Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچے ہی ہمارا آئینہ ہیں

 
5 سے10 برس کے بچوں کی زیادہ تر دلچسپی ریوالور ، بندوق ، کلاشنکوف وغیرہ کے پلاسٹک ماڈلز میں ہوتی ہے
 
وسعت اللہ خان
 
اگر یہ پرکھنا ہو کہ کوئی قوم کس کیفیت سے گزر رہی ہے تو پھر اس کے بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزار لو۔ سب اجتماعی کچا چٹھا کھل جائے گا۔
کچھ عرصہ پہلے آئی اے رحمن صاحب کی ایک تحریر نگاہ سے گزری جس میں انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ” حال ہی میں ڈیفنس کراچی میں جس خاندان کے پاس میں رکا۔اس خاندان کے ایک 4سالہ بچے نے اپنی نانی کی وفات کی خبر سناتے ہوئے کہا ” نانی قتل ہوگئی“گویا اب ہمارے بچوں کے لئے کسی کی موت کا مطلب قتل ہونا ہی ہے۔ یہ ہے وہ ماحول جس میں پاکستان کی نئی نسل پرورش پارہی ہے۔
پچھلے2 برس سے ایک مشغلہ میں نے یہ بھی پال لیا ہے کہ جب بھی کچھ فرصت پاتا ہوں محلے میں5 تا10 برس کے بچوں کے درمیان بیٹھ کر ان سے گپ کرتا ہوں اور یوں ان نئی کونپلوں کے دل و دماغ میں جھانکنے کی اپنی سی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے اس عمر کے بچوں سے ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔
” ابے ٹھیک طرح سے گیند کروا ورنہ چھید دوں گا سالے” ( گلی میں بیٹنگ کرنے والے اس بچے کی عمر بمشکل 5 برس ہوگی جبکہ بولر بھی اتنی ہی عمر کا تھا )۔
” انکل کل یہاں مارکیٹ میں دو لڑکے آئے تھے ڈکیتی کرنے۔بڑی ڈینجر شکلیں تھیں ان کی۔ہم سب نے مل کر ایک حرامی کی خوب پھینٹی لگائی۔ ایک رینجر والی وین بھی آئی اور انہوں نے اس لونڈے کو پکڑ کے وین میں ڈال لیا۔ دوسرا سالا بھاگ گیا۔سعید انکل نے کہا اگر اس وقت میرے پاس ٹی ٹی ہوتی تو دوسرے کو گرانا ( یعنی ہلاک کرنا ) کوئی بات ہی نہیں تھی۔سعید انکل بالکل دبنگ اشٹائل ہیں۔میں بھی بڑا ہو کر سعید انکل کی طرح ٹی ٹی رکھوں گا۔ انکل آج کل بھرم بازی نہ کراوتو دوسرے محلے کے لونڈے بھی شیر ہوجاتے ہیں (مجھے یہ کہانی سنانے والا بچہ بمشکل 8 برس کا تھا )۔
نکڑ پر ایک چھوٹی سی مارکیٹ ہے جس میں ایک کھلونے والے کی بھی دکان ہے۔ تمام کھلونے میڈ ان چائنا ہیں۔غبارے ، چھوٹی کاریں ، بھالو ، پزلز ، نشانہ لگانے کے لئے بلز آئی ، کھلونا موبائل فون مگر 5سے10 برس کے بچوں کی زیادہ تر دلچسپی ریوالور ، بندوق ، کلاشنکوف وغیرہ کے پلاسٹک ماڈلز میں ہوتی ہے۔دکاندار سے پوچھیں کہ بھائی تو ایسے خطرناک کھلونے کیوں بیچتا ہے تو اس کا متوقع جواب یہی ہوتا ہے کہ سر جی آج کل یہ ہاٹ آئٹم ہے۔بچے اور کچھ خریدتے ہی نہیں۔کئی دفعہ سوچا بھی کہ یہ آئٹم دکان پر نہ رکھوں پھر سوچتا ہوں کہ میں نہیں رکھوں گا تو بچے منظر مارکیٹ میں جا کر خرید لیں گے ( منظر مارکیٹ میرے گھر سے تقریباً ایک کلو میٹر پرے ہے )۔
میرے محلے میں زیادہ تر لوگ یا تو درمیانے درجے کے سرکاری و کارپوریٹ ملازم ہیں یا پھر چھوٹے کاروباری۔گویا متوسط طبقے کا علاقہ سمجھ لیجئے۔ایک اکاونٹنٹ صاحب نے اپنے 7 سالہ بچے کو کھلونوں کی دکان سے کلاشنکوف دلاتے ہوئے کہا مجھے ایسے کھلونے پسند نہیں۔مگر نہیں دلواوں گا تو اماں سے ضد کرکے پیسے لے لیں گے اور پھر خود خریدیں گے۔اس بچے کی اماں ایک نجی اسکول میں ٹیچر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالانکہ کلاس میں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ خطرناک نظر آنے والے کھلونے نہ خریدا کریں لیکن چونکہ ہر بچہ اسی طرح کے کھلونے خرید رہا ہے اس لئے اگر میں اپنے بچوں کو منع کروں تو انہیں بہت عجیب سا لگے گا۔
اب آئیے میں آپ کی اپنے بچوں سے ملاقات کرواوں۔
یہ ہیں رافع صاحب جو ایک متوسط پرائیویٹ اسکول کی پہلی کلاس میں پڑھتے ہیں۔ ان کی عمر ہے پونے7 سال۔پڑھائی میں تیز ہیں۔ دماغ بہت چلتا ہے اسی لئے خاصے جھکی بھی ہیں اور سوالات کی بوچھاڑ کرکے مد مقابل کو ٹی بی کروانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ تمام لڑکوں کی طرح ان کا جھکاو بھی اپنی والدہ کی طرف ہے۔ رافع کے ہیرو سلمان خان ہیں۔ رافع صاحب کے پاس بہت سے کھلونے ہیں اور ان میں سے30فیصد کھلونے بندوقوں اور پستولوں پر مشتمل ہیں۔2سال پہلے تک وہ جب بھی ویک اینڈ پر فیملی آوٹنگ کے لئے باہر جاتے تھے تو اپنا کوئی نہ کوئی پستول یا گن ضرور ساتھ رکھ لیتے تھے تاکہ اگر کوئی موٹرسائیکل سوار لوٹنے کے لئے گاڑی کے قریب آئے تو اسے گولی مار سکیں۔
لیکن پچھلے ایک سال سے رافع میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ کھلونا اسلحہ سے ان کی رغبت قدرے کم ہوگئی ہے اور مصوری اور اسکیچنگ میں بڑھ گئی ہے۔ ان کی مصوری میں سے سپر مین اور ا سپائیڈر مین نکل گئے ہیں اور اب وہ اپنی کاپی پر اکثر ایسے مسلح افراد کے خاکے بناتے ہیں جو بچوں کو مار رہے ہیں۔
کئی بار میں نے سوچا بھی کہ رافع کو ایسی تصویریں بنانے سے روکوں پھر یہ سوچ کے خاموش رہا کہ شائد یہ تصویریں ہی وہ روشن دان ہیں جن سے وہ اپنا ذ ہنی غبار بغیر جانے باہر نکال رہا ہے۔
اور یہ ہیں رافع کے چھوٹے بھائی واسع۔ ان کی عمر اس وقت سوا 2برس ہے۔ ابھی بولنا نہیں آتا۔4،5 الفاظ ہی دہراتے رہتے ہیں۔ آج کل اپنے بڑے بھائی کے کھلونوں میں سے ایک پستول اسے جانے کیوں پسند آگیا ہے۔صبح صبح وہی پستول ہاتھ میں پکڑ کے آتا ہے اور میری کنپٹی یا منہ پر رکھ کے ٹھش ٹھش کی آوازیں نکال کر مجھے جگاتا ہے۔
واسع تو خیر ابھی بہت ہی چھوٹا ہے مگر پونے7 سال کا رافع ہو یا محلے کے دیگر بچے۔یہ نا تو اخبار پڑھ سکتے ہیں اور نا ہی ٹی وی پر خبریں دیکھ کر پوری طرح سمجھ سکتے ہیں۔ان میں سے کسی نے خوش قسمتی سے اب تک اپنی آنکھوں سے کوئی قتل بھی ہوتے نہیں دیکھا مگر ان سب پر اردگرد کی فضا لاشعوری طور پر پوری طرح اثر انداز ہے۔
******

شیئر: