Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نامزد امریکی وزیردفاع کا نظریہ

 
میٹس کا قول ہے کہ سول انتظامیہ حربی رمو ز کو نہیں سمجھتی چنا نچہ اس کو شکست ہو جا تی ہے کیو نکہ اس کے پا س منصوبہ بندی کا فقدان ہو تا ہے
 
سید شکیل احمد
 
مغر ب کے رنگ ہی نر الے ہیں مشرقی معاشرے میں جو معیو ب ہیں ان کے یہاں وہ عزیز ہیں ، مثلا ً الو ، گدھا وغیر ہ کے بارے میں مشرق میں منفی رائے رکھی جا تی ہے جو غبی قسم کا انسان ہوتا ہے تو اس کو گدھے بیچارے سے تشبیہ دے دی جا تی ہے ، الو کو انتہا ئی احمق کی صفت میں شمار کیا جا تا ہے لیکن مغرب میں یہ سب قابل احتر ام ہیں الّو کو عقلمندی کا شاہکا ر اور گدھے کو جفا کش ومحنتی گردانا جا تا ہے۔ بہر حا ل وہا ں ان نا مو ں سے پکا رے جا نے پر فخر کیا جا تا ہے ۔
جو ں جو ں امریکی صدر ٹرمپ کی کا بینہ کے خدوخال واضح ہو تے جا رہے ہیں اس سے ان کے عزائم بھی عیا ں ہو رہے ہیں ایسا محسو س کیا جا نے لگا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ اپنے انتخابی منشور پر عملدر آمد کا پوری طرح ارادہ لئے ہو ئے ہیں چنا نچہ انھو ں نے کا بینہ کے لئے ایسے ہی افر اد کا چنا وکیا ہے جو ٹرمپ کے مقاصد کی عکا سی کر رہے ہیں مثلاًاگلے وزیر دفاع سابق جنر ل جیمس میٹس ہو ں گے۔ میٹس کے بارے میں رائے ہے کہ ان کو کا م کی لگن رہتی ہے اور کام میں تفصیلی امو ر کے دھنی ہیں اور پو رے جو ش و جذبہ سے کا م کی تکمیل میں جت جا تے ہیں اسی شوق اور دھن کے ما رے ہو نے کی بنا ءپر انھو ں نے شادی بھی نہیں کی کہ گھر والی ان کے کام ، لگن یا مشن میں حائل ہو سکتی ہے ۔ شادی نہ کر نے کی بنا ءپر ان کو جنگجو راہب بھی کہا جا تا ہے ، اگر میٹس کے بارے میں کہا جا ئے کہ وہ عملی انسان کے ساتھ ساتھ کتابی کیڑا بھی ہیں تو یہ بھی غلط نہ ہو گا ان کی ذاتی لا ئبریر ی میں تقریبا ً 7 ہزار سے زیادہ کتا بیں ہیں جب وہ کسی محاذپر ہو تے ہیں تو بھی ان کے زیر مطالعہ کوئی نہ کوئی کتاب رہتی ہے۔ جنگ سے متعلق کوئی بھی حوالہ کسی بھی وقت دینے کے ماہر ہیں جب ان سے اس قد ر زیا دہ مطالعے کے بارے میں استفسار کیا جا ئے تو وہ کہتے ہیںکہ جدید ٹیکنا لو جی نے جنگ کی نو عیت پر کوئی اثر نہیں ڈالا ، ما ضی میں جو جنگ تلوارو ں، برچھیوں وغیر ہ سے لڑی جا تی تھی اسی طرح اب ڈرون طیا رو ں اور ٹینکو ں سے لڑ ی جا تی ہے۔پہلے بھی اور اب بھی اصل شے دشمن کو اچھی طرح سمجھنا ہو تا ہے۔ میٹس کا قول ہے کہ سول انتظامیہ حربی رمو ز کو نہیں سمجھتی چنا نچہ اس کو شکست ہو جا تی ہے کیو نکہ اس کے پا س منصوبہ بندی کا فقدان ہو تا ہے اورفوج کی جیتی ہوئی جنگ بھی ہار جا تی ہے۔ اس بار ے میں وہ عراق کی مثال دیتے ہیں کہ 45 دنو ں میں عراقی کی جیتی ہو ئی جنگ کے سیا سی مقاصد واضح نہ ہو نے اور حقیقت سے دور ہو نے کی بنا ءپر عراق انا رکی کا شکا ر ہو گیا ۔ میٹس کا موقف ہے کہ دوسری جنگ عظیم میںفتح یا ب ہو نے کے بعد امر یکہ نے 5 جنگیں لڑی ہیں ان میں سے صرف ایک جنگ جیتی ، باقی افغانستان ، کو ریا ، ویت نا م اور عراق کی جنگوں میںنا کا می کا منہ دیکھنا پڑ ا ہے جس کی ایک ہی وجہ ہے کہ سول انتظامیہ کے سیا سی مقاصد واضح نہیں تھے ، صرف ایک جنگ جو کویت جنگ ہے وہ اس لیے جیتی کہ اس وقت کے امر یکی صدر جا رج بش سینیئر نے واضح کر دیا تھا کہ صدر صدام حسین کی حکومت کو ختم کر نا مقصود نہیںبلکہ کویت کو آزاد کرانا ہے ۔
    میٹس سے بہت سے مقولے بھی وابستہ ہیں جس سے ان کے مزاج کا اور سوچ کا بھی پتہ چلتا ہے وہ کہتے ہیں کہ شائستہ انداز اپنائیے اور پیشہ ورانہ مہا رت کو بھی بروئے کا رلا ئےے ۔علا وہ ازیں آپ کے پا س ہر شخص کو قتل کر نے کا مکمل منصوبہ بھی ہونا چاہیے ، ان کی یہ سوچ امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹر مپ کی پالیسیو ں کی عکا سی کر تی ہے۔میٹس نے 18 سال کی عمر میں فوج میں شمولیت اختیا ر کی تھی جب سے وہ اپنی ہی طر ز کی زندگی بسر کر رہے ہیں چنا نچہ میٹس کے انتخاب سے ٹرمپ کی حکومت کے مستقبل کے خدوخال کو سمجھنے میں مد د ملے گی۔ میٹس یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ دنیا میں ایک بڑا کر دار ادا کر نے جا رہا ہے ۔ گویا اوباما کی پالیسیو ں کے بر عکس خارجہ پا لیسی اختیا ر کی جا ئے گی۔ ایک صحافی نے ایک مرتبہ میٹس سے پوچھا کہ مشر ق وسطیٰ میں سب سے بڑ ا خطر ہ کو ن ہے تو انھو ں نے فوراً جو اب دیا کہ ایران، جب یہ استفسار کیا گیا کہ وہ کیسے؟ تو کہا کہ وہا ں کا نظام ہے جہا ں عو ام اور حکو مت ریاست کی بنیا د پر نہ تو فیصلے کر تی ہے اورنہ سوچتی ہے وہ مذہبی بنیا د پر سوچ رکھتی ہے جس کی وجہ سے ملا ئیت کا راج ہے جو لبر ل نظام میںیقین سے خالی ہے۔ ایر ان کے بارے میں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی گو شمالی کوئی کٹھن معاملہ نہیں۔ انھو ں نے جو یہ اصطلاحات استعمال کی ہیں اس سے امریکی مقصد واضح ہوتا ہے کہ امریکہ اب سیکو لر سیاست کا ہی نفاذچاہتا ہے ۔ یہ بھی دعویٰ ہے کہ امریکہ کے پا س اس قدر قوت ہے کہ وہ طالبان ، القاعدہ اور داعش کو فوجی لحاظ سے شکست دے سکتا ہے لیکن ان کے نظرئیے کو شکست نہیں دی جا سکتی ۔ یہ آسان کا م نہیں ۔ یہ کام امریکہ یا یو رپ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے بلکہ اس لئے خود مسلمانو ں کو آگے لا نا ہو گا ۔ ا ن عزائم کی روشنی میں دنیا میں متوقع تبدیلیو ں کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انتخابات یہ کسی دوسرے جمہوری یا غیر جمہو ری عمل سے کسی ملک میں جو تبدیلیا ں آتی ہیں تو وہ اپنے خطے تک محدو د رہتی ہیں مگر جب دنیا کی سپر پاور کی حدود میں تبدیلی رونما ہو تی ہے تو اس کی زد میں ساری دنیا آجاتی ہے اور دنیا ایک نئی کر وٹ لیتی ہے جیسا کہ سوویت یو نین کا شیر ازہ بکھر جا نے کے بعد ہوا مگر کا ئنات کی سب سے بڑی طاقت کی حکمت سے بڑھ کر ہر کس و ناکس کی منصوبہ بندی ہیچ ہوتی ہے جیسا کہ میٹس بھی تسلیم کر تے ہیں کہ امریکہ نے 5 جنگوں میںسے صرف ایک جنگ جیتی حالانکہ جس جنگ کو جیتنے کا ان کا دعویٰ ہے وہ کوئی جنگ نہ تھی سازشو ں کا پلندہ تھا۔ 
******

شیئر: