Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی حرکیات

وفاق پاکستان کی سیاسی حرکیات تو یہی کہتی ہے کہ موجودہ دور میں جس سیاسی جماعت نے پنجاب میں عددی اکثریت حاصل کی، وہ وفاق میں حکومت بنانے کی پوزیشن رکھتی ہے

 

محمد مبشر انوار

سیاسی حرکیات کا ادراک رکھنے والوں کی تمام تر سرگرمیاں قبل از وقت یا ممکنہ انتخابات کے عین مطابق رو پذیر ہیں گو کہ اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں تقریباً ڈیڑھ سال باقی ہے جبکہ قبل از وقت انتخابات کا اعلان حکمران جماعت کے اختیار میں ہوتا ہے کہ موقع و محل کی مناسبت سے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کردے۔ گو قبل از وقت انتخابات کا اعلان پانامہ ا سکینڈل تحقیقات کی وجہ سے ممکن تو ہے مگر کیا اس اعلان سے پانامہ اسکینڈل کی تحقیقات پر کو ئی اثر پڑے گا، اس کا جواب دینا فی الوقت دینا مشکل ہے کیونکہ اب فوج کے بعد عدلیہ بھی انتظامی تبدیلیوں سے گزرے گی۔

نومبر ،دسمبرگزرنے کے حکومتی دعوے درست ثابت ہو گئے لہذا باقی تحقیقات نئے سال میں ،نئے چیف جسٹس سنیں گے،مقدمے کی سنوائی کے لئے کیا طریقہ کار اپنایا جائے گا؟نیا بنچ بنے گا،نئے سرے سے دلائل دئیے جائیں گے، ابھی واضح نہیں ۔ پانامہ تحقیقات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم سیاسی سرگرمیوں ، جوڑ توڑ اور پیش بندیوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ نئی صف بندیاں کس طرز پر ہو رہی ہیں اور کس سیاسی جماعت کے پاس کیا کیا امکانات موجود ہیں۔ وفاق پاکستان کی سیاسی حرکیات تو یہی کہتی ہے کہ موجودہ دور میں جس سیاسی جماعت نے پنجاب میں عددی اکثریت حاصل کی، وہ وفاق میں حکومت بنانے کی پوزیشن رکھتی ہے ۔مسلم لیگ ن کے لائحہ عمل کی طرف دیکھیں تو یہ حقیقت مزید کھل کر سامنے آتی ہے کہ مسلم لیگ ن ، وفاق کی کنجی ،پنجاب پر بلا شرکت غیرے قابض ہے اور اسی پراپنی توجہ مرکوز رکھتی ہے ۔پنجاب فتح کرنے کے لئے مسلم لیگ ن ایک طرف تو روایتی سیاست کے تمام ہتھکنڈوں برادری ازم، شخصیت پرستی، ذاتی پسند و نا پسند، اقربا پروری،بالائے قانون مفادات کا حصول وغیرہ وغیرہ سے لیس ہے تو دوسری طرف ’’وفادار‘‘ افسر شاہی کو ’’نوازنے‘‘ کی پالیسی نے اسے ایک طرح سے نا قابل شکست کر رکھا ہے،بظاہر’’مقتدرہ اور ا سٹیٹس کو‘‘ کی مخالف مگر اندرون خانہ شب کی تاریکیوں میں خفیہ ملاقاتوں سے عدم پرہیز ، اسے مقتدرہ حلقوں میں بھی قابل قبول بنائے ہوئے ہے۔ اقتدار کی خاطر تمام اصول و ضوابط بالائے طاق رکھتے ہوئے بھی،مسلم لیگ ن حقیقی طور پر وفاق کی جماعت نہیں بن پائی اور نہ ہی اسے باقی وفاقی اکائیوں کی چنداں کوئی فکر ہے کہ اس کی جڑیں کہیں اور ہیں یا نہیںمگر اپنی اس روش سے چھوٹے صوبوں میں مسلسل عدم تحفظ کا احساس قائم کر رہی ہے۔ یہی حال باقی سیاسی جماعتوں کا ہے کہ وہ سب اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے ، ایسے میں فقط ایک ہی سیاسی جماعت باقی ہے،جس کا ماضی اس امر کا گواہ ہے کہ اس نے ہمیشہ وفاق کی سیاست کی اور وفاق پاکستان کو ہر لحاظ سے مضبوط بنانے کی کوشش کی لیکن عاقبت نا اندیشوں ،آمروں اور زرداری کے کارپوریٹ ساتھیوںنے اس سیاسی جماعت کو فقط سندھ تک محدود کر کے نہ جانے کس کے نظرئیے کی خدمت کی ہے۔

آج صورتحال مگریہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت وفاقی حیثیت نہیں رکھتی۔ پنجاب کے حوالے سے میں اپنی گزشتہ تحریروں میں واضح کر چکا ہوں کہ مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیا ہو سکتا ہے جو قطعی میرا ذاتی خیال ہے اور غلط بھی ہو سکتا ہے،آج کچھ قیاس آرائی بلوچستان، کے پی کے، دیہی و شہری سندھ سے متعلق کرنا چاہتا ہوں۔ اس میں بھی زیادہ زور کے پی کے اور شہری سندھ پر ہو گا کیونکہ جہاں تک بات بلوچستان اور دیہی سندھ کی ہے وہاں حالات آج بھی جوں کے توں ہیں، ووٹرز کی نفسیات میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی لہذا انتخابی نتائج بھی ممکنہ طور پر گزشتہ نتائج جیسے ہی ہوں گے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ، قبائلی روایات میں جکڑا ہوا، جہاں آج بھی پسماندگی اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہے اور سیاسی اکابرین صورتحال کو جوں کا توں رکھنے میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں جبکہ امن و امان کی صورتحال کو قابو کرنے میں موجودہ دفاعی مشیر ناصر جنجوعہ کی کامیاب کاوشوں کے نتیجے میں ہزاروں علیحدگی پسند ہتھیار پھینک کر پرامن شہری بن چکے ہیں۔پسماندگی کا مسئلہ قطعی طورپر سول حکمرانوں کا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کب بلوچی نہ صرف زیور تعلیم سے آراستہ ہو تے ہیں بلکہ ذہنی طور پر غلامی کے اس پھندے کو اتارنے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں۔دیہی سندھ لمحوں کی آزادی کی قیمت دہائیوں سے ادا کرتے چلے آرہے ہیں مگر ان کے نصیب کی خوشحالی ابھی تک ان سے منہ موڑے ہوئے ہے گو کہ ان کی تعمیر و ترقی کے نام پر قومی خزانے کو پچھلے چند سالوں میں 91ارب کا ’’معمولی‘‘ سا ٹیکہ لگ چکا ہے کیونکہ ارباب اختیار کے منہ میں اتنی رقم سوائے زیرے کے اور کچھ نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ دیہی سندھ کے خلوص پر کم ازکم انہیں بنیادی سہولیات اب تک مل جانی چاہئے تھیں ،آسائشیں تو بہت دور کی بات ہے، حیرت ہوتی ہے پیپلز پارٹی کی قیادت پر کہ اور کتنا استحصال کرنا چاہتی ہے اپنے پرخلوص ووٹرز کااور حیرت ہوتی ہے اس بد نصیب ووٹر پر کہ اتنی جذباتی وابستگی کہ اپنے دکھوں پر لب کشائی بھی نہیں کر سکتے، احتجاج تو دور کی بات ہے۔ کے پی کے کا انتخابی سیاست میں ایک اپنا انداز رہا ہے اور اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ کے پی کے عوام نے آج تک کسی بھی سیاسی جماعت کو ایک سے زائد مرتبہ حکومت سازی کا موقع نہیں دیا۔

اس حوالے سے وہاںکے عوام کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے ہر سیاسی جماعت کو اس کی کارکردگی کے حوالے سے جانچا ،پرکھا ہے مگر اب صورتحال یہ ہے کہ وہ کس سیاسی جماعت کو حکومت سازی کا موقع دیں گے؟ کارکردگی کی بنیاد پر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی نے بھی بڑے بڑے دعوے تو ضرور کئے تھے لیکن عملاً ان وعدوں کا عشر عشیر بھی ایفا نہیں کیا گیا مگر دوسری سیاسی جماعتوں کی نسبت پی ٹی آئی کم ازکم یہ دعویٰ ضرور کر سکتی ہے کہ اس نے ایسے بنیادی اقدامات ضرور اٹھائے ہیںجو اس سے پہلے کسی بھی حکومت نے نہیں اٹھائے۔ مثلاً پولیس کے حوالے سے بالعموم شکایات کا کسی حد تک ازالہ کرنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے کہ دہائیوں سے سیاسی اثرو رسوخ سے متاثر پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرنے کی کوشش ،ایک احسن اور مثبت قدم ہے جس کے نتیجے میں نسبتاًقانون کی مؤثر عملداری دیکھنے میں آرہی ہے ، گو کہ دہائیوں کے مرض اتنی آسانی اور اتنی جلدی نہیں جاتے اور آج بھی چند کالی بھیڑیں یقینامحکمے میں موجود ہوں گی۔ شجر کاری کے منصوبے پر بھی دعویٰ کے مطابق کام نہیں ہوا مگر جو ہوا ،اس سے انکار بھی ممکن نہیں ،ایسے پس منظر میں جب جنگلات کی کٹائی میں حصہ بقدر جثہ تقسیم ہو رہا تھا اور شجر کاری کی طرف کسی کی توجہ نہیں تھی،پی ٹی آئی کا شجر کاری منصوبہ انتہائی اہمیت اور دوررس نتائج کا حامل ہے۔ علاوہ ازیں سب سے اہم مسئلہ پاور کا ہے،جس کا سامناپوری پاکستانی قوم کر رہی ہے۔ اٹھارھویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی حکومتوں کا اختیار تھا کہ وہ پاور پیدا کرتی،یہاں بھی بالعموم پی ٹی آئی حکومت نے خاطر خواہ کارنامے سر انجام نہیں دئیے اور متعدد ایسے منصوبوں کی نقاب کشائیاں ہوئیں جن کا سنگ بنیاد پہلے رکھا گیا تھا۔ خیر یہ کوئی ایسی بری بات نہیں کہ مسلم لیگ ن کو ایسے مواقع ہر دور حکومت میں نعمت غیر مترقبہ کی صورت ملیں لیکن اہم بات یہ تھی کہ صوبائی حکومت پن بجلی کے کسی بڑے منصوبے کا اعلان نہیں کر پائی کہ ایسے کسی بھی منصوبہ سے حاصل شدہ بجلی کی نیشنل گرڈ میںمنتقلی کا مناسب انتظام موجود نہیں۔ کرپشن کے معاملات پر ، صوبائی حکومت کے حوالے سے،اگر یہ کہیں کہ سب اچھا ہے تو یہ بھی ممکن نہیں کہ پی ٹی آئی کے منتخب صوبائی چیئر مین احتساب بیورو جنرل حامدبوجوہ استعفیٰ دے کر الگ ہوگئے۔ علاوہ ازیں کرپشن کے حوالے سے کئی انگلیاں وزیر اعلیٰ کی ذات کی طرف،ان کی کابینہ کی طرف بھی اٹھیں، جن کی تفاصیل یقینا بعد از حکومت سامنے آئے گی۔ دیکھتے ہیں کے پی عوام اگلے انتخابات میں کس کو موقع فراہم کرتے ہیں۔

شیئر: