Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمارے ’’بے جان اثاثے‘‘ تو بہت ہیں،’’زندہ اثاثہ‘‘ کوئی نہیں

میرے شوہر اس ’’نامحرم ‘‘کو پاکستان چھوڑآئے،میں نے پردیس میں اپنی’’ معصوم سہیلی‘‘ سے دور تنہائی کاٹی، چندروز پہلے اس نے تڑپ تڑپ کر جان دیدی

 

خالد مسعود۔ ریاض

آج اچانک افتخار بھائی کا خیال آگیا۔ ان سے ملے تقریباً سال سے بھی زیادہ ہوگئے تھے۔ ایک وقت تھا جب میری فیملی یہاں تھی تو برابر ہی ملنا ہوتا تھا۔ عریشہ بھابی بھی ملنسار اوربااخلاق خاتون ہیں۔ 30سال قبل جب سعودی عرب آئے،تب سے ہی ہمارا ان سے ملنا جلنا تھا۔ شادی کو 5سال ہوگئے تھے لیکن ان کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔افتخار بھائی آفس چلے جاتے تو بھابی کو وقت گزارنا بہت کٹھن لگتا۔ اپنوں سے دوری اور پھر یہاں کی تنہائی۔ اولاد کی خواہش نے بھابی کو بہت غمگین کردیا اور طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی۔ افتخار بھائی جب فیملی کیساتھ سالانہ چھٹی پر پاکستان گئے تو بھابی کی صحت دیکھ کر بھائی کو بہت رنج ہوا۔ان سے اپنی بہن کا دکھ دیکھا نہ گیا ۔ بھائی کے گھر ولادت بھی ہونے والی تھی۔ وہ اپنی بہن عریشہ سے کہنے لگے کہ اللہ کریم نے مجھے اولاد کی نعمت سے نوازا ہے۔ الحمداللہ، میرے 4بیٹے ہیں۔ تمہاری بھابی کے ہاں نئے مہمان کی آمد آمد ہے ، وہ جو بھی ہو، اسے تم گود لے لینا ۔ بھابی کی موجودگی میں بھائی کے گھر بیٹی کی ولادت ہوئی۔

بھائی نے بچی کویہ کہہ کر بھابھی کی گود میں ڈال دیا کہ یہ آج سے آپ کی بیٹی ہے۔ افتخار بھائی نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا اور کاغذی کارروائی کے بعدبچی کو ساتھ لے کر ریاض آگئے۔بھابی کا گھر جو بچے کے بغیر سونا سونا تھا، اب وہاں رونق آگئی تھی۔ افتخار بھائی آفس ہوتے تووہی وقت جو پہلے کاٹے نہیں کٹتا تھا، اب اس کے گزرنے کا بھابی کو پتہ ہی نہیں چلتاتھا۔بچی کو وقت پر دودھ دینا ، اس کی صفائی کا خیال رکھنا، اس کے کپڑے دھونا، غرض بھابی کی دنیاہی بدل گئی۔ وہ بچی کو ہر وقت سینے سے لگائے رکھتیں ۔انہوں نے اس کا نام نائلہ رکھا۔افتخار بھائی کو بھی گویا ایک مشغلہ ہاتھ آگیا تھا۔ وہ آفس سے آتے اور بچی کوگود میں لے لیتے، اسے چمکارتے، پیار کرتے۔ اس کی ٹوٹی پھوٹی زبان میں اس سے باتیں کرتے ۔

ان کی محبت کا محور اور مرکز نائلہ ہی تھی۔ دن گزرتے گئے، نائلہ بڑی ہوتی گئی۔ ہم جب بھی بچوں کے ساتھ افتخار بھائی کے گھر جاتے ،وہ ہمارے بچوں کے ساتھ کھیلتی۔ ہمیں اس کی شرارتیں، سارے گھر میں کو دنا ،پھاندنا آج بھی یاد ہے۔ میرا خاندان پاکستان منتقل ہوگیا ۔فیملی نہ ہونے کی وجہ سے افتخار بھائی کے گھر آنا جانا کم ہوگیا۔ وقت بھی اتنی تیزی سے گزرا کہ احساس ہی نہیں ہوا۔ اچانک جب ان کا خیال آیا تو بادل ناخواستہ ان سے ملنے چلاگیا۔ بھابی نے دروازہ کھولا۔ دیکھتے ہی بولیں،کہاں غائب تھے، فیملی کیا گئی آپ نے ملنا جلناہی چھوڑ دیا۔ میں نے کہا ہاں بھابی! بس اب اکیلے کہیں جانے کو جی نہیں کرتا۔

بھابی مجھے بہت کمزور نظر آئیں۔میں نے پوچھا کہ یہ آپ نے کیا حالت بنارکھی ہے، افتخار بھائی کہاں ہیں اور نائلہ بھی کہیں نظر نہیں آرہی، اب تو وہ بھی خاصی بڑی ہوگئی ہوگی۔ کہنے لگیں، افتخار تو آفس کے کام سے جدہ گئے ہوئے ہیں پھر نائلہ کا نام لیتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ میںپریشان ہوگیا۔ پوچھاکہ بھابی آخرکیا بات ہے !خیریت تو ہے ناں ؟ بھابھی نے بہت مشکل سے اپنے آپ پر قابو پایااور گویا ہوئیں کہ بھائی کیا بتاؤں! نائلہ اب اس دنیا میں نہیں ۔ کیوں کیا ہوا بھابی! وہ اب ماشاء اللہ، 20سال کی تو ہوگئی ہوگی، یہ اچانک کیا ہوا۔ کہنے لگیں، 2سال پہلے جب ہم لوگ سالانہ تعطیل پر پاکستان گئے، وہاں افتخار ایک دن نائلہ کو لیکر گھر سے نکلے۔ میں پوچھتی رہی کہ کہاں جارہے ہیں لیکن انہوں نے کچھ نہیں بتایا ۔ واپس آئے تو نائلہ ساتھ نہیں تھی۔میں نے پوچھا کہ نائلہ کہاں ہے تو کہنے لگے نائلہ اب جوان ہوگئی ہے اور اب وہ میرے لئے نامحرم ہے اس لئے میں تمہارے بھائی کو ان کی بیٹی واپس کرکے آیا ہوں۔ میں چیختی چلاتی رہ گئی۔ وہ ہماری بیٹی ہے۔ جب ایک دن کی تھی جب سے ہم نے اسے پالا ہے ۔وہ تو میری اپنی اولاد ہے ۔ وہ تو اپنے ماں باپ کو جانتی بھی نہیں ۔ وہ انہیں کبھی قبول نہیں کرے گی۔ ہم تو ایک لمحہ بھی اس کی دوری برداشت نہیں کرسکتے لیکن وہ نہیں مانے۔ میں نے جب زیادہ ضد کی تو انہوں نے مجھے طلاق کی دھمکی دیدی۔ وہاں نائلہ کی حالت غیر ہوگئی۔ اسے تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہم نے اسے الگ کیوں کیا ہے۔ اسکی نظر میں تو اس کے ماں باپ ہم ہی تھے ۔ وہ کسی طور پر وہاں رہنے کو تیار نہیں تھی۔ وہ روتی رہی کہ مجھے میرے امی ابو کے پاس جانا ہے ۔

میرے بھائی اسے یقین دلاتے رہے کہ تمہارے اصل ماں باپ ہم ہیں ۔ جب تم ایک دن کی تھیںتو ہم نے تمہیں تمہاری پھوپی کے حوالے کردیا تھا کیونکہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن وہ یہ بات ماننے کیلئے قطعی تیار نہیں تھی۔ ادھر میری بھی حالت غیر ہوتی گئی۔ نائلہ کو ایک لمحہ بھی قرار نہیں آ رہاتھا۔ وہ ہر وقت بے چین رہتی۔ چھٹی ختم ہوتے ہی افتخار مجھے ساتھ لیکرواپس ریاض آگئے۔ میںنائلہ کے لئے تڑپتی رہی اور نائلہ ہم لوگوں کیلئے ۔اس نے کسی طور پر بھی میرے بھائی ، بھاوج کو ماں باپ کی حیثیت سے قبول نہیں کیا۔ وہ میرے بھائی سے یہی سوال کرتی کہ میرا قصور کیا ہے ۔

میرے ماں باپ نے مجھے کیوں چھوڑدیا۔ وہ ہمارے غم میں گھلتی جا رہیتھی۔اس کی طبیعت میں چڑ چڑا پن عود کر آیا۔ اس نے کھانا، پینا چھوڑدیا ۔وہ کبھی روتی، کبھی ہنستی اور کبھی خود سے باتیں کرتی۔ اسے نفسیاتی امراض کے ماہر کو دکھایا گیا ۔اس نے دوا بھی دی لیکن اسے فائدہ کیوں ہوتاکیونکہ اس کی دوا تومیں ا ور افتخار تھے جن کے سائے میں وہ پلی بڑھی اور جن کی شفقت و محبت میں پروان چڑھی تھی۔ افتخار کسی طور پر اسے واپس لینے کو تیار نہیں تھے۔ میں نے ضد کی تو ایک طلاق کا لفظ بھی ادا کردیا۔ میں پھر خاموش ہوگئی۔ نائلہ کی حالت دن بدن بگڑتی گئی اور وہ بسترسے لگ گئی۔ چلنے پھرنے سے بھی معذورہوگئی اور چندروز پہلے اس نے تڑپ تڑپ کر جان دیدی۔ میں نے پردیس میں اپنی’’ معصوم سہیلی‘‘ سے دور تنہائی کاٹی۔ میری اس تنہائی کی ساتھی نائلہ تھی۔ اب وہ دنیا میں نہیں رہی تھی۔ ہمارے پاس اللہ کریم کا عطا فرمایا ہوا ، سب کچھ ہے ۔ افتخار یہاں رہتے ہوئے، پاکستان میں کئی مکانوں کے مالک بن چکے ہیں۔

آج ہمارے ’’بے جان اثاثے‘‘ تو بہت ہیں مگر’’زندہ اثاثہ‘‘ کوئی نہیں۔ میں سوچتی ہوںکہ یہ سب جائدادیں آخرکس کام کی ؟ مجھے نہیں معلوم کہ افتخار نے مجھے بتائے بغیر اچانک نائلہ کو ہم سے دورکیوں کردیا۔ مجھ میں سننے کی تاب نہیں تھی۔ میں سوچتا رہا، افتخار نے ایسا کیوں کیا۔ اگر وہ بچی کیلئے نامحرم بھی ہوگئے تھے تو حکمت کے ساتھ احسن طریقے سے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا تھا۔ اس کی شادی کر کے اسے بحسن و خوبی گھر سے وداع کیاجا سکتا تھا۔ اس بچی کو گود افتخار نے ہی لیا تھا، اس میں اُسکا کیا قصور تھا؟ نائلہ کتنی جذباتی اذیت سے گزری ہوگی؟ میں اس’’معصوم ہستی کی تلخ رودادِ حیات‘‘ سن کر غم سے نڈھال ہوگیا اوربوجھل قدموں سے واپس آگیا۔ میں بھابی کو تسلی دینے کے لئے 2الفاظ بھی نہیں بول سکاکیونکہ میرے پاس کہنے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا۔

محترم قارئین کرام !

اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کے انٹرویوز کا سلسلہ جاری ہے۔امید ہے آپ کو پسند آرہا ہوگا۔

ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں اور رائے سے بھی آگاہ کریں،ہم آپ کا بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے توکمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں درجِ ذیل ای میل پر بھیج دیں جبکہ ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔ہم سے فون نمبر 0966122836200 ---ext: 3428---پر رابطہ کریں،

آپ سے گفتگواردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔ ای میل:[email protected]

شیئر: