Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میکا ایک خواب تھا ، سسرال حقیقت ہے، ایمن ابراہیم

شادی ہوئی تو ’’ پریوں کے دیس‘‘ سے شریک زندگی کیساتھ حقیقی دنیا میں آگئی ’’ہوا کے دوش پر‘‘ ملاقات

جب بیوی کہتی ہے کہ آپ کو چھوڑ کر میکے جانے کو دل نہیں مانتاتو خوشی ہوتی ہے، ابراہیم رضوان

 

تسنیم امجد ۔ ریاض

انسان کی نظر ایک ہوتی ہے مگر نظارے کے لئے زاویے بے شمار۔زندگی کو ذرا اک نئے زاویے سے دیکھئے ۔ یہ ایک صاف شفاف اور بے داغ کینوس ہے جبکہ انسان مصور۔ ہر انسان اس کینوس پر اپنی چاہت و استطاعت کے مطابق نقش و نگار بناتا ہے، ان میں رنگ بھرتا ہے۔ وہ صنفِ مخالف کو مرعوب کرنے کے لئے اس کینوس پر اتنی حَسین اور منفردتصویرِ حیات بنانا چاہتا ہے کہ جو بھی دیکھے، عش عش کر اُٹھے، حیرت اور رشک سے مغلوب ہو کر دم بخود رہ جائے اوراس مصور کی تصویر کے جمال و کمال پر دل و جان سے فدا ہو کریہ کہہ اُٹھے کہ :

’’زندگی تو اُسی کو کہتے ہیں، جوبسر تیرے ساتھ ہوتی ہے ‘‘

ایسے لوگ کامیاب زندگی کے حامل کہلاتے ہیں۔تصویرِ حیات کی مصوری میںاس درجے تک رسائی ہر مصور کا خواب ضرور ہوتی ہے مگراس کی تعبیر کسی کسی کی قسمت میں ہوتی ہے۔ بعض مصور ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے سفرِ حیات میں طوفان آتے ہیں، زلزلے بپا ہوتے ہیں اوراس دوران تمام رنگ کینوس پر بکھر جاتے ہیں، یہ تصویرانتہائی بھیانک ہوجاتی ہے اور بے چارہ مصور بکھرے رنگوں کو کھرچ کھرچ کرتصویر کی کراہت کو وجاہت سے بدلنے کی کوشش میں مگن ہو جاتا ہے ۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب کینوس پربنی تصویرکے رنگ تو نکھر جاتے ہیں مگر اس کے وجود کے تانے بانے بکھر جاتے ہیں۔ایسا مصور زندگی میں خود کو ناکام سمجھنے کے باوجودکامیابی کے خواب دیکھتا ہے بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ ان خوابوں کا کردار وہ خود نہیں ہوتا بلکہ اس کا اپنا جگر گوشہ ہوتا ہے جس میں وہ اپنا عکس دیکھ کرناکامی کا کرب بھول جاتا ہے۔اپنے زندگی کے کینوس میں کامیابی کے رنگ بھرنے اورحَسین تصویر بنانے کے لئے اکثر مصور وطن میں اپنوں کی قربتوں کو خیر باد کہہ کر پردیس کی کلفتوں کو گلے لگا لیتے ہیں ۔ یوں وہ خودتنہائی کی پناہوں میںسمٹ کر اپنوں کی محفلوں کیلئے رونق کا سامان کرنے کو ہی اپنا مقصدِ حیات بنا لیتے ہیں۔ یہ ہستیاں جو ’’پردیسی ‘‘ یا’’ تارکِ وطن‘‘ کہلاتی ہیں،بہت قیمتی ہوتی ہیںکیونکہ تنہائی اور اپنوں سے دوری انہیں حساس بنا دیتی ہے مگر کوئی ان کی سوچ اور دلی کیفیات کا ادراک نہیں کر پاتا کیونکہ وہ کسی کو اپنے دل کا احوال نہیںبتا سکتے اوررہے احساسات تو ان کو ناپنے کا کوئی پیمانہ آج تک ایجاد نہیں ہو سکا ۔ یہاں یہی کہا جا سکتا ہے کہ :

کیوں تعجب ہے مری صحرا نوردی پر تجھے

یہ تگا پوئے دمادم، زندگی کی ہے دلیل

رواں ہفتے ’’ہوا کے دوش پر‘‘محترمہ ایمن ابراہیم اردو نیوز کی مہمان ہوئیں۔ ایمن نے کہا کہ دیس اور پردیس کی کیفیت کیسے بیان کروں، میں تو ابھی زندگی کے عملی تجربات میں داخل ہی ہوئی ہوں ۔میں نے پاکستان میں کراچی جیسے بڑے اور مصروف ترین شہرمیں آنکھ کھولی۔ والد محمد انور فاروق، بینک میں ’’اے وی پی‘‘ کے عہدے پر تھے۔ گھر میں خوب ٹھاٹ باٹھ سے بسر ہو رہی تھی۔ ابوجان ہاکی کے پلیئر رہے۔ میں نے اپنی امی فوزیہ انور کو ہوش سنبھالتے ہی طالبہ کی حیثیت سے دیکھا ۔وہ ’’این ای ڈی‘‘ یونیورسٹی میں سول انجینیئرنگ کررہی تھیں۔جب میری پیدائش ہوئی تو وہ انجینیئرنگ کے فائنل ایئرمیں تھیں۔ ابو جان نہایت مستقل مزاج انسان تھے اسی لئے انہوں نے امی کی تعلیم اور شوق کی تکمیل کو اہمیت دی۔انہوں نے بعد میں بھی امی کی ملازمت میں کبھی مداخلت نہیں کی ۔ گھر میں بڑی ہونے کے ناتے میں نے سب کی خوب توجہ حاصل کی اور لاڈ اٹھوائے ، ’’ مونٹیسری‘‘میں ابتدائی آداب زندگی سیکھے۔ اس کے بعد سینٹ جوزف مونٹیسری اسکول میں داخلہ لیا اور اسکولنگ کے بعد کالج بھی وہیںسے مکمل کیا۔ مجھ سے چھوٹے دونوں بھائی جڑواں ہیں ان کے نام عثمان اورعزیر فاروقی ہیں۔ وہ ابھی اسکول میں ہیں ۔سب سے چھوٹی بہن فاطمہ فاروقی ابھی چھٹے گریڈ میں ہے ۔

والدین ان کی تربیت و تعلیم میں مصروف ہیں ۔ میرے والدین کو گھومنے پھرنے کا بہت شوق تھا۔ ان کی تفریح یہی تھی۔ سالانہ چھٹی ہوتی یاکوئی تہوار، بہت ہی مزے میں گزرتی تھی ۔ اسی لئے مجھے بھی اپنے والدین کی طرح گھومنے کا شوق ہے۔ ایمن نے قدرے اُداسی کے انداز میں کہا کہ میری گریجویشن ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ میری وداعی کابندوبست کردیا گیا۔ سید ابراھیم رضوان کے والد رضوان الرحیم اور والدہ صدیقہ بانو نے مجھے میرے والدین سے کب مانگ لیا، مجھے کانوں کان خبر نہیں ہو سکی۔ میں سوچتی ہوںکہ بیٹیاں پیاری ہوتی ہیں لیکن نہ جانے والدین کو ان کی رخصتی کی جلدی کیوں ہوتی ہے؟ آج مجھے یوں لگتا ہے کہ میکا ایک خواب تھا اور سسرال ایک حقیقت ہے۔شادی ہوئی تو گویا میں ’’ پریوں کے دیس‘‘ سے اپنے شریک زندگی کے ساتھ حقیقی دنیا میں آگئی ۔

مجھے آج بھی اپنے گھر کے آنگن میں گونجتا نغمہ سنائی دے جائے تو میں اپنے آنسو روک نہیں سکتی:

ساڈا چڑیاں دا چنبہ وے ، بابل اساں اڈجانا

ساڈی لمی اُڈاری وے، اساں مڑ نئیں آؤنا

میرے شوہر مملکت میں ہی پیداہوئے ۔ جب سے یہیں مقیم ہیں۔ میں بہت ہی لاڈلی بہو ہوں ساس اور نندوں کی لاڈلی ہوں۔ابھی’’ اے سی سی اے‘‘ میں پڑھ رہی ہوں۔ سسرال میں میرے اسٹڈی ٹائم کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ میری دونوں نندیں عائشہ اور سمعیہ مجھے بہت چاہتی ہیں ۔ محبتوں کی اس بارش پر میں رب العزت کا جتنا شکرادا کروں، کم ہے۔اسی دوران سید ابرھیم رضوان بھی آگئے۔ کئی منٹ تک انہوں نے اردونیوز کی مداح سرائی کی۔ وہ بہت خوش تھے کہ اب اردونیوز کو آن لائن بھی پڑھ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں ایک اہم بات کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت ہی پیارا چاند سا بیٹا عطا فرما کرہم پر احسان فرمایاہے ۔ عفان ابرہیم تو زیادہ تر دادی کے پاس ہی رہتا ہے ۔ گھر پہنچ کر میں اس سے آدھ گھنٹہ تو ضرورکھیلتا ہوں پھر کھانے کی میز پر جاتا ہوں۔ ایمن نے ہمارے گھر میں آکربے حد محبتیں بانٹیں۔ میں نے اپنے والدین کو دیکھ کر یہی اخذ کیا کہ مرد کی وسیع النظری بہترین نتائج کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔ سسرالی رشتوں میں محبت کے چمچے سے چاشنی گھولنے کی ذمہ داری مرد پر ہے اسے ایک متوازن طرز عمل اختیار کرنا ہوتا ہے ۔ زندگی کی گاڑی کو بہترین انداز میں چلانے کو ہی ذہنی ہم آہنگی کہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے اس وقت بہت خوشی ہوتی ہے جب میں بیوی کو میکے جانے کے لئے کہتا ہوں اور وہ جواباً کہتی ہیں کہ آپ کو چھوڑ کرمیکے جانے کو دل نہیں مانتا۔

ایمن نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ سسرال اور شوہر کی محبت نے ہی مجھے یہ سوچ دی ہے ۔ ہم دونوں کو گھومنے اورتفریح کرنے کے علاوہ ادب سے بھی لگاؤ ہے ۔خاص کر شاعری کاخاصا شغف ہے اورمشاعروں میں جانے کا بہت شوق ہے ۔ ابراہیم رضوان نے کہا کہ ہماری سال بھر یہی کوشش ہوتی ہے کہ فضول خرچی نہ کریں اور پھر سالانہ تعطیلات اپنی پسند کی جگہ پر گزاریں۔

ایمن ابرھیم نے کہا کہ میں خواتین کوپیغام دینا چاہوں گی کہ ’’ گھر کے ماحول کو اپنے مطابق ڈھالنے میں عورت کو یقینا تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ عورت اور مرد کے خلوص و محبت سے ہی یہ کائنات سجی ہے۔ عورت کی محبت، وفاداری اور شفقت کے بغیر کوئی بھی گھراینٹ اور پتھر کی چاردیواری کے سوا کچھ بھی نہیںہوتا۔ اس کے بغیر ازدواجی زندگی ایک سمجھوتے کے سوا کچھ نہیں رہتی جس کے نتائج ٹوٹ پھوٹ پر بھی مبنی ہوسکتے ہیں۔ خاتون خانہ کا خوش و خرم اور پُراعتماد رہنا ازحد ضروری ہے ۔وہ ایک قندیل ہوتی ہے جو مستقبل کے مسافروں کے لئے اندھیرراستے کومنور کرتی ہے ۔ کتاب زندگی کے اگر چند اوراق گرد آلود ہو بھی جائیں تو بار بار انہیںپڑھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔بچوں کو خود اعتمادی گھر کے ماحول ہی سے ودیعت ہوتی ہے ان کے بے تکے سوالات کا جواب نہایت تحمل سے دینا چاہئے ۔ ٹمپر لوز کرنے سے بچے بکھرجاتے ہیں۔

شیئر: