Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خلیجی ممالک ،مسلم امہ کی پناہ گاہ

ابلتے ہوئے خطے میں استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اپنا سکہ منوایاجائے، اس کے لئے محض معاشی قوت پر تکیہ کرنا کافی نہیں

 

عبد الستارخان

الجزیرہ چینل کے ممتاز صحافی فیصل القاسم نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے جو بات کہی ہے وہ ناقابل تردید حقیقت ہے۔ کاش میں ان کی پوری بات یہاں نقل کرسکتا مگر میں ایسا کرتا ہوں کہ فیصل القاسم کی آدھی بات نقل کرسکتا ہوں۔ انہوں نے ٹویٹر پر کہا کہ’’ جب سوویت یونین ٹوٹ گیا توایران وہ ملک تھا جس کی توجہ روسی سائنسدانوں کی طرف گئی۔ اس نے روسی سائنسدانوں کو ناقابل یقین مراعات دے کر اپنے ہاں بلالیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہواآج ایران ایٹمی قوت بن گیا ۔ اس کے بالمقابل عربوں نے کیا کیا……‘‘قارئین سے معذرت! آدھی بات مکمل ہوگئی، باقی آدھی حذف سمجھی جائے۔ گزشتہ ہفتہ خلیج کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ بحرین میں خلیجی ممالک کی سربراہ کانفرنس اور اس سے پہلے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کا دورہ خلیجی ممالک ، دونوں غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے۔

شاہ سلمان بن عبد العزیز نے امارات، قطر، بحرین اور کویت کا دورہ ایسے وقت میں کیا ہے جب نہ صرف خلیجی ممالک کو بلکہ پورے خطے کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔جزیرہ عرب کے شمال میں داعش ، شام کا مسئلہ، جنوب میں یمن اور حوثی باغی، لیبیا کے مسائل، دہشت گردی کا عفریت، سیاسی مسائل کے علاوہ معاشی مسائل، پٹرول کی قیمتیں، تیل کا پیداواری حصہ،ایران کی ضد اور ہٹ دھرمی اور ان تمام امور پر مستزاد خلیجی ممالک میں انتشار پیدا کرنے کی مذموم کوششیں۔ ان تمام چیلنجز سے کیسے نمٹا جائے، بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر حالات کا مقابلہ کیسے کیا جائے، یہ وہ اہم اور بنیادی مسائل تھے جو خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز دورہ خلیجی ممالک میں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

دنیا کے سنی مسلمانوں کا واحد اور مضبوط قلعہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک ہیں۔ موجودہ سیاسی اور معاشی حالات کے پیش نظر صرف سعودی اور خلیجی شہریوں کو ہی جی سی سی ممالک کی صورت میں واحد پناہ گاہ نظر آرہی بلکہ دنیا کے سنی مسلمانوں کی وحدت، بقاء ، قوت اور استحکام کا آخری مرکز خلیجی ممالک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بحرین میں منعقد ہونے والی جی سی سی ممالک کی سربراہ کانفرنس نہ صرف اہمیت کی حامل تھی بلکہ شاہ سلمان کا دورہ خلیجی ممالک بھی اتنا اہمیت کا حامل تھا۔جی سی سی ممالک کی سربراہ کانفرنس میں برطانوی وزیراعظم کی شرکت بھی کئی معانی کی حامل تھی۔ خلیجی ممالک اب نئے حلیف تلاش کرنے میں زیادہ آزادی محسوس کر رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا ایک نئے بلاک سے متعارف ہو۔ ایک ایسا بلاک جو دنیاکا مضبوط ترین اور مستحکم ترین بلاک شمار کیا جاتاہو۔ خلیجی ممالک کے درمیان ایک طرح سے اتحاد پہلے سے ہی قائم ہے تاہم اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں بعض سیاسی اور بین الاقوامی مسائل کی وجہ سے بعض اوقات خلیجی ممالک کے زاویہ نگاہ میں فرق واقع ہوجاتاہے۔خلیجی ممالک کا سیاسی مزاج انتہائی تحمل اور برد باری کا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں معاملے کو پکنے کے لئے کچھ زیادہ ہی وقت دیا جاتاہے تاہم جب وہ پک جاتا ہے تب وہ جذباتیت سے پاک ہوجاتا ہے۔ جی سی سی ممالک کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ ابلتے ہوئے خطے میں محفوظ پناہ گاہ جی سی سی ممالک کے درمیان اتحاد میں ہے۔ جی سی سی کا کوئی بھی ملک حالات کا تنہا مقابلہ نہیں کرسکتا تاہم اگر وہ متحد ہوں تو ان کی ہیبت دنیا میں مانی جائے گی۔ ایران کے توسیع پسندانہ عزائم اب مخفی نہیں رہے۔ مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک ایران کے بڑھتے ہوئے ہاتھ خلیجی ممالک کے لئے پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اس کی اچھل کود عراق اور شام تک پھیل گئی تو اس وقت بھی معاملات قابل برداشت تھے مگر جب وہ ناک کے نیچے یمن تک پہنچ گیا تب مزید خاموش رہنے اور صرف نظر کرنے کا وقت گزر گیاتھا۔ توسیع پسند عزائم رکھنے والے ملک کی عیاری کے سامنے خلیجی ممالک کی سادگی کا نقصان ہوگا۔

اب وقت آگیا ہے کہ عیارکا مقابلہ کیا جائے۔ ابلتے ہوئے خطے میں استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اپنا سکہ منوایا جائے اور اس کے لئے محض معاشی قوت پر تکیہ کرنا کافی نہیں۔ اوپرفیصل القاسم کی ادھوری بات مکمل تو نہیں کرسکتے البتہ ایک اہم بات کی طرف نشاندہی ضرور کی جاسکتی ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ خلیجی ممالک اسلحہ کی صنعت میں اپنی توجہ مرکوز کریں۔ ا للہ تعالیٰ نے جن وسائل سے خلیجی ممالک کو نواز رکھا ہے وہ وسائل شاید ہی کسی اور ملک کے پاس ہوں۔ خود خالق کائنات نے مسلمانوں کو قوت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے پاس ہر قسم کی اسلحہ سازی کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ یہاں ایٹمی پلانٹ لگنے چاہئیں، یہاں آبدوزیں اور بکتر بند کے علاوہ ٹینک اور میزائل تیار ہونے چاہئیں۔ خلیجی ممالک کو اندازہ ہے کہ قوت کے حصول کے لئے پاکستان اور ترکی بہترین مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

پاکستان وہ ملک ہے جس کی بقاء اور سلامتی کا انحصار خلیجی ممالک پر ہے۔ خلیجی ممالک کا استحکام بھی پاکستان کی سالمیت سے وابستہ ہے۔ خلیجی ممالک کو اب جرأتمندانہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ جی سی سی ممالک کے درمیان اتحاد، مشترکہ کرنسی اور معاشی بلاک کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر عسکری قوت اور اسلحہ سازی اس سے کئی گنا زیادہ اہم ہے۔ عیار دشمن کا مقابلہ محض معاشی قوت سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لئے عسکری قوت بھی ضروری ہے۔سعودی عرب نے اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ واضح کیا کہ پر امن مقاصد کے لئے ایٹمی توانائی کا استعمال اس کا بنیادی حق ہے۔

یہی بات تمام خلیجی ممالک کے لئے بھی ہے۔ دنیا بھر کے سنی مسلمانوں کی آخری پناہ گاہ خلیجی ممالک ہیں۔ وقت کی نزاکت اور حالات حاضرہ کے پیش نظر چیلنجز سے نمٹنے کے لئے خلیجی ممالک کی سیاسی بصیرت اور تدبر سے یہی امیدہے کہ وہ بروقت مناسب فیصلہ کریں گے۔

شیئر: