Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فاروق راجیہ سبھا سے استعفیٰ دیدیں

 
کشمیر کو بار بار ہندوستان کا اٹوٹ حصہ کہنے والے اس اعتبار سے غلطی پر ہیں کہ آرٹیکل 370 کی رو سے ریاست جموں کشمیر کو خود مختاری حاصل ہے
 
کلدیپ نیر
 
فاروق عبداللہ کی تقریریں سن کر آپ بتاسکتے ہیں کہ وہ اقتدار میں ہیں یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اس وقت بے اقتدار ہیں کیونکہ جس طرح کی تقریریں وہ کررہے ہیں وہ بڑی تلخ اور صریحاً ہندوستان کیخلاف ہوتی ہیں جس سے وفاداری کا حلف انہوں نے راجیہ سبھا کے رکن کی حیثیت سے اٹھایا تھا ۔ ان کا تازہ ترین بیان حریت کی حمایت کے بارے میں ہے جس میں کشمیر کی ملک سے علیحدگی کی وکالت کی گئی ہے۔ اپنی تقریر میں وہ کہتے ہیں کہ میں نیشنل کانفرنس کے کارکنان کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ ہم اس جدوجہد کا حصہ ہیں۔ ہم نے اس ریاست کے مفاد میں ہر بار لڑائی کی ہے۔
فاروق کو یہ مشورہ دینا بہتر ہوگا کہ وہ راجیہ سبھا سے مستعفی ہوجائیں کیو نکہ وہ بیک وقت ہندوستان اور حریت دونوں کے ساتھ تو نہیں رہ سکتے۔ مجھے اس پر افسوس ہوتا ہے کہ کس طرح ایک شخص جو وفاقی وزیر اور کشمیر کا وزیراعلیٰ رہ چکا ہے ایسا بیان دے گا جو انہی کے منافی قرار پاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ انہوں نے کشمیر میں ایک مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہا۔
فاروق وہ آدمی ہیں جو غصے میں بے قابو ہوجاتے ہیں۔ وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں وہ کسی بنیاد پرست کی طرح بول رہے تھے۔ میں بھی اسی ڈائس پر تھا۔ میں نے اپنی تقریر میں انہیں ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ فاروق عبداللہ نے مجھے مسلم لیگ کے دور کی یاد دلا دی جب ملک کی تقسیم سے اس کے لیڈر یہ کہا کرتے تھے کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں۔
دوہفتے پہلے فاروق نے سری نگر کے ایک جریدے میں لکھا ہے کہ ان کے والد شیخ محمد عبداللہ یہ دیکھ کر خوش ہوتے کہ کشمیری نوجوانوں نے آزادی کے لئے ہتھیار اٹھالیا ہے۔ میں شیخ عبداللہ کو اچھی طرح جانتا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہرگز ایسا غیر ذمہ دارانہ بیان نہ دیتے۔
فاروق عبداللہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اخباری سرخیوں میں رہنا چاہتے ہیں ۔ اس کیلئے وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہےں۔ کیا فاروق کو یقین ہے کہ حریت جو کچھ بھی کہے گی وہ ہندوستانی عوام کے حق میں ہوگا۔ کیا انہوں نے کبھی کشمیر کے باقی ملک سے کٹ جانے کے عواقب کا اندازہ لگایا ہے؟ کشمیر خشکی سے گھرا ہوا علاقہ ہے اور ہندوستان کے علاوہ کسی طرف سے بھی وہاں تک آسانی سے رسائی نہیں ہوسکتی۔
ہندوستانی افواج کیخلاف لڑنے والے حریت پسندوں کا مقصد بہت واضح ہے۔ ابھی حال ہی میں جب میں سری نگر میں تھا، کئی نوجوان مجھ سے ملنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ وادی کو آزاد اور خود مختار اسلامی ملک بنانا چاہتے ہیں۔ سامراج کے رخصت ہوجانے کے بعد فاروق عبداللہ کے والد شیخ عبداللہ نے جو اس وقت وزیراعظم جواہر لال نہرو کے اصرار پر جیل سے رہا کئے گئے تھے، مہاراجہ کے دور کے عوامی ملیشیا کو منظم کرکے سرینگر کی طرف بڑھتی ہوئی قبائلی فوجوں کو ہوائی اڈے پر اترنے والی باضابطہ ہندوستانی افواج کے ہاتھوں دراندازوں کو اسی علاقے میں دھکیلے جانے تک روکے رکھا۔ 
کشمیر کو بار بار ہندوستان کا اٹوٹ حصہ کہنے والے اس اعتبار سے غلطی پر ہیں کہ آرٹیکل 370 کی رو سے ریاست جموں کشمیر کو خود مختاری حاصل ہے جس میں یہ کہا گیا کہ خارجی امور ، دفاع اور مواصلات کو چھوڑ کر مرکزی حکومت کو اختیار دینے والے آئین کی دیگر دفعات کا اطلاق جموں کشمیر پر نہیں ہوگا۔ کوئی استثناء ریاستی اسمبلی کی منظوری ہی سے عمل میں آئے گا۔ بالفاظ دیگر ان آئینی شرائط کی وجہ سے ریاست جموں کشمیر کو اس طرح کی خودمختاری حاصل ہے جو دیگر ریاستوں کو حاصل نہیں۔ 
اس کے بعد شیخ صاحب نے ریاستی قانون ساز اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کرائی کہ ریاست جموں کشمیر نے ہندوستان سے الحاق کیاہے۔ ایسا کرنے سے پہلے انہوں نے آئندہ وزیراعلیٰ بننے والے صادق کو اس کا جائزہ لینے کیلئے پاکستان بھیجا کہ اسلام آباد میں کس طریقہ کار پر عمل کیا جارہا ہے۔ صادق صاحب کا یہ خیال سننے کے بعد کہ اسلام آباد ایک اسلامی ریاست بننا چاہتا ہے شیخ صاحب نے جو مہاراجہ اور برطانوی سامراج سے آزادی پانے کی جدوجہد کی پیداوار تھے، ہندوستان میں شامل ہونے میںتاخیر نہیں کی کیونکہ وہ اس ریاست کو تکثیری بنانا چاہتے تھے یعنی ایک جمہوری ہندوستان جہاں مذہبی آزادی ہو۔
وقت گزرنے کے ساتھ شیخ عبداللہ ایسی واحد اعتدال پسند انہ آواز بن گئے جو ہندووں اور مسلمانوں کے اعتراضات اور ا ن کے جواب کے درمیان واضح طور پر سنی جاسکتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایمرجنسی کے دوران جب میں تہاڑجیل سے چھوٹا تو میرے ساتھی قیدیوں نے کہا کہ سری نگر جاکر شیخ صاحب سے ایمرجنسی کے خلاف بولنے کی درخواست کی جائے کیونکہ وہ ملک کے تمام عوام کے نزدیک محترم ہیں۔ انہوں نے یہ بیان جاری کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا کہ ایمرجنسی کو اب بہت دن ہوگئے ہیں اور اسے واپس لینا چاہئے۔
کاش کہ فاروق ، شیخ عبداللہ کے اوصاف پیدا کرکے علیحدگی پسندوں کا ساتھ دینے کے بجائے نئی دہلی کی رہنمائی کرتے۔ اپنی خودپسندی کے باوجود وہ پورے ملک میں مقبول ہیں۔ علیحدگی پسندوں کی بالواسطہ مدد کرنے پر بھی پہلے انہیں دوبار غور کرنا چاہئے۔ حریت کیلئے اپنی حمایت کا اعلان کرکے انہوں نے کشمیر اور پورے ملک کے عوام کے ذہنوں میں کئی سوالات پیدا کردیئے۔ فاروق عبداللہ کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ان کا حلقہ تو پورا ملک ہے۔ ہندوستان کے اتحاد کو متاثر کرنے والی ان کی کہی ہوئی کوئی بھی بات لوگوں کو الجھن میں ڈالتی ہے کیونکہ وہ انہیں ہندوستان کی سالمیت کا حامی سمجھتے ہیں نہ کہ اس کی تقسیم کا۔ 
******

شیئر: