Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایم کیو ایم تاریخ کے دوراہے پر

 
تشدد کی سیاست اپنانے والی جماعت کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی، کسی فرد کی وجہ سے مہاجروں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے ،وقت سب سے بڑا مرہم ہے
 
صلاح الدین حیدر
 
  ایم کیو ایم....آپ اسے کسی نام سے یاد کرلیں.... مہاجر قومی موومنٹ،جو شروع میں اسے کہتے تھے، متحدہ قومی موومنٹ، جو اَب تک اس نام سے قائم ہے لیکن درمیان میں اس کی ایک علیحدہ ساکھ ہوگئی جس نے اپنا نام ہی نہیں، فلسفہ تک بدل ڈالا۔ مصطفی کمال ہمارے شہر کراچی کے ہیرو تھے اور رہیں گے۔ اُنہوں نے اس سال مارچ میں طویل عرصے کے بعد اپنے ساتھی انیس قائم خانی کے ہمراہ بیرونِ ملک سے کراچی آکر الطاف حسین سے نہ صرف اختلاف کیابلکہ اُنہیں مہاجروں کا دشمن قرار دے ڈالا۔ صرف چند ماہ بعد ایک اور نئی بلکہ زبرد ست اور اگر یہ کہا جائے کہ انقلابی تبدیلی آئی جب الطاف حسین نے زندگی کی سب سے فاش غلطی کی اور پاکستان مخالف نعرہ لگادیا۔ ظاہر ہے ایسی بات کیسے ہضم ہوسکتی تھی۔ آرمی کی ذیلی شاخ جو” رینجرز“ کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے، نے ایم کیو ایم کا بھوک ہڑتالی کیمپ پریس کلب کے سامنے سے اُکھاڑ پھینکا اور پھر جب کچھ ایم کیو ایم کے لوگوں نے الطاف حسین کے کہنے پر میڈیا اور نجی ٹی وی چینلوں پر حملہ کیااور توڑ پھوڑ کی تو پھر آفت تو آنی ہی تھی۔ ایم کیو ایم کے سینیئر نائب کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار اور ایک قومی اسمبلی کے رکن جو اب اپنی نشست سے مستعفی ہوچکے ہیں اور مصطفیٰ کمال کے پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہوگئے، کو حراست میں لے کر ایک رات اپنے پاس رکھا۔ دوسرے روز فاروق ستار نے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کرڈالا اور صرف چند روز بعد ہی پارٹی کے بانی اور قائد کو پارٹی سے خارج کردیا کہ پاکستان کےخلاف نعرے لگانا یا ملکی سلامتی کےخلاف بات کرنا ایم کیو ایم کے منشور کا حصّہ نہیں ۔ اُن کےساتھ ہی پارٹی کے کنوینر اور انتظا می امور کے سربراہ ندیم نصرت کی بھی چھٹی کردی گئی، گویا پارٹی 2حصّوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک پاکستان میں، دوسری لندن میں۔
یہ سب کچھ ایسی تیزی سے ہوا کہ دُنیا دم بخود ہے، لیکن قانونِ فطرت ہمیشہ ایک جیسا ہی رہتا ہے، اُس میں کبھی تبدیلی نہیں آتی۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ ایم کیو ایم 1984 میں بنی، الطاف حسین کو کراچی یونیورسٹی سے اسلامی جمعیت طلبہ نے بے دخل کردیا۔ الطاف حسین ایک نوجوان اور پُرعزم انسان تھے، شکست قبول کرنے کے بجائے اُنہوں نے ایک نئی تنظیم کھڑی کردی۔ آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، جو بعد میں سیاسی تنظیم مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے منظرعام پر اُبھری۔ ایک ایسی پارٹی (جس کا نام کسی نے نہیں سنا تھا) نے ملکی سیاست میں ہنگامہ پیدا کردیا۔ ایک ایسا طوفان جو 2013 تک بلندیوں کی نئی حدود کو چھوتا رہا۔ ایم کیو ایم کا مقابلہ صرف ہندوستانی سیاسی پارٹی کانگریس یا پھر شےخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ سے ہی کیا جاسکتا ہے، لیکن قانونِ فطرت کا پہلے بھی ذکر آیا تھا، دوبارہ پھر اُسی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ مجیب الرحمن نے بھی پنجابیوں اور پٹھانوں بلکہ پورے مغربی پاکستانیوں کےخلاف نفرت کی سیاست کی، الطاف حسین نے بھی پنجابیوں اور پٹھانوں کےخلاف نعرہ لگایا، ظاہر ہے جس عمارت کی بنیاد ہی نفرت پر ڈالی گئی ہو، وہ کتنے دن زندہ رہے گی۔ جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا۔ یہی کچھ ایم کیو ایم کے ساتھ ہوا، عروج کی بھی حد ہوتی ہے اور پھر زوال۔ الطاف حسین خود اپنے ہی دام میں پھنس کر رہ گئے.... خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا.... یہ مثل تو صدیوں سے مشہور ہے۔ نفرت کی عمارت تو ڈھے جانی ہی تھی سو ڈھے گئی۔
اس تاریخی پس منظر کا مقصد صرف یہ تھا کہ کسی کے عروج و زوال کا صحےح طور پر اندازہ لگایا جائے۔ الطاف حسین نے مقدور بھر کوشش کرڈالی لیکن سندھیوں، پنجابیوں اور پٹھانوں نے اُنہیں قبول نہیں کیا۔ وہ جی ایم سید کی تعریف بھی کرتے رہے، علامہ اقبال کو بُرا بھلا کہا اور پھر اُن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگے، تب بھی کام نہیں چلا۔ سندھی اجرک اور ٹوپی کو بھی آزما لیا، لیکن سندھیوں کے قریب نہ آسکے۔ مہاجر کا نعرہ کامیاب نہ ہوسکا۔ آپ پوچھیں گے کہ بنگالی اپنا ملک بنانے میں کیوں کامیاب ہوگئے تو وہ ایک وحدت تھے، زبان ایک تھی، مشرقی پاکستان کا دفاع مشکل تھا، دُنیا کی کوئی بھی فوج ایک ہزار میل سے اپنے علاقے کا دفاع نہیں کرسکتی، خاص طور پر جب اپنے ہی ہم وطن آپ کے دشمن ہوجائیں، یا آپ سے نالاں ہوں۔ ایک اور بات جس کا دبی زبان سے تو اظہار کیا جاتا رہا، لیکن کھل کر کچھ لوگ کہنے سے خوف زدہ تھے۔ ایم کیو ایم نے تشدد کی سیاست کو اپنایا جس کی اُسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔
ایک ایسی تنظیم جو اندر سے یقیناجمہوریت پسند تھی، لیکن باہر سے سخت گیر، وہ ایک دن بکھر ہی جاتی ہے۔ الطاف حسین کے ساتھی عظیم طارق، ڈاکٹر عمران فاروق نے کڑے وقت میں اُن کا ساتھ دیا، لیکن دونوں کی عزت نہیں کی گئی، وہ اس دُنیا میں نہیں رہے اور پھر ڈاکٹر فاروق ستار کی قربانیاں بھی کچھ کم نہیں تھیں۔ الطاف حسین ہر ایک کی بھری محفل میں بے عزتی کردیتے تھے، لیکن اُسی طرح اپنے لوگوں سے پیار بھی کرتے تھے۔ میں اُنہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔اُنہوں نے اپنی پوری زندگی پارٹی اور قوم کو سُدھارنے میں گزار دی لیکن اب ایم کیو ایم 3ٹکڑیوں میں بکھر گئی ہے، تباہی کے کنارے پہ پہنچ گئی ہے، اس کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ ایک ایسی پارٹی جو غریبوں کی ہمدرد تھی اور جس نے ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں کو زبان اور ہمت بخشی تھی، اُس کا یہ حشر پوری مہاجر قوم یا اُردو بولنے والوں کےلئے پریشانی کا باعث ہے۔ الطاف حسین کا غصہ اور زبان کا بے دریغ استعمال، بالآخر اُنہیں بہت مہنگا پڑا۔
اﷲ کا شکر ہے کہ پنجاب میں اور کسی حد تک پٹھانوں کی نظر میں بھی اُردو بولنے والوں کی بہت عزت و احترام ہے۔ وہ اُنہیں پڑھی لکھی، تہذیب یافتہ قوم مانتے ہیں۔اُردو بولنے والوں نے پاکستان کی ترقی میں بڑا تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ اگر کسی ایک فرد کی وجہ سے اُسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ زخم خود بہ خود مندمل ہوجائیں گے۔ اﷲ سے اُمید تو یہی ہے، لیکن پھر بھی میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ:
اے خاصہ¿ خاصانِ رُسُل وقت ِ دعا ہے
اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
******

شیئر: