Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم آہنگی

 
یہ شہر اُس ”بدقسمت“ ماں کی طرح ہے جو اپنی گود میں پناہ لینے والے ہر پاکستانی پر جان نچھاور کرتی ہے، اسے سینے سے لگا کر پالتی ہے
 
شہزاد اعظم
 
ہمارے ہم عصر ”فرتوتانِ محترم“کا فرمان ہے کہ جو سانس ہے ، وہ غنیمت ، اگلی کا پتا نہیں آئے یا نہ آئے۔ اسکے معانی یہی ہیں کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے، اس لئے ہمیںسوچ سمجھ کر بولنا اور پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے۔ ہم نے اس فرمان کو زندگی کے کسی بھی موڑ پردرخوراعتناءنہیں جانا اور اسی حال میں ہماری زندگی کا تانگہ 50برس سے زائد کی مسافت طے کر گیا مگر پھر یوں ہوا کہ 2دسمبر کا سورج طلوع ہوا۔ہم نے ٹی وی لگایا اور وہ نظارہ دیکھا جس نے ہماری ایک نہیں بلکہ تمام سِٹّیاں گم کر دیں، ہمارے دونوں ہاتھوں کی توتیاں اور توتے اُڑ ادیئے،ہمارے جملہ اوسان خطا کر دیئے،ہمیں ہکا بکا کر دیا،ہم بھونچکا رہ گئے ، ششدر ہو گئے اور حیرت کے باعث ہم پر سکتہ طاری ہوگیا۔ چشمِ فلک نے بھی تصدیق کی کہ اس نے یہ منظر پہلی مرتبہ دیکھا ہے ۔ہم نے فوری اپنی ایک انگلی ”انگشت بدنداں“کے ا نداز میں دانتوں میں دبائی اور اسے کاٹ کر دیکھااور تکلیف ہونے پر یقین کر لیا کہ یہ خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے ۔اتنی چھوٹی سی اسکرین پر اتنا بڑا تاریخی کارنامہ دیکھ کر ہمارا ناطقہ بھی بند ہو چکا تھا۔آپ سوچتے ہوں گے کہ آخر ہم نے ایسا کیا دیکھ لیا تو عرض ہے کہ ہم نے جو کچھ دیکھا، اس کی منظر کشی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ اپنے حواس مجتمع کر لیں، تمام سِٹیوں پر خصوصی نظر رکھیں اور تمام توتے توتیاں اپنے دونوں ہاتھوںمیں مضبوطی سے تھام لیں۔
یہ منظر کراچی کا تھا جسے ویسے تو” عروس البلاد“ یعنی پاکستان کے شہروں کی دلہن کہا جاتا ہے مگر حقیقتاًیہ”ارملة البلاد“ یعنی” شہروں کی بیوہ“ دکھائی دیتا ہے۔یہ شہر اُس ”بدقسمت“ ماں کی طرح ہے جو اپنی گود میں پناہ لینے والے ہر پاکستانی پر جان نچھاور کرتی ہے، اسے سینے سے لگا کر پالتی ہے مگر اس کی عنایتوںکے سائے میں پروان چڑھنے والے کسی ناخلف و نافرمان اولاد کی طرح اس سے کماتے بہت ہیں مگر اس پر لگاتے کچھ نہیں۔انہی نافرمانوں میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے چند سکوں کے عوض اپنا ضمیر بیچ کر اغیار کی سازشیں کامیاب بنانے کےلئے اس شہر کی تمام رونقیں، روشنیاں اور دلداریاں، روایتیں، حکایتیں اور وضع داریاں،صبحیں، شامیں اور شب بیداریاں، گنگناتی شاہراہیں، گلیاں اور راہداریاں،پائلیں، چوڑیاں اور نازبرداریاں، آنچل، حجاب اور ساریاں، سبزہ،خوشبواور گلکاریاں، مسکراہٹیں، قہقہے اورکلکاریاں ،امن، محبتیں اور وفاداریاں،سب ملیا میٹ کر کے رکھ دیں۔موت کے یہ سوداگر سارے شہر میں دندناتے اور کو بہ کو موت کے رقص کی محافل بپاکرتے ۔ کراچی کی فضاﺅں سے ترحم، تبسم، ترنم،تکلم معدوم ہو گیا،ہواوں کے دوش پر آہ وبکا اورچیخ و پکارسنائی دینے لگی۔ یوں اس عروس البلاد کو ایسی زندہ لاش بنا دیاگیا جس پرہر جماعت،جتھے اور جھُنڈنے سیاست کرنا شروع کر دی ۔ خوف و دہشت نے قدم قدم پر ڈیرے ڈال لئے۔ایسے میں جو صاحبِ ثروت تھے، امن کی تلاش میں دوسرے شہر یا دوسرے ملک جا بسے مگر وہ کہیں نہ جا سکے جنہیں 2 وقت کی روٹی بھی میسر نہیں تھی۔اس دوران ہزاروں پاکستانیوں کو اس شہر کی خاک کا پیوند بنا دیاگیا ۔
وقت گزرتا رہا۔ کراچی کی حالتِ زار کو ہر سیاسی کھلاڑی نے” تختہ¿ مشق“بنایا۔پھر ایک روز”مردانہ قدموں کی چاپ “سنائی دی ۔ سماعتوں نے سجھایا، آنکھوں نے دکھایا اور اس شہر نے باور کرایا کہ یہ چاپ ایک ایسے عظیم ہیرو کی ہے جو اپنے عمل ، کردار اور گفتار کے ذریعے افسانوی شہرت کی بلندیوں پر براجمان ہو چکا ہے۔ وہ اس پاک سرزمین کی تاریخ کا ایسامنفرد کردارثابت ہوئے کہ انہوں نے جو کہا، وہی کیا۔وہ ارضِ پاک کی فضاوں میں سانس لینے والے ہر پاکستانی کے دل کی آواز بن گئے۔انہوں نے کراچی میں قیام امن کےلئے اپنا کردار ادا کیا اوراس شہر بے مثال کی رونقیں بتدریج لوٹنے لگیں۔ 
آج ہم نے جو منظر اسکرین پر دیکھا وہ اسی کراچی کا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ شہر کے منتخب میئر پریس کانفرنس کے انداز میں تشریف فرما ہیں اور ان کے ساتھ ملک کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی، ہر سیاسی جماعت کے علاقائی اعلیٰ عہدیدار موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں کہہ رہا، آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے متعلقہ نمائندے ہمارے شانہ بشانہ ہیں۔اس پر ان نمائندوں نے تالیاں بجا کر میئر کی بات کی تصدیق کی۔ اس کے بعد میئر نے کہا کہ صرف مذکورہ نمائندگان ہی نہیں بلکہ عوام بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ سن کر وہاں موجود عوام نے تالیاں بجا کرمیئر کے بیان کو مبنی بر حقیقت قرار دیا۔ میئرنے کہا کہ یہی نہیں بلکہ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے بھی اس ہم آہنگی کو سراہتے ہوئے مبارکباد دی ہے اور کہا ہے کہ آپ لوگوں کو جس تعاون کی ضرورت ہوگی وہ فراہم کریں گے۔
ہم حیران تھے کہ ان میں تو ایسی جماعتیں اور جتھے بھی ہیں جو ماضی میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہے ہیں، وہ ایک دوسرے کا وجود برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں ہوتے تھے، پھر آج یہ سب ایک ہی نشست پر تشریف فرما ہیں، بلا شبہ عروس البلاد میں نظر آنے والا ا من اُسی ”عظیم ہیرو“ کا لگایا ہوا پوداہے جو ،ان شاءاللہ مستقبل میں شجرِ سایہ دار بنے گا۔
اسی پریس کانفرنس کے دوران ہماری سماعتوں سے جو مورد جملے متصادم ہوئے ان میں میئر کراچی کی زبان سے ادا ہونے والے یہ الفاظ بھی تھے جن میں انہوں نے کہا تھا کہ میں کسی قسم کا پروٹوکول نہیں چاہتا ۔ مجھ سے ملنے کےلئے جو لوگ آئیں گے انہیں میرے دروازے بند نہیں ملیں گے اور میں سرکاری اداروں کے افسران سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ وہ ”اپائنٹمنٹ“ کا سلسلہ ترک کردیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ آپ سے صرف وہی مل سکتا ہے جس نے پیشگی اپائنٹمنٹ لے رکھی ہو۔ لوگوں سے ملنے کےلئے اپنے دروازوں کو کھلا رکھئے تاکہ میں بھی آپ سے جب چاہوں ملنے آ جاوں۔انہوں نے کہا کہ فی الحال اس یوسی میں جو فوری مسئلہ ہے وہ سڑکوں کی پیوند کاری کا ہے تو میں نے ہدایت کر دی ہے، پیر کے روز سے علاقے میں سڑکوں کی پیوند کاری کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ میئر کی تقریر سن کر وہاں موجود لوگوں نے فرطِ جذبات سے نہ صرف تالیاں بجائیں بلکہ نعرے بھی لگائے۔ میئر نے کہا کہ میں خود آپ کو کام کرتا نظر آﺅں گا۔ 
یہ حیرتناک منظر دیکھے ہوئے ہمیں کئی گھنٹے بیت چکے ہیں مگر تاحال ہماری کیفیات ٹھکانے نہیں آ سکیں۔ ہمیں مستقل خیال آ رہا ہے کہ عروس البلاد کے میئر نے یہ مُشکّل پریس کانفرنس کر کے سیاستدانانِ پاکستان کےلئے ایک مشکلات کا ہمالہ کھڑا کر دیا ہے کیونکہ پریس کانفرنس میں شریک سیاسی جماعتوں نے اگر ملکی سطح پر بھی اسی قسم کی ”ہم آہنگی کا بازار گرم “کر دیا تو سیاستدانوں کی سیاست تو دم توڑنے پر مجبور ہوجائےگی۔ تمام جماعتوں کے رہنما اور کارکنان مل جُل کر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ملک و قوم کی بھلائی اور بہتری کے لئے کام کرنا شروع کر دیں گے اور پاکستان ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑتا ہوا اقوام عالم کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔ پھر انتخابات میں عوام سے ووٹ لینے کےلئے سیاست دانوں کے پاس کوئی ”ایشو“ ہی نہیں رہے گا، ٹی وی پر سیاسی ٹاک شوز ختم ہوجائیں گے، ہائیں!یہ ہم کدھر جا رہے ہیں؟
٭٭٭٭٭٭

شیئر: