Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شوہرپرساری زندگی نثارکر دو، پھر بھی دل سے شک نہیں جاتا

اس نے آخری سانسوں کے درمیان مجھے تشکر کی نظروں سے دیکھا،میرا شوہر جیسا بھی تھا، بس میرا تھا ، موت نے مجھ سے میری محبت چھین لی

 

کوثر بیگ ۔ جدہ

میں شرعی پردہ کرنے والی گھریلو خاتون ہوں۔ کبھی اکیلے گھر کی دہلیز کے باہر قدم نہیں رکھا چہ جائیکہ ملازمت ،مگر وقت نے مجھے اسکول کی کینٹین میں لا کھڑا کیا ۔ اُس سے پہلی ملاقات عجلت بھری تھی ۔کینٹین بند کرنے کا وقت تھا جب وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار نمودار ہوئی اور سموسوں کے ساتھ منرل واٹر کا آرڈر دیا۔کینٹین کے تمام آرڈر کھڑکی سے سرو کئے جاتے تھے ۔کسی کسٹمر کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی ۔میں نے جب اسے مطلوبہ سامان دیا تو وہ ایڑیاں اٹھا اٹھا کر مجھے دیکھ کر بولی: " اوہ !نیو لیڈی " ،وہ سموسے پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے بولی۔

اس کی بات پر میں مسکرا کر رہ گئی اور سامنے کا ضروری سامان ایک طرف رکھنے لگی ۔ پھر وہ بہت جلد مجھ سے گھل مل گئی۔ جیسے جیسے میں اس کے قریب ہوتی گئی، اس کی کھوکھلی ہنسی کے پیچھے غموں کے سیاہ بادل نظر آتے گئے۔اس دن سب ہی بریک ٹائم کے ختم ہوتے ہی چلے گئے مگر وہ مسکراہٹ سجائے مجھے دیکھ رہی تھی۔مجھے ہمیشہ اس کی مسکراہٹ مصنوعی لگی تھی ۔میں نے اپنے خدشے کا اظہار کیا تو وہ گہری سانس لے کر بولی :

"کئی دن سے محسوس کررہی ہوں کہ تم میرے اندر جھانکنے کی کوشس کر رہی ہو ۔آج میرادل بھی اظہار چاہتا ہے۔ مجھے ایک دوست کی ضرورت ہے جس کے کندھے پر سر رکھ کر رو سکو ں۔ آج دروازہ کھول دو ،میں تمہیں اپنی ساری کہانی اطمینان سے سنا کر دل کا بوجھ کم کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے کینٹین ہی کیا، اس کیلئے اپنے دل کا دروازہ بھی کھول دیا ۔اس نے کہا: 4بہنوں اور 3بھائیوں میں، میں سب سے بڑی ہوں۔

گھرمیں صرف باباہی کام کرنے والے اور ہم سب کھانے والے تھے۔ ہم بیٹیاں بڑی تھیں، وہ ہمارے لئے بہت فکر مند رہتے تھے۔ میں ان کی سب سے چہیتی بیٹی تھی ۔کالج سے ایک دن واپس گھر آئی تو چند عجیب قسم کے لوگوں کو بیٹھے پایا ۔ اماں اور خالہ ان کے سامنے بچھی جا رہی تھیں مگر بابا اداس سے ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ان کے جانے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ اماں میری شادی غیرملک میں آباد ایک شخص سے کرنا چاہتی ہیںاور یہ لوگ اسی کے لئے مجھے دیکھنے آئے تھے ۔ امی اور خالہ تومان گئیں مگر ابا نے اپنی مرضی ،میری ہاں سے مشروط کردی ۔

امی چاہتی تھیں کہ میں اس شادی سے سارے بہن بھائیوں کا بار گراں اپنے کندھوں پر اٹھا لوں۔جب میں یہ سوچتی تو مجھے اس کے خیال سے ہی جھرجھری سی آجاتی اورجب اماں، بابا کی معاشی تنگی کے دلدل کا سوچتی تو خودبخود میرے آگے قدم بڑھ جاتے تھے۔ میں اپنے بابا کو پل پل مرتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ بابا کی خوشی کیلئے میں نے ہامی بھر لی۔ میں ایک بالکل اجنبی غیرملک میں آباد شخص کی دلہن بنی تو انہوں نے بارات والے دن ہی حق مہر کی خطیر رقم کے ساتھ کچھ زیورات اور سازو سامان الگ سے دیا جسے میری ماں نے اُچک لیا۔ اماں نے مجھے ایک بھی زیور نہیں دیا اور نہ شادی کے دن کیلئے کوئی کپڑے بنائے ۔اپنی ایک قیمتی ساڑھی جو پرانی ہوگئی تھی، وہ شادی کے دن پہنائی ۔بابا میرے حق کیلئے لڑتے رہے ،مگر بے سود۔ شادی کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر مجھے پردیس بھج دیا گیا۔پردیس آنے کے بعد تو میری دنیا ہی بدل گئی ۔در و دیوار نئے ،زبان نئی، طرزِ زندگی بدلا ہوا ۔ کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو مجھے اپنا لگتا۔ شادی کے بعد میں چھپ چھپ کر رویا کرتی تھی۔ میرے پکائے ہوئے پکوان وہ برائے نام کھاتا اور اگروہ اپنے لئے باہر سے کھانا لے آتا تو مجھ سے کھایا نہیں جاتا تھا۔ میں اس ذائقے کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتی کہ اس میں کیا کچھ شامل ہے تاکہ میں بھی بنا سکوں۔ ایک دن اس اکیلے پن اور انجانے ماحول سے تنگ آکر میں بالکونی میں جاکر ہچکیوں سے رونے لگی تو میرا شوہر میرے پاس آکر منانے لگا اور سمجھانے لگا کہ یہاںروزانہ رات کے وقت خواتین کی بیٹھک ہوتی ہے، اس میں جانا شروع کر دو،دل لگا رہے گا ۔ اس مرحلے میں بھی بہت دشواری ہوئی۔مجھے اجنبی ماحول، بیگانے لوگ اورانجان نگاہوں کا سامنا تھا۔ ہر دن ایک خاتون ڈِش بناکر لاتی۔ سب کی خادمائیں یہ پکوان مہمان خواتین کو پیش کرتیں اور سب ملکرکھاتے ۔میں ان کے پکوان ، کھانے کا طریقہ ، رہنے کا سلیقہ اور بات چیت سیکھنے کی کوشش کرتی رہی ۔

زندگی معمول پر آرہی تھی۔اسی دوران اس غیرملکی شوہر کی پہلی بیوی اُسے تنگ کرنے لگی۔ اس کا غصہ وہ مجھ پر اتارنے لگا ۔بات بے بات ناراض ہوجاتا۔ پھر وہ ہاتھ بھی اٹھانے لگا ،میں کیا کرسکتی تھی۔ رو دھو کر چپ ہو رہتی۔ پھر ایک دن میرے شوہر کا کار ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ پہلی بیوی نے اس کی ساری جائدادپنے نام کروا رکھی تھی۔ بینک کے پیسے بھی اس نے زور زبردستی سے ہتھیالئے تھے اور یہ انکشاف ہی شوہر کے حادثے کی وجہ بنا۔ وہ دونوں پاؤں سے معذور ہو گیا اور اس کی معذوری نے مجھے حصولِ معاش کی تگ ودو میں لگا دیا۔ اس عرصے میں اللہ کریم نے مجھے 2 بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائے۔ جب کسی کے گھر بچے کی پیدائش ہوتی تومیں اس گھر میں 40 دن تک بچے کی خدمت بجا لاتی ہوں۔گھرکا گزارہ چلتا ہے مگر میرا شوہرہر چھوٹی چھوٹی بات پرمجھے مارتاہے ۔ وہ کمزور بھی ہوتا جارہاہے ۔

مجھے بچوں کیلئے جینا ہے۔ اماں بھی آئے دن بہنوں بھائیوں کی ضرورتوں کیلئے پیسے منگواتی رہتی ہیں۔ وہ روزانہ کینٹین کے بہانے مجھ سے ملنے آجاتی ۔ہم ایک دوسرے سے اپنے حالات شیئر کرتے۔ مشورے لیتے۔ ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ مضبوط سے مضبوط ترہوتا گیا۔ ایک دن وہ بہت خوش تھی۔ اپنے کزن کے آنے کی اطلاع پاکر میں نے اس سے تاثرات جاننے چاہے تو وہ کہنے لگی کہ جھوٹوں کا جھوٹ ایک نہ ایک دن بیانِ حق سے مٹ جاتا ہے ، دیکھنا، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس کے چہرے پر اب بھی ہمیشہ ہنسی برقرار رہتی مگراب اس کی ہنسی میں مجھے دلی خوشی بھی شامل محسوس ہونے لگی ۔ میں خود کو سمجھا لیتی کہ شاید یہ میرا وہم ہے۔ کزن کی آمد کے بعد اس کے زخموں میں مزید اضافہ ہوتا رہا مگر مجھے لگتا کہ اس کے زخم ایک اندرونی خوشی سے مسکراتے رہتے ہیں ۔ پہلے میں اسے دل سے خوش دیکھنا چاہتی تھی مگر اب مجھے اس کی خوشی وہم میں مبتلا کردیتی اور جب بھی اسے دیکھتی تو دل ہی دل میں دعا کرتی کہ اللہ کریم اس کو غلط راہ سے بچائے ۔

میرے صاحب کواچھی جاب مل گئی تو ہم نے کینٹین اور شہرکو خیرآبادکہا۔اُس سے یہ میری آخری ملاقات تھی۔ میں نے اپنے دل کے خدشے کو چھپے الفاظ میں بیان کر کے اسے نصیحت کی تو اس نے مجھے اطمینان دلا دیا ۔میں کیا کہتی چپ ہورہی۔ پھر ہمارا رابطہ فون پر قائم رہا ۔ ایک دن پژ مُردہ آواز میں فون پر اپنے غیرملکی شوہر کے مزاج کی خرابی کا بتاکراس نے دعا کیلئے کہا اور فون بند کردیاپھر اس نے اطلاع دی کہ کزن کی فیملی کو بلا کر اپنے گھر میں رکھ لیا ہے۔ میرے دل سے کزن کا شک جانے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ دوستی ہو یاکوئی رشتہ، جب اس میں عزت شامل نہ ہوتو دلی محبت کے باوجود احترام اور تقدس کا جو تعلق روح سے ہوتا ہے باقی نہیں رہتا۔ میں اس بے جان رشتے میں روح سمونے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔ وقت کا پنچھی پر لگاکر اُڑ نے لگا۔ اسکا ایک بیٹا ڈاکٹر اور ایک بیٹا انجینیئر بن گئے اور اپنی من پسند شریک حیات کے ساتھ رہنے لگے۔ بیٹی کی شادی اس نے اپنے شوہر کی خواہش پر مناسب رشتہ دیکھ کر ایک پردیس میں ہی ایک مقامی شخص سے کردی۔ بچوں نے اسے آرام سے مہارانی بنا رکھاہوا تھا۔

آج وہ فون پر بہت روئی اورکہنے لگی: ’’میرا شوہر مجھ سے آخری سوال میرے کزن کے بارے میں کررہا تھا ۔مرد اتنے شکی کیوں ہوتے ہیں ؟ ساری زندگی شوہرپر نثارکر دو پھر بھی ان کے دل سے شک نہیں جاتا ۔ میں نے جب اسے بتایا کہ ہمارے بیٹوں کی تعلیم کے انتظام میں مدد کے عوض میں نے اسکی مدد کی ہے بس اور کچھ نہیں۔اس پر اس نے آخری سانسوں کے درمیان مجھے تشکر کی نظروں سے دیکھا اوربڑی محبت سے میرا ہاتھ تھام لیا۔ میرا شوہر جیسا بھی تھا، بس میرا تھا مگر موت نے مجھ سے میری محبت چھین لی ۔ محبت کی انتہاء ،فنا ہے اور ہم فنا ہوگئے ۔آواز بند ہوئے بہت دیر ہوگئی تھی مگر میں بے حس و حرکت فون تھامے نہ جانے کب تک بیٹھی غزالہ کی آواز اور باتوں کے حصار میں قید رہی۔ غزالہ اور اس کے شوہر کی محبت کی انتہاء ،فنا تھی اوراسی فنا نے ہماری دوستی کے رشتے کوبقا بخش دی۔

محترم قارئین کرام!

اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیںکہ آپ کا نام شائع نہ ہو تو ہم نام تبدیل کردینگے،مگر آپ کی کہانی سچی ہونی چا ہیے۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کیلئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے ،کمپوز کرکے بھیجیں یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں نیچے دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔ ہم سے

فون نمبر 0966122836200

ext:-3428

پر بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے۔

آپ کی کہانی اردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔ ای میل:[email protected]

شیئر: