Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اجتماعی نظام زندگی ، فطرت کا تقاضا

ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنے احساسِ ذمہ داری کو بیدار رکھے، اپنی ذمہ داری کو حسن خوبی سے انجام دے

 

محب اللہ قاسمی۔نئی دہلی

انسانوں کے درمیان باہمی ربط و تعلق کا ہونا فطری عمل ہے۔ کوئی انسان تنہااور دوسروں سے الگ تھلک رہ کر زندگی نہیں بسرکرسکتا ہے۔خواہ معاش و معیشت کا مسئلہ ہو یا امن و حفاظت کا، اسے لازماً باہمی تعاون کی ضرورت ہوگی، وہ ضرورت مند ہوتا ہے کہ کوئی اس کے ساتھ خیر خواہی، اس کی نگہبانی کرے اور وقت ضرورت اس کی مدد کرے۔ایسے شخص کو ’’راعی‘‘کہتے ہیں اورجس کی حفاظت نگہبانی کی جاتی ہے اسے ’’رعیت‘‘ کہتے ہیں۔یہ زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے۔

ایک مشہورحدیث میں اس کی بھرپور وضاحت کی گئی ہے ۔بخاری و مسلم کے علاوہ احادیث کی دیگر کتابوں میں بھی یہ وضاحت آئی ہے۔اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اسکے ماتحت لوگ اور رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی،امیر اور خلیفہ ذمہ دار ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی، مرد اپنے اہل خانہ کا ذ مہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے سلسلے میں باز پرس ہوگی ، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اوراس سے اس کی ذمہ داری سے متعلق بازپرس ہوگی،خادم اپنے آقا کے ساز و سامان کا ذمہ دار ہے ، اس سے اس کی نگرانی سے متعلق باز پرس ہوگی، پس ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اسکے ماتحت افراداور رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی ۔

بخاری اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ ؓ ہیں جو خلیفہ ثانی حضرت عمربن الخطابؓ کے صاحبزادے ہیں ۔نوعمری میںمشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔اپنے والدمحترم کیساتھ ہجرت کی۔ جنگ احد میں شرکت کی اجازت چاہتے تھے مگر رسول اللہ نے کم عمری کی وجہ سے اجازت نہیں دی تھی۔پہلی جنگ، جس میں آپؓ شریک ہوئے، جنگ خندق ہے۔آپؓ بچپن سے ہی ذہین اورسریع الفہم تھے۔اُس دور میںکتاب و سنت کے مشہورجید علما میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ زہد وتقویٰ میں بھی آپ بہت مشہور تھے۔ آپ ہر نماز کیلئے وضو کرتے اور وضو اور نماز کے درمیان اکثر تلاوت کرتے۔

دورانِ تلاوت آپ بے ساختہ روپڑتے۔ آپؓ بڑے مجاہد بھی تھے۔ آپنے بہت سی روایات رسول اللہ سے براہ راست کی ہیں اور اپنے والدؓ اورحضرت ابوبکرؓ اور اپنی بہن ام المومنین حضرت حفصہؓ کے واسطے سے بھی نقل کی ہیں۔آپ سے مروی کُل روایات2630 ہیںجن میں سے168روایات بخاری و مسلم میں موجود ہیں۔ حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ60سال تک آپ مدینہ منورہ میں تشنگانِ علوم کی پیاس بجھاتے رہے۔

آپؓ نے87سال کی عمرپائی۔73ہجری میں آپ کی وفات ہوئی۔ اللہ آپ سے راضی ہوں اور آپ کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،آمین۔ اسلام اجتماعی زندگی چاہتا ہے جوفطرت کا تقاضا ہے۔اس کیلئے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں ہر فرد کو ذمہ داری کا احساس ہو۔حدیث ِ بالا سے جہاںاسلام میں حکومت و امارت کا تصورواضح ہوتا ہے اور حکمرانوں پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، اس کی وضاحت ہوتی ہے وہیںیہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ تمام انسان بحیثیت انسان ذمہ دارہیں۔ اِن سے اُن کی رعیت(ماتحت افراد) کے سلسلے میں بازپرس ہوگی۔ راعی عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنیٰ’ ’چرواہا‘‘ہے۔یہاں اِس سے مرادفرض شناس ذمہ دار ہے۔جس طرح چرواہے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جانوروں کوچرانے کیلئے سبز چراگاہوں میں لے جا ئے، درندوں ، چوروں رہزنوں سے ان کی حفاظت کرے اور شام کو گھر واپس لائے تو مناسب جگہ پر باندھے اور انکی دیکھ بھال اور پوری نگرانی کرے۔

امیر ،خلیفہ اورحاکم ِ وقت بحیثیت خلیفہ اور حکمران عوام کا محافظ اور نگراںہوتاہے۔ ان کی ضروریات کی فکرکرنا اورانھیں خدشات و خطرات اور مشکلات سے محفوظ رکھنا ،اس کی ذمہ داری ہے۔ ایسا کرنے پر ہی رعایہ اور عوام پرامن اور خوش حال زندگی بسر کرسکتے ہیں لیکن اگر وہ لاپروائی کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مجرم اورسزاکا مستحق ہوگا۔ رعایہ کے ذمہ ان کی سمع و طاعت واجب قرار دی گئی ہے اگر وہ کسی شر اور برے کا حکم نہ دے بلکہ اچھے اور خیر کے کاموں کاکوئی حکم دے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول () کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔النسا ء59 حاکم وقت پر کچھ ذ مہ داریاں عائد ہوتی ہیںجن کا وہ جوابدہ ہے، مثلاً:اس کا فرض ہے کہ وہ دین کے ان اصولوں اور بنیادی باتوں کی حفاظت کرے۔لڑنے، جھگڑنے والوں پر اسلامی احکام کو نافذ کرے ،ان کی لڑائی کا خاتمہ کرکے تاکہ انصاف کا چلن ہو۔ساتھ ہی وہ دشمنوں کے مکر و فریب پروپیگنڈوں سے بھی واقف رہے۔عوام کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے، اسلامی ملک کی حدود کو دشمنوں سے محفوظ رکھے تاکہ لوگ معاش کے سلسلے میں امن و اطمینان کے ساتھ نقل و حرکت کرسکیں اور سفر میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔

اسی طرح اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ شرعی حدود جاری کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی قابل احترام چیزوں اور احکام کی حفاظت کی جائے اور ان کی بے حرمتی نہ ہو اور بندگانِ رب کے حقوق ضائع اور برباد نہ ہوں۔طاقتور فوجی تیارکرے اور مضبوط دفاعی انتظام کے ذریعہ سرحدوں کو محفوظ کرے تاکہ دشمن کسی بھی سرحد پر دست درازی نہ کرسکے اورخون ریزی کو روکا جاسکے۔مال غنیمت اور صدقات کو شریعت کے مطابق بلاکسی زیادتی کے وصول کیا جائے۔بیت المال سے لوگوں کو جو حق پہنچتا ہو، اس کے مطابق بلاکسی کمی و بیشی ، تقدیم و تاخیرکیدیا جائے۔باصلاحیت امانت دار لوگوں کو کام پر لگایاجائے تاکہ کام ٹھیک ٹھیک انجام پائیں اور مال محفوظ ہوں۔رشتہ داریا تعلقات کی بنیاد پر وہ ذمہ داریوں کو نہ تقسیم کرے کہ بلکہ اسے امانت تصور کرتے ہوئے اس کی اہلیت رکھنے والوں کو ہی اس کا ذمہ دار بنائے ، ورنہ اسے خیانت سمجھا جائے گا۔

(مکمل مضمون روشنی یکم دسمبر کے شمارے میں ملاحظہ کریں)

شیئر: