Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ تپِ محبت‘‘کا علاج شادی مگر فائدہ نہیں ہوتا

اگر شادی کر دی جائے تو مریض کے جذبات اپنی موت آپ مر جاتے ہیں اور شادی نہ کی جائے تو جذبات کے ہاتھوں موت واقع ہوجاتی ہے

 

صبیحہ خان ۔ ٹورانٹو

موسم اور بخار کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ فلو اور بخار کا وائرس جب انسانوں میں پھیلتا ہے تو اس کا الزام موسم کے سر ہی جاتا ہے۔ جس طرح موسم کئی طرح کے ہوتے ہیں اسی طرح بخار کی بھی کئی قسمیں پائی جاتی ہیںتاہم ذیل میں بیان کئے گئے موسم اور بخار ذرا دوسری نوعیت کے ہیں۔ یوں تو موسموں کی تعداد چار ہوتی ہے گرمی، سردی، خزاں اور بہار جویکے بعد دیگرے آتے جاتے رہتے ہیں مگر ہمارے ہاں کچھ موسم ایسے ہیں جوآ تو جاتے مگر پھر جاتے نہیں۔ یہ ہیںسیاسی ، غیرسیاسی، معاشرتی ، معاشی اتار چڑھاؤ، لوگوں کے موڈ اور باتیں، سیاست، کرپشن، جھوٹ ، بدعنوانی، مہنگائی اور غربت کے موسم جنہوں نے مستقل ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ گوکہ ہمارے ہاں ابھی الیکشن کا موسم نہیں آیا مگر کیونکہ ہمارے لوگ کافی ’’ویلے‘‘ ہیں اس لئے پرائے موسم بھی کیچ کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ امریکہ کے حالیہ الیکشن پر ہمارے میڈیا کی پوری نظر تھی۔ امریکہ کے نومنتخب صدر کے ماضی سے شاید امریکی بھی اتنے واقف نہ ہوں جتنا کہ پاکستانیوں کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔ ٹرمپ کا پورا شجرۂ نسب کھود کر نکال ڈالا تو ہیلری کلنٹن کے الیکشن ہارنے کے درد کو امریکیوں سے زیادہ پاکستانیوں نے محسوس کیا۔

اسے کہتے ہیں’’بیگانے کی ہے شادی، اپنا ہوا دیوانہ۔‘‘ خوشامد ، چاپلوسی،سفارش اور رشوت کا موسم ہر سرکاری ادارے کیلئے خوشگوار ثابت ہوتا ہے اور یہ چلتا ہی رہتا ہے کیونکہ یہ بعض سرکاری افسران اورکچھ بیورو کریٹس کاتو انتہائی پسندیدہ موسم ہے۔ محبت کا بخاراجسے طبی اصطلاح میں ’’حمیٰ الفت‘‘ یا ’’ تپِ محبت‘‘یا ’’یونیورسل فیور‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بخار بچوں، بڑوں ، بوڑھوں ، مردوں اور عورتوں سب کو لاحق ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کسی میں بخار کی نوعیت سنجیدہ ہوتی ہے اور کسی میں مضحکہ خیز ۔ مثلاً بچوں کو کارٹون ، وڈیو گیم اور کمپیوٹر سے محبت ہوتی ہے تو خواتین کو فیشن ، ٹی وی ،موبائل فون اور ڈراموں سے۔ بوڑھوں کو چائے شائے اور اپنے گزرے زمانے سے۔

اگرکسی کولَو فلو لگ جائے اور یہ نارمل حد میں رہے تو کوئی تشویش کی بات نہیں لیکن اگرنارمل حد عبور کرجائے اور ’’مریض‘‘کسی انتہائی اقدام کی دھمکی دینے لگے تو اس کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ اس کا علاج کریں یا نہ کریں، مریض شفا یاب نہیں ہوسکتا۔گو ’’تپِ محبت‘‘کا علاج شادی ہے مگرمریض کو فائدہ نہیں ہوتا ۔اگر شادی کر دی جائے تو مریض کے جذبات اپنی موت آپ مر جاتے ہیں اور شادی نہ کی جائے تو جذبات کے ہاتھوں مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔ برسات کا موسم لوگوںپر خوشگوار اثرڈالتا ہے مگر یہ اثر برسات کے برسنے تک ہی قائم رہتا ہے۔ بارش کے بعد کے نتائج بڑے خوفناک ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے لائٹ صاحبہ غائب ہوتی ہیں ، مچھر ا ورمکھیاں برساتی مسرت دوبالا کرنے کیلئے نکل آتے ہیں۔ گٹر اور پینے کا پانی آپس میں گلے ملنے لگتا ہے۔ سڑکیں پہلے ہی بڑی نازک طبع ہوتی ہیں اور ایک ہی بارش ان پر گراں گزرتی ہے اور یہ ایسے غائب ہوجاتی ہیں جیسے گدھے کے سرسے سینگ اور یہ برسات کا موسم ہمارے محکموں کا پول کھول کر رکھ دیتا ہے۔ بارش کا موسم چلاجاتا ہے مگر سڑکوں ، گلیوں ، محلوں میں بنی جھیلیں اس کی یاد دلاتی ہیں ۔

ان جھیلوں کی خوبصورتی میں مزید اضافہ آس پاس رہنے والے کوڑا کرکٹ ڈال کر کردیتے ہیں۔ کچھ لوگ جو بے حد صفائی پسند ہوتے ہیں، وہ کوڑے میں آگ لگادیتے ہیںیوں منظر کی دلکشی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے مگر بعض لوگ بڑے بدذوق ہوتے ہیں۔ بارش کی باقیات کے نظارے ان کو مشتعل کردیتے ہیں، وہ احتجاج کرتے ہیں مگر یہ بے سود ثابت ہوتا ہے اورانہیں اس امرکہ حقیقی تجربہ ہو جاتا ہے کہ ’’بھینس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‘‘ ڈاکٹروں کے لئے خوشی کا موسم سال میں دوبارآتا ہے۔ یہ موسم اپنے ساتھ بہت سارے کرنسی نوٹ لے کر آتا ہے ۔

ایک بار اس وقت جب موسم بدلنے لگتا ہے یعنی گرمی سے سردی اوردوسری مرتبہ سردی سے گرمی۔ ایسے میں ہرخاص و عام بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹر حضرات کے چہرے گلنار ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ اس موسم کے منتظر ہوتے ہیں۔ یہ موسم ان کیلئے ڈھیر سارے نوٹ لاتا ہے۔ دنیا میں ڈاکٹر وہ واحد ہستی ہے کہ جب وہ بل مانگتا ہے تو نہ تومریض ادھار کرتا ہے اور نہ ہی ریٹ کم کرواتا ہے بلکہ فوراً نقد ادائیگی کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس موٹے تازے ’’بل‘‘ کے بعد مریض کی بیماری اس طرح بھاگتی ہے جیسے چوہابلی سے گھبراکر اپنے بل میںگھس جاتا ہے۔’’تبدیلی کا موسم ‘‘ ڈاکٹروں کیلئے لوٹ سیل کا موسم بھی کہلاتا ہے۔

فیشن کا موسم ہمارے ہاں سدا بہار کی طرح ہے یعنی اس پر کسی قسم کا موسم اثر نہیں کرتا۔ فیشن انڈسٹری کو مضبوط کرنے میں جہاں ہماری خواتین کا ہاتھ ہے وہیں مرد حضرات بھی اس موسم کے زیر اثر رہتے ہیں ۔ فیشن کے بخار کو میڈیا نے بھی خوب پھیلایا ہے اور ہمارا معاشرہ ان دونوں سے بے حد متاثرہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شعبے خوب پھل پھول رہے ہیں۔ غیرملکی کلچر کے موسم بھی ہمارے ہاں لوگوں کو خاصے مرغوب ہیں ۔

اب یہ حال ہے کہ ہماری نئی نسل اپنی زبان، اپنی تہذیب و ثقافت سے زیادہ غیروں کی تہذیب سے متاثر ہے کیونکہ مغرب میں ’’ڈیز‘‘یعنی’’یوم‘‘ منانے کا کلچر خاصا مقبول ہے اور یہ ڈیز، کا کلچرہمارے ہاں بھی انٹری مار چکا ہے۔ مدر ڈے، فادرڈے،پلو ڈے، پوورز ڈے، ڈاٹرز ڈے، اور نجانے کون کون سے ڈیز نہ صرف سال بہ سال آتے ہیں بلکہ ان میں اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ ان ڈیز پر لوٹ سیل بھی لگتی ہے۔ اب ہمارے ہاں کیونکہ نقالی کا بخار لوگوں پر سوار رہتا ہے اس لئے مغرب کے بعض معیوب اور نامناسب ڈیز بھی ہمارے ہاں منائے جانے لگے ہیں۔ شروع شروع میں تو ان ڈیز کی نقالی پر لوگ اعتراض کرتے ہیں مگربعد ازاں آہستہ آہستہ لوگ اس کو قبول کرلیتے ہیں۔

لوڈ شیڈنگ کا موسم خاصا پرانا ہوچکا ہے ۔ غریب عوام کی ساری خوشیاں اس موسم نے چھین لی ہیں بس لوگ اسی اُدھیڑ بن میں سارا دن گزار دیتے ہیں کہ لو بھئی ! بجلی آگئی، اے لو،بجلی چلی گئی۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کو بدمزاج اور چڑچڑا بنادیا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر لوگ باہم دست و گریباں ہوجاتے ہیں۔ ترقی اور خوشحالی کے محض دعوے کئے جاتے ہیں جبکہ عوام کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں۔

شیئر: