Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

بلاشبہ مکارمِ اخلاق کا حامل خواہ کوئی مسلمان ہو یا کافر ہو، یہ چیز اسے معاشرے میں ممتاز کر دیتی ہے
 
عبدالمالک مجاہد۔ریاض
 
 
میں نے کسی دانا کا ایک قول پڑھا تھا بلکہ انہوں نے اپنے قارئین کو مشورہ دیا تھا کہ آپ ہر روز قرآن کریم کا خواہ ایک صفحہ ہی سہی ،تلاوت ضرورکیا کریں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کا وقت گزرنے کے ساتھ قرآن سے تعلق کم ہو تا جا رہا ہے۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں کہ اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آپ نے آخری مرتبہ کب قرآن پاک کی تلاوت کی تھی؟ تو جواب میں کندھے اچکاتے ہوئے کہیں گے: یار !کافی دن گزر گئے ہیں، اب ٹھیک طرح سے یاد نہیں کہ کب تلاوت ہوئی تھی۔ وہ بڑے خوش نصیب لوگ ہیں جو ہر روز قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ اس پر تدبر اور غور و فکر کرتے ہیں۔
 
یہ دسمبر 2016کے پہلے ہفتے کی بات ہے کہ میں نے حسب معمول قرآن کریم کی تلاوت کرنا چاہی ۔ قرآن پاک کو کھولا تو سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 177سامنے آ گئی۔ میں نے اسے پڑھا اور پھر کتنی ہی بار پڑھتا چلا گیا۔ اس آیت کریمہ میں اسلام کی مبادیات سمیٹ کر رکھ دی گئی ہیں۔ میں تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معانی پر بھی غور کرتا چلا گیا۔ جس مسجد میں میں نماز پڑھتا ہوں وہاں میں نے مسجد میں ہی قرآن پاک کی تفسیر اور لفظی ترجمہ رکھا ہوا ہے ۔ میں نے اسے کھولا اور اس آیت کے مطالب اور معانی اور تفسیر پڑھتا چلا گیا۔ جب میں آیت کے ان الفاظ پر پہنچا  {وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ}  تو میں نے آنکھوں کو میچ لیا اور ایمان کی اہمیت وحقیقت پر غور وفکر کرنے لگا۔ ایمان کتنی بڑی قوت ہے، میں نے اس پرسوچنا شروع کردیا۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان میں سب سے بڑی نعمت کون سی ہے ؟ تو میرے نزدیک سب سے بڑی نعمت ایمان ہے۔ انسان کتنا ہی بڑے مرتبے والا کیوں نہ ہو۔ وہ کتنا اچھا کیوں نہ ہو، وہ کتنے ہی نیکی اور خیر کے کام کرتا رہا ہو۔ اگر اس کے پاس ایمان کی دولت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
 
ایمان کی قدر وقیمت کو سمجھنے کے لئے مجھے عبداللہ بن جدعان کا قصہ یاد آ رہا ہے۔ دین اسلام میں ایمان کی کیا اہمیت ہے اسے سمجھنے کے لئے یہ واقعہ نہایت ہی سبق آموز ہے۔ عبداللہ بن جدعان مکہ مکرمہ کا رہنے والا تھا۔یہ سیدنا ابوبکر صدیق کے والد ابو قحافہ کا چچا زاد بھائی تھا۔ بعثت نبویسے پہلے پیدا ہونے والا عبداللہ بن جدعان عرب کا بڑا مشہور سردار تھا۔ اس کی زندگی میں کتنے ہی تغیرات آئے ۔ایک وقت تھا کہ وہ بڑا فقیر اور کنگلا تھا۔اس کے پاس کوئی پائی پیسہ نہیں تھا۔ عبداللہ بن جدعان قریشی تھا اور اس کی مشہور شاخ بنو تیم سے تعلق رکھتا تھا ۔ یہ شخص بڑا ہی شرارتی اور خوش مزاج تھا۔ اسے نت نئی شرارتیں سوجھتی رہتی تھیں۔ اس کی شرارتوں اور غلط کاموں سے اس کے گھر والے ہی نہیں بلکہ قبیلہ والے، اہل محلہ اور مکہ کے باسی بھی سخت تنگ تھے حتیٰ کہ اس کا والد بھی اسے ناپسند کرتا تھا۔ ایسا سمجھ لیں کہ یہ اپنے گھر والوں کی ملامت اور زجروتوبیخ سے تنگ آ چکا تھا اور اس کے گھر والے اس کی حرکتوں اور شرارتوں سے ناراض رہتے تھے۔ ایک دن اس نے سوچا میرے گھر والے اور اہل مکہ مجھ سے بڑے تنگ ہیں، اگر مجھے موت آ جائے تو میرے لیے کہیں بہتر ہوگا۔ اب موت کیسے آئے؟ اس نے چند لمحے سوچا اور پھر جبل ثور کی جانب چل دیا۔ گھاٹیوں میں سے گزر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک غار پر پڑی ۔ سوچا ممکن ہے اس غار میں کوئی موذی جانور ہو جو مجھے ڈس لے اور میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں ۔ چنانچہ اس نے جان بوجھ کر اس غار کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ غار کے قریب پہنچا تو اسے ایک اژدہا نظر آیاجس کی 2 چمکتی آنکھیں دور سے نظر آرہی تھیں۔ یوں لگ رہا تھا وہ اژدہا اس پر حملہ کرنے ہی والا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بلا خوف و خطر اس کی طرف آگے بڑھا۔ وہ اژدہا کی جانب بلا توقف چلتا گیا۔ اسے تعجب ہوا کہ اژدہا اپنی جگہ پر ساکت ہے۔
 
 اژدہا کے مزید قریب ہوا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ اژدہا تو سونے کا تھا۔ اس کی چمکتی آنکھوں کی جگہ یاقوت لگے ہوئے تھے جن کی روشنی اسے دور سے نظر آئی تھی۔ غار میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ وہاں بنو جرہم کی قبریں تھیں۔ ان کے سرہانے سونے کا تخت تھا، جب بر بنو جرہم کے بادشاہوں کی تاریخ وفات اور ان کی مدت حکومت کی تفصیل لکھی ہوئی تھی۔ قبروں کے آس پاس اسے سونے چاندی کا انبار نظر آیا۔ اسے سمجھ آ گئی کہ بنو جرہم نے صدیوں مکہ پر حکومت کی تھی۔ بیت اللہ شریف کے وہ مجاور بھی تھے ۔ اس لیے پورے عرب سے لوگ بیت اللہ کے لئے تحفے لے کر آتے تھے۔ یہ سونا اور چاندی وہی جمع شدہ عطیات تھے۔ ایک وقت آیا جب مکہ کی تولیت قریش نے سنبھالی بنو جرہم کو مکہ سے نکلنا پڑا تو انہوں نے اس غار میں اپنے خزانوں کو چھپا دیا۔ غالباً وہ اپنے بڑوں کی قبریں بھی یہیں لے آئے تھے۔ اس نے ایک قبر پر حارث بن مضاض کے نام کا کتبہ دیکھا۔ ایک طویل عرصہ پہلے یہ غائب ہو گیا تھا تلاش کے باوجود کسی کو بھی اس کا علم نہ تھا کہ وہ کدھر غائب ہو گیا ہے۔ آخر وہ کدھر چلا گیا اسے آسمان نے اچک لیا یا زمین کھا گئی۔
 
قارئین کرام! عموماً ایسا ہوتا ہے کہ شرارتی آدمی بڑا ذہین ہوتا ہے۔ عبداللہ بن جدعان نے اژدہا کو توڑا اس کی آنکھوں کے یاقوت نکالے اور غار میں داخل ہو گیا۔ اپنی جیبوں کو سونے اور جواہرات سے بھرا۔ غار کو اچھے طریقے سے بند کیا۔ اس پر نشانی لگائی اور مکہ واپس آ گیا۔ آہستہ آہستہ سونے کو فروخت کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مکہ کا امیر ترین آدمی بن گیا۔ اس کے ہاتھ میں دولت آئی تو اس نے اسے خلق خدا کی بھلائی کے لئے خرچ کرنا شروع کیا۔ اس کی فیاضی اور سخاوت کے بہت سارے واقعات تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کر رکھے ہیں۔ اب وہ شرارتیں بھول کر اپنی قوم کی خدمت میں لگ گیا۔ یہ اللہ کے رسولکی بعثت سے پہلے کے واقعات ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ جب اسے معلوم ہوتا کہ فلاں شخص اپنی بیٹی کو زمین میں زندہ دفن کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کے گھر چلا جاتا اس سے کہتا:میرے عزیز! اپنی بیٹی میرے حوالے کر دو۔ میں اسے پالوں گا، اپنی بیٹی بنا کر رکھوں گا، جب یہ بڑی ہو جائے گی تو اس کی شادی کردوں گا۔ تم اسے زندہ دفن نہ کرو۔ اس طرح نجانے اس نے کتنی بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا۔ وہ بڑے بوڑھوں کو کھانا کھلاتا۔ لوگوں کی ضروریات پوری کرتا۔ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں قحط پڑ گیا تو اس نے دو ہزار اونٹ شام سے منگوائے ان پر گندم، شہد اور گھی لدا ہوا تھا۔ اس نے کھانا پکوا کر لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ ایک بہت بڑی دیگ بنوائی۔ وہ دیگ اتنی بڑی تھی کہ اس میں سے کھانا نکالنے کے لئے سیڑھی لگانا پڑتی تھی۔ بعض اوقات اونٹ پر سوار شخص اونٹ پر بیٹھے بیٹھے اس میں سے کھانا نکال کر کھا لیتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک بچہ اس دیگ میںگر گیا تو وہ اسی میں غرق ہو گیا۔ النہایہ فی غریب الحدیث میں ایک روایت ہے کہ اللہ کے رسول فرماتے ہیں: میں عبداللہ بن جدعان کی دیگ کی چھاؤں میںآرام کیا کرتا تھا۔
 
(مکمل مضمون روشنی 9دسمبر کے شمارے میں ملاحظہ کری)
 

شیئر: