Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خالہ زاد، ماموں زاد ایکساتھ ،شیطان کو کھلی چھوٹ

بچوں کو خود سے الگ رکھیں تو انکی تعلیمی سرگرمیوں کیساتھ انکے اخلاق و آداب پر بھی کڑی نظر رکھیں

 

مسز ربانی ۔ جدہ

ہم ایشیائی لوگوں کا ایک خاص طرززندگی ہے۔ ایک دوسرے سے بے پناہ محبت ، بے شمار توقعات اور بہت زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ ، جو یقینا خوش آئند ہے اور صحت مند طرز زندگی ہے مگر یہاں حد سے زیادہ ہر معاملات کو لے کر چلنا نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ ہمارا دین ہمیں میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ نہ زیادہ ،نہ کم بلکہ وسط کا راستہ ۔ خرابیاں زیادتی سے ہی شروع ہوتی ہیں اور ہمیں علم بھی اسی وقت ہوتا ہے جب خرابی ہوچکی ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمارا ایک خاندانی طریقہ زندگی ہے بہو بیٹے ، ساس سسر اور نند والا نظام جسے میں بذاتِ خود بہت پسند کرتی تھی مگر اب مجھے اس میں کوئی بھلائی نظر نہیں آتی اور اس کی سب سے پہلی، آخری اور بڑی وجہ وہاں بزرگوں کا نہ ہوناہے ۔ کہیں تو اللہ کریم کی طرف سے ان کا وقت پورا ہوجاتا ہے اورکبھی ہم ان کو ایک بے کار یا بوجھ سمجھ کر ایک طرف ڈال دیتے ہیں۔ ہمارے اسی روئیے نے ہماری خاندانی زندگی کو بے حد متاثر کیا ہے۔

عموماً پردیسیوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب بچوں کو پڑھنے بھیجنا ہو تو رشتے داروں میں ننھیال اورددھیال کا موازنہ ہوتا ہے کہ کہاں بچہ زیادہ آسانی سے رہ سکتا ہے یا اس کو پڑھائی و دیگر سہولتیں بہترطور پر کہاں میسر آسکتی ہیں۔ وہاں ہم ایک اہم نکتہ بھول جاتے ہیں کہ کس گھر میں بزرگ ہیں اور وہ کتنے فعال ہیں یعنی وہاں انکی کتنی سنی جاتی ہے۔ بچے کو ہم تمام سہولتیں دے کر بھیج دیتے ہیں اور پھر زور صرف اس کی پڑھائی پرہوتا ہے کہ وہ کب اٹھتا ہے ، کب سوتا ہے ، ٹیوشن میں کیسا ہے ، کالج یا اسکول میں نتائج کے اعتبار سے کیسا ہے، کہیںبھی اس کی دیگر مصروفیت کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا اور اگر کہیں دھیان دیا بھی جائے تو بہت کم حالانکہ اخلاقیات اور ادب سرفہرست ہونے چاہئیں اور اس کی عمر اور اس کے تقاضے کے مطابق اسے ماحول فراہم کیاجانا چاہئے ۔

گھر میں خالہ زاد، ماموں زاد کے ساتھ رہنا اور وہ بھی والدین کے بغیر تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ شیطان کو کھلی چھوٹ دیدی گئی کہ جو چاہے کرے۔ ہم انسانوں کو یہ زعم رہتا ہے کہ گھر کا ماحول صحیح ہو اور بچے کی پرورش ٹھیک ہوتو بچہ کہیں بھی رہے، کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہ سب خام خیالی ہے اور ہماری ذہنی اختراع ہے اگر ایسا ہوتا تو ہمیں ضابطۂ زندگی بتائے بغیر ہی دنیا میںبھیج دیاجاتا اور دنیا کو آزمائش نہ بنایاجاتا ۔ سب کے سب اچھے ماحول میں اچھائیاں کرکے لوٹ جاتے ۔ ایسا بالکل نہیں ، سچ یہ ہے کہ اللہ کریم نے آزمائش سے نکل کر کامیاب لوٹنے والوں کے لئے خوش خبری عطا فرمائی ہے اور بھٹکنے پر بھی انجام سے باخبر فرما دیا کہ شیطان تمہاری رگوں میںخون کی طرح بہتا ہے۔ اب خود ہی سوچئے کہ ہمیں اس سے بچنے اور ہوشیار رہنے کی کتنی ضرورت ہے۔

تین سال کے بچوں کی تربیت مکمل ہوجاتی ہے تو ان تین سالوں میں ہم کتنے بے خبر ہوتے ہیں؟ 7سال کے بچوں کو نماز سکھائی جائے ،ان کا بستر الگ کیا جائے ، 10 سال کی عمر میں نماز کی ادائیگی نہ کرے تو تادیبی کارروائی کریں ،سارا وقت ’’بچہ ہے، بچہ ہے ‘‘ کہہ کر گزارنا پھر میٹرک اور انٹر کے بعد ہاسٹل یا کسی خاندان کی کفالت میں دے دینا ہمارا وتیرہ ہے پھر جب یہی بچہ سنگین غلطی کا مرتکب ہوتا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ تو بہت ہی بدنامی کی بات ہوگی ،وقت سے پہلے بڑا ہوگیا۔ اس سے یہ امید نہ تھی۔ اس صورت حال میں بچے کی بجائے والدین کو موردِ الزام ٹھہرایاجانا چاہئے ۔ 10 سال کے بعد آپ نے بچے کا الگ بستر، الگ کمرہ کیا ۔

آج کل تو نومولود بھی الگ سوتا ہے لیکن اس وقت جب اسے والدین کی، اچھے بزرگوں کی اور بہترین دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے ،ہم تربیت کے حوالے کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں اگرچہ تربیت کا حصہ 50فیصد ہے تو باقی 50کہاں گیا؟ دوسرے یہ کہ یہ تو نوجوان ہیں جن سے غلطی اور لغزش کا احتمال زیادہ ہوتا ہے جبکہ شیطان کسی بھی عمر میں انسان کو رسواکرنے سے باز نہیں آتا ۔ بچے ہمارے گھروں کے ، ہمارے آنگن کے، بہترین ،خوش رنگ اور خوشبو دار پھول ہیں ان کی تعلیم اور تربیت دونوں کا خیال رکھتے ہوئے جب آپ ایک مدت تک کسی وجہ سے بھی انہیں خود سے الگ رکھیں تو ان کی تعلیمی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ان کے اخلاق و آداب پر بھی کڑی نظر رکھیں ۔ سہولتیں کم ہوں تو قابل قبول ہو سکتی ہیں مگر انہیں بزرگوں کے سائے میں رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

شیئر: