Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس اور پاکستان

 
اگر پاکستان کا کوئی قادر الکلام اور باقاعدہ وزیر خارجہ ہوتا جو بارہا افغانستان کادورہ کرتا تو افغان حکمرانوں کا طرز عمل مختلف بھی ہو سکتا تھا
 
محمد اسلم محمود بٹ
 
پاک فوج کے نئے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے 29 نومبر کو چارج سنبھالنے کے فوراً بعد شمالی وزیرستان اور پھر کشمیر میں لائن آف کنٹرول کا دورہ کیا اور اگلے مورچوں کا دورہ کرتے ہوئے فوجی حکام کو ہدایت کی کہ ہند کی جانب سے اگر کسی جارحیت کا ارتکاب ہو تو اس کا فوری طور پر بھرپور جواب دیا جائے۔
نئے سپہ سالار کا یہ بیان ایسے حالات میں سامنے آیا جب دونوں ممالک کے درمیان اس غیر حتمی سرحد پر ہند کی جانب سے فائر بندی کے معاہدے کیخلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے اور جان بوجھ کر سویلین باشندوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ ہندوستانی حکومتی عہدیداروں کی جانب سے پاکستان پر حملے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور جس طرح وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کے ساتھ ہند میں توہین آمیز سلوک اختیار کیاگیا اس کے نتیجے میں پاکستانی تجزیہ نگار بھی ہند سے محدود پیمانے پر پاکستان پر جنگ مسلط کئے جانے کے خدشات کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ اس تناظر میں ملک کے نئے سپہ سالار کے اگلے مورچوں کا دورہ پاکستان عوام اور خواص کیلئے بہت حوصلہ افزاءخیال کیا جارہا ہے۔ ہند نے پاکستان کیخلاف الزام تراشیوں کا ایک طویل عرصہ سے سلسلہ شروع کررکھا ہے مگر وزیراعظم ہند نریندر مودی کی جانب سے اپنے ایک حالیہ بیان میں کشمیر کی سمت سے پاکستان کی جانب بہنے والے دریائے سندھ کا پانی روک لینے کی دھمکی سے اس خدشے کو دوچند کردیا ہے کہ جوہری قوت کے حامل ان پڑوسی ممالک میں عالمی ثالثی ناگزیر ہوچکی ہے جس کیلئے پاکستان کا ایک کل وقتی وزیر خارجہ بے حد ضروری ہوچکاہے۔
سرحدوں پر کشیدہ صورتحال کے باوجود پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنے یوم تاسیس پر جشن بنانے کے طریقہ کو سنجیدہ حلقے تشویش کی نگاہ سے تو دیکھ رہے ہیں مگر پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے 27 دسمبر سے پہلے حکومت سے کئے گئے مطالبات کی عوامی حمایت میں اضافہ کیا ہے جن میں سرفہرست یہ مطالبہ ہے کہ ملک کا ایک باقاعدہ وزیر خارجہ مقرر کیا جائے۔ افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے ہند کے شہر امرتسر میں افغانستان میں امن اور ترقی کے حوالے سے منعقدہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان کیخلاف بیا ن سے بھی عملاً ثابت ہوگیاہے کہ ملک کو اپنی سلامتی کیلئے باضابطہ وزیر خارجہ کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز ایک بہت تجربہ کار اور قابل سیاستداں ہیں مگر وہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے متحرک وزیر خارجہ جیسا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی کو یہ جرات نہیں ہونی چاہیئے تھی کہ وہ امرتسر میں اپنی تقریر کے دوران یہ الفاظ کہتے کہ پاکستان دہشتگردی کے خاتمے کیلئے قابل قدر خدمات انجام نہیں دے رہا۔ 
باور کیا جاتا ہے کہ اشرف غنی وزیرعظم ہند کی گود میں بیٹھ کر ہی ایسا دل آزار بیان جاری کرسکتے تھے۔ یہ امر عالمی سطح پر ایک مذاق کے مترادف ہے کہ یہ بیان ایسے حکمراں کی جانب سے جاری کیاگیا کہ جن کے ملک کے تقریباً 30 لاکھ مہاجرین کا بوجھ پاکستان اٹھا رہا ہے ۔ اشرف غنی نے اپنے خطاب میں اپنے پیش رو حامد کرزئی جیسا طرعمل اختیار کیا جو ایک ہی سانس میں اپنے غلط نظریات کی وجہ سے پاکستان کے کردار کی تعریف بھی کیا کرتے تھے اور اس کیخلاف سنگین الزامات عائد کئے جانے کے سبب شہرت حاصل کرچکے تھے۔
اگر پاکستان کا کوئی قادر الکلام اور باقاعدہ وزیر خارجہ ہوتا جو بارہا افغانستان کادورہ کرتا تو افغان حکمرانوں کا طرز عمل مختلف بھی ہو سکتا تھا۔ اشر ف غنی نے تو ہند کی پاکستان کیخلاف الزامات کی توثیق کی ہے۔ سرتاج عزیز اطلاعات کے مطابق امرتسر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنا چاہتے تھے اور سکھوں کی تاریخی عبادت گاہ گولڈن ٹمپل کا دورہ کرنا چاہتے تھے مگر ہندوستانی حکمرانوں نے انہیں ان دونوں امور کی اجازت نہیں دی حالانکہ ہند کے ہار ٹ آف ایشیا کانفرنس کے اعلامیے میں پاکستان اور ایران میں افغان مہاجرین کی ایک طویل عرصہ تک دیکھ بھال کی تعریف بھی کی گئی۔ اس تقریب کو ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے پاکستان کیخلاف اپنا غم و غصہ بیا ن کرنے کی سنہری موقع خیال کیاگیا مگر کانفرنس میں شریک چین، روس اور ترکی کے مندوبین بھرپور الفاظ میں پاکستان کا دفاع کرنے سے شاید اس لئے قاصر رہے کہ ان سے پیشگی ملاقات کرنے والا پاکستان کا وزیرخارجہ ہی موجود نہیں تھا اور یقینا انہیں یہ معلوم ہی نہیں تھاکہ افغان صدر اپنے ملک کےلئے ماضی میں قربانیاں دینے والے پاکستان کیخلاف یوں نکتہ چینی کریں گے۔
انہی ایام میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ترکی کا دورہ کیا اور صدر رجب طیب اردوگان سے بھی ملاقات کی جنہوں نے دونوں ممالک میں برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دینے اور اسکی بھرپور مدد کے عزم کا اعادہ کیا۔ ترک صدر نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ ا جلاس سے بھی خطاب کیا تھا اور اپنے خطاب میں کہا تھا کہ عالمی دہشتگرد تنظیم داعش کو مغرب کی پشت پناہی حاصل ہے جو اسلامی دنیا کا سنگین مسئلہ بن چکا ہے اور اپنے وسائل اسلامی دنیا کو تاراج کرنے کیلئے استعمال کررہی ہے۔ امرتسر میں منعقدہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں دہشت گردی اور انتہاءپسندی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا گیا اور طالبان، القاعدہ اور دیگر انتہاءپسند تنظیموں خصوصاً داعش کے خاتمے اور اس کا سدباب کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ بلاشبہ عالمی سیاسی حالات تشویشناک ہوتے چلے جارہے ہیں اور پاکستان کے اندر بھی سیاسی حالات غیر یقینی ہوچکے ہیں۔ 
وزیراعظم کے بچوں کیخلاف پانامہ لیکس کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 5رکنی بنچ کے روبرو سماعت جاری ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے دائر کئے گئے مقدمے میں ان کے ہمراہ دیگر درخواست گزار بشمول جماعت اسلامی بھی موجود ہیں اور سیاسی و عوامی مجالس میں اس حوالے سے ممکنہ فیصلے پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے ملک میں ان افواہوں نے زورپکڑ رکھا ہے کہ آئندہ انتخابات 2018 ءکے بجائے اگلے سال 2017 ءمیں منعقد ہونگے۔ باور کیا جاتا ہے کہ حکومت فی الحال بلاول بھٹو زرداری کے مطالبات پورے کرنے سے قاصر ہے جس کے بعد وہ حکومت کیخلاف احتجاج کا فیصلہ کرسکتے ہیں اور اس حوالے سے پیپلز پارٹی پیشگی تیاریاں کررہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کیخلاف الیکشن کمیشن ، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے دائر غیر اعلامیہ اثاثوں کے ریفرنس کے معاملے پر 15 دسمبر کو اپنا فیصلہ سنائےگی۔ پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں یقین کیا جاتا ہے کہ ملک میں جاری غیر یقینی سیاسی صورتحال کا خاتمہ آئندہ انتخابات تک ہی ممکن ہوسکے گا اور اگر اس سے پہلے پاک ہند جنگ
 چھڑ گئی تو یہ عالمگیر مسئلہ بن سکتا ہے۔
******

شیئر: