Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دورہ آسٹریلیا ، پاکستانی ٹیم کو رینکنگ کا چیلنج

 
 دیکھنا یہ بھی ہے کیویز کے بعد کینگروز پاکستانی ٹیم سے سے کیا سلوک کرنے والے ہیں ، یو اے ای سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بدترین شکست دراصل ٹیسٹ ٹیم کی ناکامیوں کی بنیاد بنی 
 
 جمیل سراج ہاشمی۔کراچی 
 
پاکستان ٹیم کی کیویز کے دیس میں شرمناک شکست پر سب ہی حیرت دزہ ہیںجس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان وہ ٹیم ہے جسے دراصل عزت راس نہیں آتی، ابھی چند ہفتوں کی بات ہے جب ہند اور ویسٹ انڈیز کا سیریز کا تیسرا ٹیسٹ ڈرا ہونے پر پاکستان ہند کی جگہ رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر پہنچ گیا تھا جس پر اسے آئی سی سی نے نمبر ون ٹیسٹ ٹیم کا گرز بھی پیش کیالیکن پھر ہند کو اس کا نمبر ون بننا گویا ہضم نہیں ہوا اور اس نے جلد ہی بھر پور کوششوں کے بعد پھر سے نمبر ون پوزیشن ہتھیالی جبکہ پاکستان کو شارجہ میں کھیلے گئے یو اے ای سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بدترین شکست دراصل پاکستان کی تباہی کی بنیاد بنی جو نیوزی لینڈ میں پے در پے2 ٹیسٹ میں شکستوں کے باعث تنزلی کا شکار رہا اور دوسری پوزیشن سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور اب اس کا عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں چوتھا نمبر ہے اور دورہ آسٹریلیا کے دوران پاکستانی ٹیم کو اپنی رینکنگ مزید گرنے سے بچانے کا چیلنج بھی درپیش ہے ۔
سیریز کاپہلا ٹیسٹ ڈے نائٹ ہوگا ، کینگروز کے دیس میں ٹیم کا کیا حشر ہونے جا رہا ہے اس پر بھی مبصرین کی آراءسامنے ہے لیکن پہلے نیوزی لینڈ میں ان کے ساتھ کیویز نے جو سلوک کیا اس پر تنقیدوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ تا حال جاری ہے، سابق کرکٹرز، ماہرین کرکٹ اور قومی ٹیم سے سیکڑوں ناراض شائقین کے رد عمل سے یہی لگتا ہے کہ پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم اور اس کے سینئر ہوں یا جونیئر سب کے سب اپنی پرانی روش پر آگئے، بالخصوص دوسرے ٹیسٹ میں ہماری بیٹنگ لائن جس بری طرح ناکام ہوئی اس پر تو سر دیوار سے ٹکرانے کو چاہتا ہے، سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود، سابق ٹیسٹ لیگ اسپنر عبدالقادر، سابق چیف سلیکٹرزمحسن حسن خان، محمد الیاس، صلاح الدین احمدعرف صلو بھائی، سابق ٹیسٹ تیز بولر سرفراز نواز، سابق ٹیسٹ بیٹسمین سلیم ملک اور نظرانداز ہونے والے ٹیسٹ بیٹسمین عاصم کمال نے نمائندہ اردو نیوز سے گفتگو میں یہی کہا کہ نیوزی لینڈ میں ٹیسٹ سیریز کا ہارنا سمجھ سے بالا ترہے ،قومی بیٹسمین وہاں کے حالات کے مطابق کھیل پیش کرنے سے قاصر رہے ، انہیں سلو وکٹوں پر کھیلنے کا وسیع تجربہ ہے جس کاوہ متحدہ عرب امارات یا پھر انگلینڈ جیسی وکٹوں پر مظاہرہ کرتے رہے ہیں،سلووکٹوں پرکھیل کر خوب رنز اسکور کرنا ان کا گویا وطیرہ بن گیا جسے اعداد و شمار بھی درست ثابت کرتے ہیں، جبکہ نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز میں قومی کرکٹرز کی ایک نہ چلی، اچھے اچھے بھی گویا بہہ گئے ۔
یونس خان کی مثال سب کے سامنے ہے جو رنز اورسنچریوں کی تعداد کے اعتبار سے اس وقت پاکستان کے نمبر ون بیٹسمین بن چکے ہیں، انہوں نے رنز اسکور کرنے کی پیاس کہا ں تک بجھالی اس کا اندازہ ابھی نہیں لگایا جاسکتا ، لیکن موصوف دس ہزار رنز کا سنگ میل عبور کرنے کے قریب ترین ضرور ہیں ،دورہ نیوزی لینڈ سے قبل انہیں تین سوسینتیس رنز درکار تھے لیکن وہ ان چار اننگز میں صرف سولہ رنز کا ہی اضافہ کرسکے جس کی یہی وجہ تھی کہ انہیں بھی حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کاموقع نہ مل سکا ، بالفرض دو ٹیسٹ سے قبل واحد وارم اپ میچ اگر بارش کی نذر نہ بھی ہوتا تو اس تین روزہ میچ سے یونس خان یا دوسرے بیٹسمین خود کو کتنا تیار کرلیتے ، یہ تمام باتیں محض ناکامی پر پردہ ڈالنے
 کیلئے ہیںورنہ ٹیم کی ناکامی سے ان کا کوئی تعلق نہیں، ٹیم انتظامیہ ہو یا ہیڈ کوچ مکی آرتھر انہیں اپنے کھلاڑیوں کی ناکامی کو تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چایئے، انہیں نیوزی لینڈ سے بدترین شکست کو کھلے دل سے قبول کرلینا چاہئے، وہ ٹیم جو سیریز سے قبل رینکنگ میں ساتویں نمبر پر تھی پاکستان کو کلین سوئپ شکست دے کر چھٹے نمبر پر پہنچ گئی ۔ ہماری ٹیم انتظامیہ کو اس پر اپنی خامی مان لینی چاہئے تھی لیکن وہ ایسا نہ کرسکی، شکست کا سارا ملبہ باونسی وکٹوں اور قومی کھلاڑیوں کی ان حالات سے ہم آہنگ نہ ہونے پر ڈال دیا گیا، یہی ہمارا قومی المیہ ہے جسے ہم تسلیم کرنے سے کتراتے ہیں، دوسری مثال اسد شفیق کی کارکردگی ہے جنہوں نے چار اننگز میں مجموعی طور پر پچپن رنز اسکور کئے جو اپنے تجربات اور ٹیم میں اپنی حیثیت سے قطعی انصاف کرتے نظر نہیں آرہے اس لئے ان کی اس کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنانا درست ہے، قومی وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد بھی اس دورے میں اس کارکردگی کا ہرگز مظاہرہ نہ کرسکے جس کی ان سے توقع کی جاسکتی تھی، انہوں نے وکٹ کے پیچھے تو خاطر خواہ کارکردگی دی لیکن کریز پر بلے کے ساتھ ٹیم اور شائقین کو دھوکہ ہی دیتے رہے،کوئی قابل ذکر کارکردگی دینے میں ناکام رہے۔
مصباح الحق کی دوسرے ٹیسٹ میں عدم موجودگی کے باعث ان کی کچھ عزت رہ گئی ورنہ وہ بھی ناکام سینیئر کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ہوجاتے، جہاں تک تجربہ کارکافتتاحی بیٹسمین اور دوسرے ٹیسٹ میچ کے قائم مقام کپتان اظہر علی کی کارکردگی کی بات ہے تو وہ بھی ان چار اننگز میں بجھے بجھے رہے، کچھ قیادت کا دباو اور کچھ دیار غیر میں پہلی مرتبہ قومی ٹیم کو مشکل گھڑی کا سامنا ،اس لئے وہ بھی اپنی ناکامی کا دوش اسی مشکل کنڈیشنز کو دینے پر مجبور ہیں، جس کا انہوں نے دوسرے میچ کے اختتام پر برملا اعتراف بھی کیا،ان کا یہ کہنا کہ نیوزی لینڈ کی تیز و باونسی پچوں پر چونکہ ہمارے کھلاڑی کھیلنے کے عادی نہیںاس لئے دونوں اننگز میں وہ جلد آوٹ ہوئے، ان کے اس بیان کو مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا کہا جائے گا، یہ اور اسی طرح کے دیگر بیانات کے سامنے آنے سے پوری ٹیم کی جانب سے عام تاثر یہی لیا جائے گا کہ قومی کرکٹرز اپنی اس کمزوری پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرر ہے ہیں جو نیوزی لینڈ کی وکٹوں اور وہاں کے حالات میں انہیں کھیلنے میں پیش آئیں، ان مشکل حالات میں کوئی کھلاڑی وکٹ پر ٹھہر کر ، صبر و تحمل کے ساتھ بیٹنگ نہ کرسکا، سوائے بابر اعظم اور کسی حد تک سمیع اسلم کے جنہوں نے کچھ مزاحمت کی۔
دوسری طرف ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان کو نیوزی لینڈ کے مقابلے میں آسٹریلیا میں قدرے مختلف کنڈیشنز ملیں گی، وہاں کی وکٹیں تیز ہیں لیکن باونسی کم ہیں اس لئے اگر ہمارے بیٹسمین وکٹ پر رک کر اور مکمل احساس ذمہ داری کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کریں گے تو نتائج پر یقینا فرق پڑے گا، دوسر ی طرف شائقین کرکٹ یاناقدین کی نظر میں پاکستان ٹیم باصلاحیت تو ہے لیکن با عمل نہیں ہے، اس میں بنیادی کمزوریاں موجود ہونے کی وجہ سے عین اور اہم مواقع پر کرکٹرز اپنا کام نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے عالمی رینکنگ بھی خطرات سے دوچار ہے پہلی پوزیشن سے دوسری پھر چوتھی پر چلے جانا اس حقیقت کی واضح دلیل ہے، جس طرح برے کو برا نہ کہنا برائی کو فروغ دینے کے مترادف ہے بالکل یہی صورتحال پاکستان کرکٹ کلچر میں اب عام ہورہی ہے، ہم اپنی خامیوں ،کمزوریوں اور غلطیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے حالات اور دیگر امور کو اس کا سبب قرار دینے لگ جاتے ہیں جو کسی بھی طرح درست نہیں۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: