Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اقتدا ر اور اختیارات کی تقسیم،بڑا مسئلہ

 
پارلیمانی پارٹی چاہتی ہی نہیں کہ بلدیاتی عہدیداروں کو اختیارات دیکر چوپالیں اور ڈھیرے طاقت کا مرکز بن جائیں
 
ارشادمحمود
 
سپریم کورٹ آف پاکستان اب ملک میں مردم شماری کرانے پر کمر بستہ ہے۔ بیچاری حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے کیونکہ وہ یہ کام کرنے کی اہل نہیں۔ صوبے کہتے ہیں کہ مردم شماری فوج سے کرائی جائے باقی اداروں پرانہیں اعتماد نہیں۔سیاسی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ مردم شماری ہو کہ اس کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی اور وہ نئے بکھیڑوں میں پڑنا نہیں چاہتیں۔اسٹیٹس کو ہر ایک کے حق میں ہے اور ہر سیاسی قوت اسے برقرار رکھنا چاہتی ہے۔یاد رہے کہ یہ سپریم کورٹ ہی تھا کہ جس نے ڈنڈے کے زور پر بلدیاتی الیکشن کرائے۔ صوبائی حکومتیں تو تیار ہی نہ تھیں۔مجبوری میں الیکشن تو کرالئے گئے لیکن جب اختیارات منتقل کرنے کا مرحلہ آیا تو صوبائی حکومتوں نے ایک نہ مانی۔ ابھی تک بلدیاتی اداروں کو اپنے پاوں پر کھڑا ہی نہیں ہونے دیاگیا۔کراچی کے میئر کا حال ایک کونسلر سے بھی بدتر ہے۔پنجاب میں ایک سال قبل بلدیاتی الیکشن ہوئے لیکن ابھی تک میئر اور ڈپٹی میئرکا انتخاب نہیں ہوسکا۔اختیارات اور بالخصوص مالی وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی تو بعید از قیاس ہے کیونکہ پارلیمانی پارٹی چاہتی ہی نہیں کہ چوپالیں اور ڈھیرے طاقت کا مرکز بن جائیں۔سوال یہ ہے کہ آخر حکومت اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے سے کیوں کتراتی ہے اور سول ادارے کیوں اتنے غیر موثر اور غیر فعال ہیں کہ انہیں ہر کام کیلئے فوج کی معاونت درکار ہوتی ہے؟ انہیں سپریم کورٹ کی سرزنش کا کیوں انتظار ہوتاہے؟ کیوں نہیں ایک خودکار نظام کے تحت انتظامی مشینری حرکت میں آتی؟
  گزشتہ ہفتے فوجی کمان کی تبدیلی کا ملک بھر میں خوب چرچا ہوا۔ٹی وی چینلز پرجشن کا سماں تھا۔جنرل راحیل شریف کی بروقت رخصتی اور کمان کی تبدیلی نے اداروں کی مضبوطی اور استحکام کو یقینی بنایا لیکن جس طرح ملک بھر میں نئے آرمی چیف کی آمد پر بحث ومباحثہ ہوااور اسے ایک سیاسی تناظردیا گیا ایسا دنیا بھر میں کئی نہیں ہوتا۔تسلیم! پاکستان میں فوج کا کردار دوسرے ممالک سے مختلف ہے اور اس کے معروضی حالات بھی جدا ہیں لیکن اس کے باوجود فوج میں تقرر اور ترقیاں ایک معمول کی کارروائی ہیں جنہیں میڈیا کی شہ سرخیاں اور انہیں مسلسل بحث ومباحثہ کا حصہ بنانا عسکری اداروں کے مفاد میں ہے او رنہ ہی ملک کے۔
بدقسمتی سے جمہوری نظام اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے والے نہ صرف اس ملک میں کمزور ہیں بلکہ روز بہ روز کم بھی ہوتے جارہے ہیں کیونکہ معاشرے کے فعال طبقات اداروں کی مضبوطی اور ملک کے استحکام سے کم ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ان کی خواہشات اورعزائم کا محوران کے ذاتی،گروہی، معاشی اور سیاسی ہداف ہوتے ہیںچنانچہ ہر ایک اپنا ڈھول پیٹتا ہے اور اپنے مفادات کی عینک سے ہی قومی ترجیحات کا تعین بھی کرتاہے۔
گزشتہ 3 سالوں میں فوج کا کردار داخلی معاملات میں بہت حد تک بڑھا۔ن لیگ کی حکومت پیپلزپارٹی سے بھی کمزور نکلی اور اس نے جمہوری اداروں اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کے بجائے ہر محاذ پر پسپائی اختیار کی۔علاوہ ازیں سول اداروں نے بھی داخلی سلامتی کے معاملات میں سرگرم کردار ادا کرنے کے بجائے عضو ئے معطل بنے رہنے کو ترجیح دی چنانچہ خلاءپیدا ہوا جسے فوج نے پُرکرلیا۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ محض دہشتگردی یا اچھی حکومت کی فراہمی نہیں بلکہ اقتداراوراختیارات کی تقسیم ہے۔ گزشتہ7 عشروں میں سویلین اور منتخب حکومتیں تمام تر کوششوں کے باوجود اپنا مثبت امیج قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے کہ وہ ملک کو درپیش تمام مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ کرتی اور ہر مرحلے میں قیادت فراہم کرتی نظر نہیں آتی۔ابھی تک وہ محض پنجاب اور وفاق یعنی اسلام آباد تک محدود حکومت ہے۔باقی 2بڑے صوبوں یعنی سندھ اور خیبر پختونخوا میں اس کی حکومت ہی نہیں۔نہ ہی وہ ان علاقوں کی تعمیر وترقی یا اپنی سیاسی طاقت بڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
  جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ نے حکومت کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ زیادہ آزادی کے ساتھ فیصلے کرے اور پھر ان پر قائم بھی رہے۔ پاکستان کو سرحدوں پر کشیدگی وارا نہیں کھاتی۔اس کے پاس20 کروڑ لوگوں کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں تو درکنار پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے وسائل اور اہلیت نہیں۔خطے میں چین اور ترکی کے علاوہ اس کا کوئی حلیف ایسا نہیں جو مشکل کی گھڑی میں ساتھ کھڑا ہوسکے۔ چین اور ترکی اپنی جگہ اہم ممالک ضرور ہیں لیکن جو عالمی نظام اس وقت دنیا پر غالب ہے اس میں انکی اسٹراٹیجک اہمیت قابل ذکر نہیں۔ پاکستان کو نہ صرف خطے میں کشیدگی کم کرنے کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ امریکہ سے بھی تعلقات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسکی معیشت ترقی کرسکے اورعام شہریوں کی حالت میں کچھ سدھار آسکے۔عالم یہ ہے کہ چند دن قبل وزارت منصوبہ بندی اور ترقی نے قومی اسمبلی میں اعتراف کیا کہ ملک میں5 کروڑ 30 لاکھ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔کچھ عالمی ادارے یہ اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت میں بہتری کے آثار ہیں جو تھوڑے بہت نظر بھی آتے ہیں لیکن سماجی اشاریئے غیر معمولی طور پر مایوس کن ہیں۔
وزیرخارجہ سرتاج عزیز کا ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ ایک دانشمندانہ عمل ہے۔ممکن ہے کہ اس سے دوطرفہ تعلقات میں پائے جانے والا جمود نہ ٹوٹے لیکن پاکستان کو تناو کے ماحول سے باہر نکالنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔اسی طرح یہ ایک موقع ہوگا جہاں افغانستان اور دیگر ممالک کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھایاجاسکے گا۔خاص کر افغانستان کیونکہ پاکستان کے اکثر داخلی مسائل کی جڑیں افغانستان میں جاری خانہ جنگی اور شورش میں پیوستہ ہےں۔پاکستان اور افغانستان کو اپنے اخلاص اور ہمدردی سے دوبارہ اپنی طرف کھینچا ہوگا تاکہ وہ ہند کےساتھ مل کر پاکستان کےلئے مسائل نہ پیدا کرسکے۔ 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: