Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نہ چل پایا تھا بس کمہارپر تو:: گدھی کے کان اینٹھے جا رہے ہیں

ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبے میں کمہارموجود ہے ، وہ حاکم ہو یا محکوم، بے کار ہو یا ’’کاردار‘‘، کسی کی نہیں سنتا

 

شہزاد اعظم۔جدہ

اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ آپ کے خیال میں زیر نظر تصویر کاعنوان کیا ہونا چاہئے توسرسری سوچ رکھنے والوں کی جانب سے تصویر پر طائرانہ نظر ڈال کر متعدد عنوانات پیش کر دیئے جائیں گے۔ کوئی کہے گا کہ’’ خواہ مخواہ کی دھنائی‘‘، کوئی کہے گا ’’بے گناہ موٹر سائیکل سوار‘‘، کوئی کہے گا ’’بے سبب لٹھم لٹھا‘‘مگرفہم و فراست کے حامل صاحبان، دانشمند،عقلمند ، خردمنداہالیانِ پاکستان اس پر نظر ڈالتے ہی کہہ اٹھیں گے کہ یہ تصویر تو منہ پھاڑ پھاڑ کر چلّا رہی ہے اور تمام خوابیدہ، آب دیدہ و تاب دیدہ خواتین و حضرات کو باور کرا رہی ہے کہ ’’گدھی کے کان اینٹھے جا رہے ہیں۔‘‘

ہمارے وطن عزیز میںعیش و نشاط میں زندگی بسر کرنے والے امراء،رو رو کر زندگی تمام کرنے والے غرباء، کمال ذہانت کے حامل فطین اور بے یار و مددگار مساکین، اربوں کے بنگلوں میں رہنے وا لے اشرافیہ اور جھونپڑیوں میںسسکنے والے ’’بے ردیف و بے قافیہ‘‘ سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبے میںایسے کمہار پائے جاتے ہیںجن پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ وہ کمہار خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، اہم ہو یا غیر اہم،حاکم ہو یا محکوم، سیاسی ہو یا عوامی، بے کار ہو یا ’’کاردار‘‘، کسی کی ا یک نہیں سنتااس لئے عوام بے چارے متعلقہ کمہار کی ’’گدھی کے کان اینٹھنے ‘‘ پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ زیر نظر تصویر صاف بتا رہی ہے کہ ’’واپڈا‘‘ نے علاقے کی بجلی کئی گھنٹوں سے بند کر رکھی ہے ۔

لوڈ شیڈنگ کے ’’عذاب‘‘ سے تنگ آئے ہوئے بے یار و مددگار عوام کے لئے ’’واپڈا‘‘ایک ایسا کمہار ہے جس کا کوئی صارف کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ دن میں کئی کئی مرتبہ بجلی کی آنکھ مچولی سے دلبرداشتہ شہری احتجاج کے دوران وہاں سے گزرنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر لٹھ برسا کر، سنگباری کرکے، ان کی راہ میں روڑے اٹکا کرانہیں پریشان کرنے کی کوشش کررہے ہیںتاکہ وہ جواباً کچھ کہیں ، پھر تصادم کی کیفیت پیدا ہو ، ہنگامہ ہو، بیچ بچاؤ کے نام پر پولیس کو دخل اندازی کا موقع ملے۔وہ لوگوں پر اندھا دھند لٹھ باری کرے، کوئی زخمی ہو، کسی کا سر پھٹے، وہ کسی کی گرفتاری کرے۔ پھر گرفتار شدگان کی رہائی کے لئے آواز اٹھائی جائے مگر کوئی شنوائی نہ ہو کیونکہ پولیس بھی ایک ایسا کمہار ہے جس پر کسی کا بس نہیں چل سکتاچنانچہ ’’گدھی کے کان اینٹھنے ‘‘ کے مصداق عوام اپنے ہم نفسوں کو پولیس کی حوالات سے آزاد کرانے کے لئے ہا ہا کار مچائیں گے۔ سڑکوں پر احتجاج ہوگا، ہر طرف افرا تفری کا راج ہوگا۔ سب جانتے ہیں کہ ’’کمہاروں‘‘ کے خلاف اس طرح کا شور مچانے سے سے عوام کا بھلا نہ پہلے کبھی ہوا تھا ،نہ آج ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ’’گدھیوں ‘‘کے کان آخر کب تک یونہی اینٹھے جاتے رہیں گے۔ وطن عزیز میں ان بے چاریوں کا جینا پہلے ہی دو بھر ہوچکا ہے ۔یہ بے زبان ہیں،یہ کسی کو کہاں کچھ کہتی ہیں، بے چاری سارے دکھ سہتی ہیں، پھر بھی چپ رہتی ہیں۔ ان کے کان اینٹھنے والوں سے انتہائی مؤدبانہ استفسار ہے کہ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر آج تک بے ضرر قرار دی جانے والی گدھیوںکی سوچ میں ’’تبدیلی‘‘ آگئی اور انہوں نے کان اینٹھنے والوں کو سبق سکھانے کا تہیہ کر لیا توکیا ہوگا؟ یہ گدھیاں آپ کو کان پکڑنے پر مجبور کر دیں گی اور وہ کان پکڑے کمہاروں کے ساتھ ’’سیلفیاں‘‘ لے کر سوشل میڈیا پر ڈالنے کا منصوبہ بنا لیں گی۔

اس وقت سارے کمہار ان کی منت سماجت کریں گے کہ ’’برائے مہربانی!گھر کی بات گھر میں رہنے دو، دنیا بھرمیں ہمارا منہ کالا نہ کروائو۔رہے ہم تو ہمارا شمار گدھیوں میں ہے اور نہ کمہاروں میں، ہم تو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کان پکڑے کمہاروں کی سیلفیاں اپ لوڈ ہونے کے منتظر ہیں۔

شیئر: