Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نوٹوں کی منسوخی کا اثر

حکومت عوام کو کسی بھی قسم کی راحت پہنچانے میں ناکام ہے، اب اس کے اثرات دیگر ممالک کے سفارتی رشتوں پر بھی پڑنے شروع ہوگئے ہیں

 

معصوم مرادآبادی

بڑے کرنسی نوٹوں کی منسوخی کے بعد پورے ملک میں ہر طبقے کو مصیبت جھیلنی پڑرہی ہے۔بینکوں اور اے ٹی ایم مشینوں پر آج بھی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ ایک طرف جہاں عام آدمی نوٹوں کی منسوخی کا عذاب جھیل رہا ہے، وہیں دوسری طرف نئی دہلی میں تعینات سفارتی اہلکار بھی نقدی کی کمی سے بے حد پریشان ہیں۔

نئی دہلی میں قائم 157غیر ملکی سفارتکاروں کی تنظیم کے سربراہ نے حکومت ہند کو متنبہ کیا ہے کہ نقدی نکالنے پر عائد کی گئی بندشیں ویانا کنونشن کی ’’سنگین خلاف ورزی‘‘ ہیں ۔ اگر حکومت نے سفارت کاروں کو راحت نہیں پہنچائی تو ان کے ممالک میں تعینات ہندوستانی سفارت کاروں پر بھی اسی قسم کی پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں وزیرخارجہ سشما سوراج اور پروٹوکول چیف کو خط لکھ کر پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انفرادی طورپر بینکوں سے نقدی نکالنے کی مقررہ حدسے سفارت کاروں کو جو پریشانیاں پیش آرہی ہیں اس کااندازہ نئی دہلی میں موجود روسی سفارت خانے کے بیان سے بھی ہوتا ہے ۔ روس کا کہنا ہے کہ نوٹوں کی منسوخی کی وجہ سے دہلی میں اس کے سفارت کاروں کو نقد رقم کی زبردست قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

واضح رہے کہ نئی دہلی میں قائم وسیع تر روسی سفارت خانے میں تقریباً دوسوافراد کام کرتے ہیں، جو اس وقت نقدی کے بحران کی وجہ سے اپنے روزمرہ کے امور انجام دینے میں پریشانیوں سے دوچار ہیں۔ ایک نیوز چینل کے مطابق روسی سفارت خانے کے ذرائع نے 8نومبر کو نوٹوں کی منسوخی کے بعد سے سفارت خانے کی طرف سے ہفتے بھر میں زیادہ سے زیادہ50ہزارروپے نکالنے کی حد طے کئے جانے کو بین الاقوامی چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں روسی سفارت کار الیگزینڈر کداکن نے 2دسمبر کو نئی دہلی میں وزارت خارجہ کو ایک خط لکھا تھا اور اس پر جواب کا انتظار کررہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ روسی حکومت نوٹوں کی منسوخی پر احتجاج درج کرنے کے لئے ماسکو میں ہندوستانی سفیر کو طلب کرسکتی ہے۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے یہ بھی کہاکہ جوابی کارروائی کے طورپر روس میں تعینات ہندوستانی سفارتی عملے پر بالکل اسی قسم کی پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔ کداکن نے اپنے مکتوب میں مزید لکھا ہے کہ حکومت کی طرف سے طے کی گئی یہ حد سفارت خانے کے آپریشن کے اخراجات کے لئے قطعی طورپر ناکافی ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اتنے پیسے تو ایک ٹھیک ٹھاک سے عشائیہ کا بل ادا کرنے کے لئے بھی کافی نہیں۔ روسی سفیر نے یہ سوال بھی پوچھا کہ دہلی میں اتنا بڑا سفارت خانہ نقد رقم کے بغیر کس طرح کام کرسکتا ہے۔ واضح رہے کہ حکومت نے کسی بھی کرنٹ اکاؤنٹ سے ہفتہ میں ایک بار صرف50 ہزار روپے نکالنے کی حد مقرر کررکھی ہے۔ اس طرح سیونگ اکاؤنٹ سے ہفتہ میں ایک بار 24ہزار روپے نکالے جاسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ وزارت خزانہ نے روسی حکومت کے اس اعتراض پر سرکاری طورپر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ نوٹوں کی منسوخی کے بعد سفارت خانے اور غیر ملکی شہریوں اور سیاحوں کو لاحق پریشانیوں کے حل کے لئے تشکیل دی گئی ٹیم کی سفارشات کا انتظار کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے اچانک 500 اور ہزار کے نوٹوں کو متروک کئے جانے کے بعدعام لوگوں کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود سفارت کاروں اور غیر ملکی سیاحوں کو شدید دشواریوں سے دوچارہونا پڑا ہے۔ اس فیصلے کا اثر سیاحت کے شعبے میں صاف نظر آرہا ہے اور تاج محل جیسے دنیا کے آٹھویں عجوبے پر ان دنوں سیاحوں کی برائے نام تعداد نظر آتی ہے۔

اتنا ہی نہیں ملک کے دیگر سیاحتی مقامات پر بھی سناٹا چھایا ہوا ہے اور سیاحت کے شعبے سے وابستہ افراد فاقہ کشی کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ ملک میں نوٹوں کی منسوخی کے بعد جو عمومی صورت حال پیدا ہوئی ہے ، اس سے کوئی بھی بے خبر نہیں ۔ بینکوں میں نقدی کی زبردست کمی ہے جبکہ بینکوں کے باہر ضرورت مندوں کی طویل قطاریں جوں کی توں برقرار ہیں۔ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے کہ لوگ اپنی ہی رقم بینکوں اور اے ٹی ایم سے نکالنے میں ناقابل بیان دقتوں اور پریشانیوں کا سامنا کررہے ہیںلیکن حکومت ان تمام حالات سے چشم پوشی کی روش پر گامزن ہے۔خود وزیراعظم نریندرمودی عام لوگوں کی پریشانیوں اور ناقابل بیان مشکلات کا کوئی حل پیش کرنے کی بجائے انہیں مضحکہ خیز مشورے دے رہے ہیں۔

یہاں تک کہ لوگوں کو امانت میں خیانت اور بے ایمانی کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس پر مناسب تبصرے کے لئے الفاظ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ملک کی تاریخ میں اس نوعیت کا کرنسی بحران کبھی پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی عوام کو ایسی ناقابل بیان دشواریوں سے گزرنا پڑا۔ مرکزی حکومت نے گزشتہ 8 نومبر کو 500 اور ہزار روپے کے نوٹوں کو منسوخ کرنے کا جب اعلان کیا تھا تب ملک میں تقریباً 86 فیصد نقدی چلن سے باہر ہوگئی تھی۔ تبھی سے لوگوں کو نقد رقم کی زبردست قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ حکومت نے پرانے کرنسی نوٹوں کو بینکوں میں جمع کرنے کی جو چھوٹ دی تھی اس میں اتنی پابندیاں اور قانونی اڑچنیں لگادی گئی ہیں کہ لوگ اس رقم کو بینکوں تک لے جانے میں ہچکچاہٹ محسوس کررہے ہیں۔ بینکوں میں جمع رقومات نکالنے کے لئے جو حد مقرر کی گئی ہے، وہ اتنی ناکافی ہے کہ لوگ اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات سے دوچار ہیں۔ ملک میں بے روزگاری بڑھتی چلی جارہی ہے اور غیر منظم شعبے کے مزدور فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ حکومت نے عوام کو راحت پہنچانے کے لئے اب تک متعدد مرتبہ قانونی ضابطوں میں تبدیلی کی ہے۔ اس قسم کی تبدیلیوں سے عوام کو راحت ملنے کی بجائے پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ملک کے بیشتر حصوں میں اس وقت شدید سردی کا موسم ہے اور لوگ بینکوں کی قطاروں میں لگنے کے لئے رات کی تاریکی میں شدید سردی کے دوران کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بیشتر بینکوں کا حال یہ ہے کہ وہاں جب لمبے انتظار کے بعد کسی ضرورت مند کا نمبر آتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ بینک میں کیش ختم ہوگیا ہے۔ ملک کے 75فیصد اے ٹی ایم بیکار پڑے ہیں۔ نقدی حاصل کرنے کی جدوجہد میں اب تک تقریباً 100افراد کی موت ہوچکی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود عوام کو کسی بھی قسم کی راحت پہنچانے میں ناکام ہے اور اب اس کے اثرات ہندوستان کے ساتھ دیگر ممالک کے سفارتی رشتوں پر بھی پڑنے شروع ہوگئے ہیں۔

شیئر: