۔مسلمانوں اور انگریزوں کے دور حکومت میںمسلم پرسنل لا سے متعلق فیصلے اسلامی قوانین کے تحت کیے جاتے تھے۔ عدالتیں کبھی اس کیخلاف نہیں جاتی تھیں۔ اگر کوئی فیصلہ اس کے خلاف آتا توعدالتوں کو اس کی طرف متوجہ کیاجاتا۔ عدالتیں احکام شریعت کا احترام کرتیں لیکن اب جو نئی صورتحال پیدا ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ عدالتیں مسلم پرسنل لا کے خلاف فیصلے کررہی ہیں اور بار بار حکومت کو متوجہ کررہی ہیں کہ مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو ختم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ ان میں4 شادیوں کا مسئلہ بھی ہے۔ 
 
بعض اصحاب جو موجودہ فضا سے متاثر ہیں ،کہتے ہیں کہ4 شادیوں کا ثبوت قرآن میں نہیں بلکہ یہ بعد کے مولویوں اورمذہب کے ٹھیکیداروں کی ایجاد ہے۔ اسی طبقہ میں وہ لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ4  شادیوں کا ذکر قرآن میں موجود تو ہے لیکن یہ ایک خاص ماحول میں تھا، اب وہ حالات نہیں رہے اس لئے اس پر عمل نہیں ہوسکتا۔
 
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ دنیا کی دیگر قوموں کی طرح عرب میں بھی تعدد ازواج کا رواج تھا۔ ایک سے زیادہ شادیوں کو معیوب نہیں سمجھاجاتاتھا۔ جنگ احد میں 70 مسلمان شہید ہوگئے تو مدینہ کی چھوٹی سی آبادی کیلئے یہ ایک بڑا واقعہ تھا۔ میدان جنگ میں عورتیں،بچے اور بوڑھے شریک نہیں ہوتے۔ مرنے والے عموماًجوان ہی ہوتے ہیں۔ جنگ کے بعد جو عورتیں بیوہ اور جو بچے یتیم ہوگئے ان کا مسئلہ بڑا اہم تھا۔ اس پس منظر میں یہ آیت نازل ہوئی۔
 
قرآن مجید میں 4 شادیوں کا ذکر حسب ذیل آیت میں ہے
اگر تمہیں ڈر ہے کہ تم یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکوگے تو جودوسری عورتیں تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرلو،دودوتین تین اور چار چار تک لیکن اگر تم اس بات سے ڈرتے ہو کہ ان کے ساتھ انصاف نہ کروگے تو ایک ہی سے نکاح کرو…۔النساء3
 
صحیح روایات سے معلوم ہوتاہے کہ یتیم لڑکی قبول صورت نہ ہوتی لیکن دولت والی ہوتی تو اس کا سرپرست دولت کی وجہ سے اس سے نکاح کرلیتا اور ٹھیک سے مہر بھی ادا نہ کرتا۔آیت میں کہاگیاہے کہ یہ صحیح نہیںکہ لڑکی کے شکل و صورت کے لحاظ سے ناپسند ہونے کے باوجود محض دولت کی وجہ سے اس سے نکاح کرلیاجائے۔ اس صورت میں اس کے ساتھ انصاف نہ ہوسکے گا۔تمہیں نکاح کرنا ہے تو دوسری عورتیں جن سے تمہارا نکاح جائز ہے ان سے نکاح کرسکتے ہو۔
 
اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ بیان کیاگیاہے کہ اگر تمہیں اس بات کا اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکوگے تو اس کاحل یہ ہے کہ تم ان کی بیوہ مائوں سے جن سے نکاح جائز ہے نکاح کرلو۔ اس طرح ان بیوائوں کا مسئلہ بھی حل ہوگا اور وہ ازدواجی زندگی گزار سکیں گی اور یتیموں کو ماں کی شفقت حاصل ہوگی اور ان کی بہتر نگہداشت اور تربیت ہوسکے گی۔
 
اس میں شک نہیں کہ یہ آیت ایک خاص موقع پر نازل ہوئی تھی لیکن یہ بات بالکل غلط ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ایک وقت خاص میں مخصوص حالات کے پیش نظر دی گئی تھی۔ اب وہ حالات بدل گئے اس لئے یہ اجازت باقی نہیں رہی۔ آیت میں اس کا صراحتاًیا اشارتاًکوئی ذکر نہیں ، پھر یہ کہ پوری اسلامی تاریخ اس کی تردید کرتی ہے۔ رسول اللہ کے عہد مبارک میں اس پر عمل ہوا، صحابہ اور تابعین کے دور میں عمل ہوا، تبع تابعین کے دور میں عمل ہوا،ہر دورکے مسلمان اس پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں۔ کسی بھی دور میں اسے ایک وقتی تدبیر نہیں سمجھا گیا۔کسی ایسے شخص کا جس کی قرآن و حدیث پر نظر ہو، جس کا کوئی دینی اور علمی اعتبار ہو اور جسے علماء و فقہائے امت میں شمار کیاجاتاہو اس کے خلاف آواز نہ اٹھانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان سب کے نزدیک قرآن کی یہ آیت، وقتی ہدایت نہیں بلکہ اس میں دی گئی اجازت مستقل ہے۔
 
اس آیت میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فقہا ئے امت نے جو تفصیلات پیش کی ہیں ان میں سے بعض کا یہاں ذکر کیاجارہاہے۔
 قرآن نے ایک سے زیادہ شادی کی بعض شرائط کے ساتھ اجازت دی ہے۔ اس کاحکم دیاہے اور نہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
 اہل عرب جتنی بیویاں چاہے رکھتے تھے۔ اس آیت نے4 کی حد مقرر کردی۔ اس سے زیادہ بیویاں آدمی نہیں رکھ سکتا۔ رسول اللہ کے دور میں ایک صاحب اسلام لائے تو ان کی10 بیویاں تھیں۔آپ نے فرمایا :قرآن نے 4 کی اجازت دی ہے تم 4کو رکھو اور باقی کو چھوڑ دو۔ ایک صاحب اسلام لائے تو ان کی 5 بیویاں تھیں۔ آپ نے فرمایا: ان میں سے4 کو اپنی زوجیت میں رکھو اور ایک کو الگ کردو۔
قرآن نے بیویوں کے درمیان عدل کو لازم قرار دیاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نان و نفقہ، دیگر اخراجات اور شب با شی وغیرہ میں ان کے درمیان مساوات برتے گا۔اس میں کوتاہی یا غفلت کی اسے اجازت نہ ہوگی۔اس کی خلاف ورزی پر عورت چاہے تواسلامی عدالت یا دارالقضاء کی طرف رجوع کرسکتی ہے۔
آدمی کو جسمانی لحاظ سے اس پوزیشن میں ہونا چاہیے کہ وہ بیوی سے تعلق رکھ سکے اور تسکین پہنچا سکے۔ یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان سب کا یہ شرعی حق ہے۔ اگر آدمی اس موقف میں نہ ہوتو عورت اس سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے۔
مرد کے ذمہ بیوی کا نان و نفقہ ہے۔ اس میں کھانا کپڑا اور رہائش شامل ہے۔ اسلامی تعلیمات کاتقاضاہے کہ بیوی کی صحت کی نگہداشت ہو اور اس کے دوا اور علاج کا اہتمام کیاجائے۔عورت صاحب حیثیت خاندان سے تعلق رکھتی ہوتوفقہاء نے لکھا ہے کہ اس کیلئے ملازم کا انتظام بھی ہونا چاہیے۔
اگر ایک بیوی دوسری بیوی کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اس کیلئے الگ گھر فراہم کیاجائے۔
جس طرح تمام بیویوں کے حقوق یکساں ہیں اسی طرح ان کی اولادکے حقوق بھی برابر ہیں۔ حق سے مراد صرف ان کی معاشی ذمہ داری ہی نہیں ، ان کی تعلیم و تربیت بھی ہے۔اسلام چاہتاہے کہ انسان کی اولاد اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو اور آخرت میں سرخ رو اور
 کامیاب ہو۔
اس میں شک نہیں مرد کو4تک بیویاں رکھنے کی اجازت ہے لیکن ان پابندیوں کی وجہ سے آدمی کم ہی اس کی ہمت کرسکتاہے۔
 
بعض لوگوں نے 4شادیوں کے مسئلہ کو ایک سیاسی مسئلہ بنادیا ہے اور ملک میں اس کیخلاف فضا بنارہے ہیں۔ان کے نزدیک 4 شادیوں کی وجہ سے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ ایک وقت آئے گا جبکہ ان کی آبادی ہندؤںکی آبادی سے زیادہ ہوجائیگی،اس لئے وہ ہندوبھائیوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ زیادہ بچے پیداکریں۔وہ ایک سے زیادہ شادی کی مخالفت اس لئے نہیں کررہے کہ انہیں عورت سے ہمدردی ہے یا اسے وہ عورت پر ظلم سمجھ رہے ہیںبلکہ اس کی مخالفت اس لئے کررہے ہیں کہ اس سے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے حالاں کہ یہ خلافِ واقعہ بات ہے۔ اس پر ایک خاص پہلو سے غور کیا جاسکتاہے۔
 
(مکمل مضمون روشنی یکم دسمبر کے شمارے میں ملاحظہ کریں)
 

شیئر: