Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قباحت جاننے کے باوجود اصرار ، ناقابل معافی جرم

یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کاملہ ہی تو ہے کہ وہ ہماری ضرورتیں پوری کررہا ہے ورنہ ہمارے اتنے گناہ ہیں کہ ہم ان نعمتوں کے ہرگز قابل نہیں

 

مفتی تنظیم عالم قاسمی ۔حیدرآباد دکن

اللہ تعالیٰ اَن گنت خوبیوں اور کمالات کا مالک ہے۔قرآن کریم میں ان میں سے بعض کا تذکرہ ہے اور بعض کا احادیث میں۔وہ قہار اور رزاق ہے ‘سمیع اور بصیر ہے ‘علیم اور خبیر ہے ‘جبار اور متکبر ہے اور اس طرح دیگر ناقابل تصورصفات اس میں جمع ہیں لیکن صفت ’’رحمت‘‘ سب سے زیادہ غالب ہے اس لئے اس کا وصف رحمن بیان کیا گیا اور ایک وصف رحیم بھی۔ حضراتِ مفسرین کی وضاحت کے مطابق’’ رحمن‘‘ اُس ذات کو کہا جاتا ہے جس کی رحمت سب کو محیط ہو ۔کسی جنس ‘نوع ‘قوم ‘علاقہ یا ملک اور زمانہ کے ساتھ خاص نہ ہو اور وہ ذات صرف اللہ کی ہے جس کی رحمت انسان وجنات اور فرشتوں سے لے کر چرند و پرند اور نباتات و جمادات ہر ایک کو شامل ہے۔انسانوں میں بھی خواہ مسلمان ہو یا کافر ‘فاجر ہو یا فاسق ہر ایک اس کی رحمت کے سائے میں زندگی گزار رہا ہے اور رحیم کہا جاتا ہے جس کی رحمت کامل و مکمل ہو ۔اللہ تعالیٰ انسان کو پیدا کرنے کے بعدسے اس کی موت تک رزق اور ساری ضرورتوںکا انتظام کرتا ہے ‘اسی طرح ہر مخلوق کے ساتھ اس کا یہی معاملہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی ذات رحیم بھی ہے ،اس طرح اس کی رحمت و شفقت عام بھی ہے اور تام بھی ۔

یہ اس کی رحمت کاملہ ہی تو ہے کہ وہ ہم کوسارے گناہوں کے باوجود رزق دے رہا ہے ۔کھلا اور پلا رہا ہ۔ہماری ساری ضرورتیں پوری کررہا ہے ورنہ ہمارے اتنے گناہ اور اتنی نافرمانیاں ہیں کہ ہم ان نعمتوں کے ہرگز قابل نہیں ۔اس کی رحمت کا مظہر یہ بھی ہے کہ بندوں سے اگر گناہ سرزد ہوجائے اور اتنا زیادہ ہو کہ زمین سے لے کر آسمان تک وہ ساری خلاؤں کو بھر دے پھر بندہ اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کرتے ہوے صدق دل سے توبہ و استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو یکلخت مٹا دیتا ہے اور اس طرح مٹاتا ہے کہ دوبارہ قیامت کے دن ان گناہوں کے بارے میں مؤاخذہ نہیں ہوگا اور نہ ان کو ظاہر کرکے بندے کو رسوا کیا جائیگا گویا ریکارڈ سے ہی ان گناہوں کو حذف کردیا جاتا ہے ۔ دنیا میں ایک شخص جب دوسرے کی غلطی کو معاف کرتا ہے تو دل سے اس کا داغ نہیں جاتا یہاں تک کہ بعد میںپھر کبھی آپس میں اختلاف ہوجائے اور لڑائی جھگڑا ہو تو پچھلی گئی گزری باتوں کو منظر عام پر لاتا ہے اور اس کے ذریعے عار دلاتا ہے گویا وہ اس کے دل سے ختم نہیں ہوا تھا‘محض وقتی طور پر جذبۂ انتقام دب گیا تھالیکن قربان جائیے رحمت الٰہی پر کہ وہ جس کو معاف کرتا ہے اس کا دوبارہ پھر کوئی ذکر نہیں کیا جاتا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنی ایک صفت’’ عَفُوّ‘‘ یعنی بہت زیادہ معاف کرنے والا بیان کیا ہے ۔عربی زبان میں’’ عَفُوّ‘‘ کے معنیٰ مٹانے کے ہیں ،جس میں گناہوں کو بالکل ہی مٹادینے کی طرف اشارہ ہے ۔یہ اور اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں کہ انسان اپنی زندگی میں غور کرے تو قدم قدم پر اُس کی شان کریمی و غفاری نظر آئے گی تاہم اس قدر اس کی رحمت کے باوجود دوگناہ ایسے ہیں جن کو اللہ معاف نہیں کرتا ۔

پہلا گناہ تو وہ ہے جس کی قباحت اور سزاجاننے کے باوجود اس کا ارتکاب کیا جائے ۔گناہ کی ایک شکل تو یہ ہے کہ انسان کو اس کے گناہ کا علم ہی نہ ہو‘عدم واقفیت کے سبب گناہ سرزد ہوجائے یا گناہ ہونے کا علم ہو مگر اس کی سزا اور اس کی قباحت نہ جانتا ہو، اس کو قرآن نے ’’جہالت ‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ایسے گناہ کے سچی توبہ سے معاف ہونے میں کوئی شبہ نہیں لیکن گناہ ہونے کا علم ہو اور اس کی شدت کا بھی اور پھر بھی جان بوجھ کر اس کو کیا جائے ،یہ جسارت ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک جرم ِعظیم ہے اسی لئے قرآن میں توبہ کی قبولیت کو جہالت سے مشروط کیا گیا ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے یہ جان لو کہ اللہ پر توبہ کی قبولیت کا حق ا نہی لوگوں کے لئے ہے جو نادانی کی وجہ سے کوئی برا فعل کر گزرتے ہیں اور اس کے بعد جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں ،ایسے لوگوں پر اللہ اپنی نظرِ عنایت سے پھر متوجہ ہوجاتا ہے اور اللہ ساری باتوں کی خبر رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے ‘‘( النساء 17) ۔

اللہ تعالیٰ کو انسان کا تواضع اور تذلل بہت پسندہے اور یہی عبد کا مفہوم بھی ہے لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر گناہ کرے اور گناہ پر گناہ کرتا جائے تو یہ نہایت بے حسی اور اللہ تعالیٰ پرڈھٹائی کی بات ہے گویا وہ اپنے عمل سے اس کے عذاب کو دعوت دے رہا ہے ۔جیسے آج کل بہت سارے لوگ مختلف برائیوں کا یہ سوچ کر ارتکاب کرتے ہیں کہ اللہ معاف کرنے والا ہے بعد میں توبہ کرلیں گے ،یہ جوانی اور زندگی بار بار نہیں ملتی اس لئے ابھی جو بھی مزہ لینا ہو لے لو ۔اس طرح کے تصورات ہمارے بہت سے نوجوانوں کے ذہنوں میں ہوتے ہیں جن کے سبب وہ ایسی ایسی برائیوں اور بے حیائیوں کے شکار ہوتے ہیں کہ اللہ کی پناہ! ان کو سوچ کر بھی دل کانپ اٹھتا ہے، جن گناہوں پر شیطان کو بھی شایدشرم آتی ہوگی آخرت پر یقین رکھنے والے مسلم نوجوان ان میں ملوث رہتے ہیں اور مسلم نوجوان ہی کیوں ہر طبقہ کے افراد جان بوجھ کر گناہ پر گناہ کرتے جاتے ہیں اور انہیں احساس نہیں ہوتا کہ کس قدر وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور جاچکے ہیں ۔ دوسرا وہ گناہ بھی ناقابل معافی ہے جس کو ایک شخص کرنے کے بعد اپنے دوست و احباب کے پاس بیان کرتا پھرے ‘گناہ چھپانے کی چیز ہے لہذا حیا اور خوف الٰہی کا تقاضا ہے کہ کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس پر پردہ ڈالا جائے اور ہرممکن اس کو چھپانے کی کوشش کرے اور اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت طلب کرے ،امید ہے کہ وہ اس کو معاف کردے گا ۔اس کا برعکس اگر کوئی شخص کوئی براکام کرے ‘کسی معصیت کا ارتکاب کرے اور پھر لوگوں کے سامنے اس کو بولتا پھرے اور اس گناہ کا چرچہ کرنے لگے تو اس حرکت پر اللہ تعالیٰ سخت غضبناک ہوتا ہے اور اس گناہ کو وہ معاف نہیں کرتاکیونکہ اپنے کئے ہوے گناہ کو عام کرنے اور لوگوں کے سامنے اظہار کا مطلب ہے کہ اسے اپنی حرکت پر ندامت نہیں ۔

اللہ تعالیٰ سے نہ عذاب کا خوف ہے اور نہ گرفت کا احساس ‘گویا وہ اپنے گناہ پر سخت جری ہے ۔ظاہر ہے کہ جس شخص کو اپنی معصیت پر ندامت کے بجائے جسارت اور تکبر ہوجائے اس کی معافی کا کیا سوال ہے ؟اسی لئے رسول اکرمنے ایک موقع پر ارشاد فرمایا میری امت کے ہر فرد کو معاف کردیا جائے گا سوائے ان لوگوں کے جو اپنے عیوب اور گناہوں کو ظاہر کرتے ہیں ،بلاشبہ یہ بات بڑی جسارت کی ہے کہ کوئی شخص رات میں کوئی برا کام کرے اور جب وہ صبح کرے تو جس کو اللہ نے چھپا لیا تھا اس کو وہ لوگوں سے کہتا پھرے کہ اے لوگو! میں نے گزشتہ رات ایسا ایسابرا کام کیا ہے حالانکہ اس کے پروردگار نے تو رات میں اس کے گناہ کی پردہ پوشی کی تھی اور اس نے صبح ہوتے ہی اللہ کے پردے کو چاق کردیا۔ ‘‘( بخاری )۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کا اعلان کرنا ناقابل معافی جرم ہے ۔اس لئے کہ گناہ اسی کا معاف ہوتا ہے جس کو اپنی معصیت اور عمل پر ندامت ہو اور اس شخص کو کوئی ندامت نہیں بلکہ جسارت اور ڈھٹائی کا اظہار کررہا ہے ،جیسے معاذاللہ ایک شخص نے زنا کیا ‘شراب نوشی کی یا کوئی بے حیائی کا کام کیا اور اپنے دوستوں کے سامنے اس کو ظاہر کرتا پھرے ۔آج کل بہت سے نوجوان مختلف طرح کے گناہ اور معصیت انجام دینے کے بعد شرم کرنے کے بجائے اسے اپنے دوستوں میں خوب مزے لے کر بیان کرتے ہیں اور اس پر سب ہنسی مذاق کرتے ہیں اور اس طرز کو فخر کا ذریعہ سمجھاجاتا ہے ۔ایسے وقت شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ اس عمل کے ذریعے اُس قہار کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں جس نے نافرمانیوں پر ڈھٹائی اوربے شرمی کے جرم میںقوم ِعاد وثمود کو تباہ کردیا تھا ،جس کی گرفت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی بے پایاں مہربانی ہے کہ اتنے جرم کے باوجود وہ ہمیں ڈھیل اور مہلت دے رہا ہے اور اس نے اب بھی ہمارے اوپررحمت کی چادر ڈال رکھی ہے ورنہ وہ جب چاہے ہماری گرفت کرسکتا ہے اور ہمیںرسوا اور ذلیل کر سکتا ہے اس لئے اپنی برائیوں پر فورا ًرونے اور توبہ و استغفار کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ان پر جسارت اور ڈھٹائی کی۔ہمارے سماج میں ایسے بھی لوگ آپ کو ملیں گے جو خود نماز نہیں پڑھتے اور دوسروں کے سامنے اپنے نماز اور فرائض کے ترک کرنے کو بڑی بے شرمی سے بیان کرتے ہیں ۔جان بوجھ کرفرائض کا ترک تو گناہ ِکبیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عبادات کی توفیق چھین لی ہے تو اس پر ندامت کرنی چاہئے اور اس کی توفیق اللہ تعالیٰ سے مانگنی چاہئے ممکن ہے آج نہ کل توفیق حاصل ہوجائے لیکن اس کے بجائے یہ بڑی جسارت اور جرأت کی بات ہے کہ لوگوں کے سامنے اس کا اظہار کیا جائے۔

(مکمل مضمون روشنی 9دسمبر کے شمارے میں ملاحظہ کریں)

شیئر: