Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ب پارٹی

 
 دنیابھر میں جتنی جماعتیں بنائی جاتی ہیں، انکے کچھ مقاصد ہوتے ہیں مگر ہماری جماعت ”ب مقصد“ ہے کیونکہ ہمارے منشور کے ہر نکتے کےساتھ ”بے“ کا سابقہ موجود ہوگا
 
شہزاد اعظم
 
کئی دہائیوں قبل کا زمانہ تھا،8ویں جماعت تھی اور نجی اسکول تھاجو محض پیسہ کمانے کےلئے کاروباری بنیادوں پرکھولا گیا تھا چنانچہ وہاں داخلہ لینے کےلئے کسی ”اینٹری ٹیسٹ“ کی ضرورت نہیں تھی، بس بھاری بھرکم فیس دینی پڑتی تھی۔ جو فیس بھر دے ، وہ اسکول کا مستند طالب علم اور جو فیس نہ دے سکے، اس پر اسکول کے دروازے بند۔وہاں جتنے بھی طلبہ و طالبات تھے ، سب” کھاتے ”پیتے“ گھرانوں“ کے تھے بس ایک ہم ہی تھے جو صرف ”کھاتے گھرانے “سے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ اس اسکول میں لٹنے والے معصوموں کی اولادیں بھی زیر تعلیم تھیں اور لوٹنے والے ڈاکوﺅں کی بھی۔اس میںقاتلوں کی لڑکیاں بھی پڑھتی تھیں اور مقتولین کی بچیاں بھی،راشیوں کے بیٹے بھی لکھنا پڑھنا سیکھ رہے تھے اور مرتشیوں کے صاحبزادگان بھی پڑھ لکھ رہے تھے،اسمگلروں کی نسل بھی حصولِ علم کےلئے وہاں آتی تھی اور نسلِ تجار بھی انہی مشاغل میں مصروف دکھائی دیتی تھی۔ قصائیوں کی صاحبزادیا ںبھی وہاں ناخواندگی مٹانے آتی تھیں اور ڈاکٹروں کی ڈاٹرز بھی خواندگی سمیٹنے کےلئے موجود ہوتی تھیں۔اس اسکول میںہمارے چار ”زندگیوں“ سے ہمارے روابط مستحکم ہوئے۔ ان میں ایک علاقے کے ”نامی گرامی ڈاکو“ کے فرزندِ ارجمند تھے، دوسری معروف راشی کی نورِ چشم تھی، تیسری ایک ”ٹارگٹ کلر“ کے جگر کا ٹکڑا تھی اور چوتھا گمنام اسمگلر کے خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ان چاروں کی دوستیاں ، وفاداریاں اور قربتیں مثالی تھیں۔ اس ”چوکھٹے“ میں ہماری حیثیت کسی ”پھندنے“ کی سی تھی۔ یہ ”چوکھٹا“ جہاں بھی جاتا، ہمیں بھی کھینچ لیتا۔وہ چاروں مختلف قسم کی سرگرمیوں میں مصروف رہتے اور ہم عضوِ معطل کی طرح ان کے ہمراہ موجود ہوتے۔وقت گزرتا گیا،وقت کے سیمنٹ نے اس ”چوکھٹے“ کے باہمی ارتباط کو ایسا استحکام بخشا کہ میٹرک پاس کرتے ہی ڈاکو کے فرزند کا نکاح ، راشی کی نورِ چشم سے اور ٹارگٹ کلر کی بیٹی کا نکاح ، اسمگلر خاندان کے چشم و چراغ سے پڑھا گیا۔ ہم نے بطور پھندنا ، دونوں کے نکاح میں شرکت کی۔ اتفاق دیکھئے کہ11ویں ا ور 12ویں جماعت پاس کرنے کےلئے بھی ہم پانچوں ایک ہی کالج میں داخل ہوگئے ۔ وہ جمہوری دور تھاچنانچہ کوئی اس قابل تھا یا نہیں تھا، ہر کس و ناکس کو تحریر و تقریر کی مکمل چھوٹ تھی ۔ان چاروں نے اس” جمہوری بے لگامی “کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک سیاسی جماعت بنائی ا وراس کا نام ”ب پارٹی “ رکھا۔ ہم نے ان چاروں سے استفسار کیا کہ یہ ”ب“ سے کیا مراد ہے؟ یہ سن کر ڈاکو کے فرزند نے ہمیں غراتے ہوئے دیکھا اور کہا کہ ”ب“ ہماری پارٹی کے منشور کی بنیاد ہے ۔ دنیابھر میں جتنی بھی جماعتیں بنائی جاتی ہیں، ان کے کچھ نے کچھ مقاصد ہوتے ہیں مگر ہماری جماعت ”ب مقصد“ ہے کیونکہ ہمارے منشور کے ہر نکتے کے ساتھ ”بے“ کا سابقہ موجود ہوگا ۔ ہم اپنے معاشرے میں منفی سوچ رکھنے والوں کو یکجاءکرنے کا کام کریں گے۔ انہیں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کریں گے جہاں وہ بلا خوف و خطر” انتہائی معیاری گھٹیا پن“ کا مظاہرہ بآسانی کر سکیں۔ہم بحیثیت ”پاکستانی انسان“ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں ”بے شرمی،بے نرمی، بے حیائی، بے وفائی،بے غیرتی ، بے عزتی، بے قاعدگی،بے ضابطگی، بے پروائی ،بے اعتنائی ، بے کاری، بے یاری، بے رحمی، بے فہمی، بے دردی، بے قدری جیسے منفی عوامل و علل کے حامل ہم وطنوں کو اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کی چنداں اجازت نہیں۔پاکستانی معاشرے میں ان لوگوں کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں”مجرم“ تصور کیاجاتا ہے ۔ ہم انہیں اپنی پارٹی کی رکنیت اختیار کرنے کی دعوت دیں گے اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کریں گے۔
ہم پھندنے کی شکل میںوہاں بیٹھے اُس ”چوکھٹے“ کی باتیں بغور سنتے رہے اور پھرکھلکھلا کر ہنسے اور کہا کہ آپ ایسی ”بے سیاسی“ جماعت بنا رہے ہیں، اس وطن پاک میں آپ کو اپنا ہمنوا کوئی نہیں ملے گا۔ یقین جانئے، یہ چوکھٹا بھی مکمل نہیں رہے گا،اس میں چار سے 3اور 3سے 2 ارکان رہ جائیں گے۔اس نیک کام کی ابتدا کرتے ہوئے ہم آج کے بعد آپ سے ناتہ توڑ رہے ہیں کیونکہ ہم ایسی کسی منفی سرگرمی کا حصہ بننے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے جو ہمارے وطنِ عزیز کی سا لمیت و حاکمیت،عظمت و رفعت، عزت و حشمت،وقار و قرار، احترام و احتشام، آن، شان یا نظریہ¿ پاکستان کے خلاف ہو۔ہماری باتیں سن کر ”تخمِ ڈاکو“ بولا کہ یہ تمہاری بھول ہے کہ ہمارے ارکان کی تعداد میں کمی ہوتی جائےگی۔ یاد رکھنا جس ملک میں پولیس قاتلوں کو پکڑ کر رشوت لے کر چھوڑ دیتی ہو، جہاں قانون کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار خود قانون سے کھلواڑ کرے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہ ہو، جہاں نقلی دوائیں بناکر لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے والوں کےخلاف کوئی کارروائی نہ ہوتی ہو، جہاں مقتول کی بیوہ کو مقدمہ واپس لینے کی دھمکیاں دی جائیں اور قاتلوں کےخلاف آواز اٹھانے والے کو ہمیشہ کے لئے خا موش کر دیاجائے، جہاں ملک و قوم کا خزانہ اپنی خواہشات کے ”روزنِ اسود“ یعنی ”بلیک ہول“میں سمیٹنے والے کوکیفرِ کردار تک پہنچانا ناممکن ہواور اس کےلئے کوششیں کرنےوالے کا تمسخر اڑایاجائے، جہاں چور کو خزانے کی حفاظت پر مامور کر دیاجائے، جہاں جاہل کو ناخواندگی کے انسداد کی مہم سونپ دی جائے ۔ جہاں ہیروئنچی کو ”انسداد منشیات “ کی ذمہ داری سونپ دی جائے ،اُس معاشرے میں تم جیسے ”پھندنوں“ کےلئے کوئی جگہ نہیںرہے گی۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ ہم بھی یہیں ہیں، تم بھی کہیں نہ کہیں ہوگے، دیکھ لینا ہماری ”ب پارٹی“ اس نقار خانے میں کیسا حشر ”ب پا“ کرے گی اور تم کسی طوطی کی طرح چلاتے رہوگے مگر تمہاری کوئی نہیں سنے گا۔
ہم اُس چوکھٹے کے سرخیل کی گفتگو سن کرانہیں ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ کر چلے آئے ۔پھر 17برس وطن میں گزرے اور 23واں سال پردیس میں گزر رہاہے ۔یوں اس ”ب پارٹی“ سے دور ہوئے ہمیں 40برس بیت چکے ہیں۔ہم خوش تھے کہ”ب پارٹی“ اپنے منشور کو عام کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔وہ دونوں جوڑے اپنی ”بد خواہیوں“سمیت گمنامی کی دلدل میں دھنس چکے ہوں گے۔ کوئی ان کی صدا سننے والا نہیں ہوگامگر پھر یوں ہوا کہ :
گزشتہ دنوں ہم وطن میں تھے۔ایک روز موٹر سائیکل پر جارہے تھے کہ ہمیں شہر کی ایک مصروف شاہراہ پر داخلے سے روک دیا گیا۔ ہم نے وہاں موجود با وردی اور”ب وردی“ افراد سے دریافت کیا کہ معاملہ کیا ہے؟ جواب ملا کہ کچھ لوگوں نے سڑک بند کر رکھی ہے اور وہ ایسے نعرے لگا رہے ہیں جو اس پاک سرزمین پر نہ تو پہلے کسی نے سنے اور نہ سنائے، یہ لوگ اپنے آپ کو بے حسی، بے قدری، بے پروائی، بے اعتنائی ، بے وفائی، بے غیرتی اور بے حیائی کا علمبردار کہہ رہے ہیں۔ ہم موٹر سائیکل سے اتر کر پیدل ہی اس جھمیلے میں گھس گئے ۔ وہاں وہی ڈاکو زادہ مخالفانہ نعرے مار کرلوگوں کو گمراہ کر رہا تھا۔ اس نے کہا کہ آج وہ ”پھندنا“اگر زندہ ہے تو آ کر دیکھ لے کہ یہ نظام ہماری ”ب پارٹی“کا نقار خانہ ہے اور تمہاری حیثیت ایک نحیف و نزار طوطی سے زیادہ نہیں۔ یہ سن کر ہماری دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دل میں ”راحلانہ خواہش“ نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا کہ وہ دن دور نہیں جب یہ طوطی، عقاب بن کر معاشرے کو منفیت سے پاک کر دینگے۔ 
******

شیئر: