Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ازبکستان کے جمہوری صدارتی انتخابات

جمہوریت کے میدان میں نو آموز قوم نے ترقی یافتہ اقوام کیلئے سیاسی عمل کی مثال قائم کر دی ، انتخابی عمل کی شفافیت پر کسی کو اعتراض نہیں تھا

 

ارسلان ہاشمی ۔ جدہ

جمہوریہ ازبکستان کے پہلے صدر اسلام کریم آف کے انتقال کے بعد الیکشن کمیشن آف ازبکستان کی جانب سے ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کا اعلان کیا گیا جس کے ساتھ ہی انتخابی مہم کیلئے مرتب شدہ قوانین کے مطابق صدارتی انتخابا ت کی امیدوار پارٹیوں کا انتخاب اور اندراج کا عمل شروع ہوا ۔ انتخابات 2016 کیلئے 4 پارٹیاں میدان میں تھیں جن میں ڈیموکریٹک پارٹی آف ازبکستان ( ملی تیک لانیش ) جس کے امیدوار سرور آتا مور ، لیبرل ڈیموکریٹک پارٹی آف ازبکستان جس کے امیدوار عبوری صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم شوکت مزاآف ۔ تیسری جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف ازبکستان کے امیدوار حاتم جان کیتمنوآف جبکہ چوتھے اور آخری صدارتی امیدوار سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ( عدالت ) کے نریمون عمر آف تھے۔

ازبک الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی عمل کو شفاف بنانے کیلئے قواعد مقرر کئے گئے جن پر عمل کرنا ہر ایک کی ذمہ داری تھی ۔ قوانین کے مطابق انتخابی مہم کے دوران جو 3 ماہ پر مشتمل تھی تمام سیاسی پارٹیوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنے منشور سے عوام کو مطلع کریں اور رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کیلئے وسائل ذرائع و ابلاغ کا استعمال کریں ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی پارٹیوں کو انتخابی مہم کیلئے یکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے مثالی پروگرام مرتب کیا گیاتھا جس میں ہر پارٹی کو قومی اور نجی ٹی و ی اور ریڈیو کے علاوہ قومی و نجی اخبارات اور رسائل میں یکساں مواقع اور اوقات مقرر کئے گئے تھے ،یہاں تک کہ پارٹی کا منشور بھی ایک ہی طرز پر چھاپنے کی سختی سے ہدایت تھی۔ منشور میں لگائی جانے والی پارٹی سربراہ کی تصویر کا سائز بھی یکساں ہونا لازمی تھا ۔ پورے ملک میں یکساں انتخابی مہم شروع کی گئی ۔ انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھاکہ سیاسی پارٹیوں کے امیدوارں کے پوسٹر مساوی انداز میں ایک ساتھ چسپاں کئے جائیں ۔

ازبکستان ک قوانین کے مطابق مذہب کے نام پر سیاسی جماعت بنانے کی سختی سے ممانعت ہے ۔ دینی مدرسے کے ایک طالبعلم سے دریافت کرنے پر اس کا کہنا تھا کہ" یہاں ہمیں ہر قسم کی آزادی ہے۔ جو مسجد میں جانا چاہے اس کیلئے مساجد کھلی ہیں تو دوسری طرف جو کلب کا رخ کرنا چاہے اس پر کسی قسم کی قدغن نہیں البتہ مذہبی منافرت پھیلانا سخت جرم ہے۔ کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی اور کے عقائد کا تمسخر کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پرسکون زندگی گزاررہے ہیں "۔ ازبکستان کی مجموعی آبادی 31 ملین ہے۔ موجودہ انتخابات میں جو 4 دسمبر 2016 کو منعقد ہوئے 21 ملین سے زائد رجسٹرڈ ووٹر تھے جن میں سے 17 ملین سے زائد افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کا دن مقرر کرنے سے قبل سب سے زیادہ اس بات کا خیال رکھا گیا کہ الیکشن والے دن ملک میں موسم کیسا ہو گا ۔محکمہ موسمیات کی رپورٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے 4 دسمبر کا دن مقرر کیا گیا۔ اس ہفتے ملک میں برف باری کا امکان نہیں تھا البتہ کہیں کہیں موسم آبر آلود رہنے کی پیشنگوئی تھی ۔ ووٹنگ کیلئے الیکشن کمیشن نے وقت میں بھی اضافہ کر دیا تھا جس کے مطابق ملک کے طول و عرض میں ووٹنگ کا آغاز صبح 6 بجے ہوا جو رات کے 8 بجے تک جاری رہی۔ ووٹنگ بند ہونے کے فوری بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہوا ۔ ہر حلقے کے پولنگ اسٹیشن کو یہ ہدایت تھی کہ وہ گنتی کے عمل کو شفاف بنانے کیلئے تما م سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو شریک کریں اور اگرانہیں کسی بات پر اعتراض ہو تو اسے تحریری شکل میں ریکاڈ کیا جائے ۔

ووٹوں کی گنتی کے وقت بین الاقوامی میڈیا اور مختلف ممالک سے آنے والی حقوقِ انسان کی ٹیموں کے نمائندوں کو اس بات کا اجازت تھی کہ وہ مکمل آزادی سے جس پولنگ اسٹیشن میں جانا چاہیں انہیں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہو گا ۔ ووٹوں کی گنتی کے وقت تاشقند کے متعدد پولنگ اسٹیشنز کے دورے کے دوران وہاں موجود مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے دریافت کرنے پر ہر ایک نے مکمل اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا: انہیں کسی قسم کا اعتراض نہیں ۔ووٹنگ اور گنتی کا عمل مکمل شفاف ہے ۔ راقم نے مختلف سیاسی پارٹیوں کے ایجنٹوں سے علیحدگی میں بھی گفتگو کی اس خیال سے کہ شاید و ہ سب کی موجودگی میں کسی قسم کے دباؤ کا شکار ہو ں مگر ان کا یہی کہنا تھا کہ وہ انتخابی عمل سے مطمئن ہیں اور وہ کسی قسم کے دبائو میں نہیں ۔ ازبکستان کی تاریخ سے آشنا لوگ اس ملک کو جمہوریت میں نووارد کہتے ہیں تاہم موجودہ انتخابات نے یہ ثابت کر دیا کہ جمہوریت میں نو آموز قوم نے جمہوری اور سیاسی عمل کی علمبردار اقوام کیلئے مثال قائم کر دی ۔ کمیونسٹ دور میں دنیا سے کٹ کر رہنے والی 3 نسلوں نے جو ظلم و جبر کی زندگی گزاری وہ الگ داستان ہے تاہم موجود سیاسی عمل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ازبک قوم میں مکمل طور پر سیاسی شعور اور آگاہی موجود ہے جو کسی بھی ترقی یافتہ قوم سے کم نہیں ۔

شیئر: