Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ سوچ رہا تھا’’میری شریک سفر واقعی عظیم ہے‘‘

ماں نے بیٹے سے کہا کہ شاید میری تربیت میں کوئی کمی رہ گئی تھی جو تم نے کمزور عورت پر ہاتھ اٹھایا

 

عنبرین فیض احمد ۔ ریاض

وہ ایک سرکاری افسر تھا مگر مزاج کا بڑا شریف۔ کبھی کسی سے بلند آواز میں بات نہیں کرتا تھا۔ وہ اعلیٰ خاندان کا چشم و چراغ تھا اس لئے اس کے منہ سے کبھی گالی نہیں نکلتی تھی۔ نہ کبھی اس نے کسی پر ہاتھ اٹھایا تھا لیکن حالات پر تو کسی کا بس نہیں چلتا۔ وہ اپنی سی ہرممکن کوشش کرتا مگر افلاس اور غربت تھی کہ اس کا پیچھا ہی نہیں چھوڑتی تھی۔ اس کی بیوی اوربچے ایک ایک پیسے کیلئے ترستے مگر اس کی صابر بیوی کبھی اس کا اظہار اس کے سامنے نہیں کرتی تھی۔

اسے اپنی بے بسی پر بہت رونا آتا۔ وہ اکثر سوچتا کہ دفتر کے بعد ٹائپ اور شارٹ ہینڈسیکھ کر شام کے اوقات میں کوئی دوسری نوکری کرلے گا ۔اس کے بچوں کو کھانا اچھا نصیب تھا اور نہ ہی پینے کیلئے صاف پانی، اس کے باوجودوہ بچے بہت ہی حسین دکھائی دیتے تھے۔ وہ ایسی جگہ پر نوکری کررہا تھاجہاں اوپر کی کمائی تو بآسانی ہوسکتی تھی مگر اس نے سوچ رکھا تھا کہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہو ں مگر وہ حلال روزی ہی کمائے گا۔ حرام کا ایک نوالہ بھی اپنے بچوں کے منہ میں نہیں ڈالے گا۔ وہ اس عہد کو پورا کررہا تھا اور حلال روز ی کی تگ و دو میں سارا سارا دن مصروف رہتاتھا۔ اس کے ساتھی حرام کی کمائی کما کما کر کہاں سے کہاں پہنچ گئے مگر وہ صبح گھر سے نکلتا ، شام ڈھلے گھر میں داخل ہوتا۔ اس کے دوست یار کہتے کہ تم کیسے مرد ہو ،اپنی بیوی کی باتوں میں آگئے۔

وہ ایسے محکمے میں تھا کہ جہاں وہ چاہتا تواپنے گھر میں لاکھوں روپے کی گڈیاں روزانہ لاسکتا تھا مگر اس کی بیوی نے بھی اسے سختی سے منع کردیا تھا کہ حرام کا ایک پیسہ بھی گھر میں نہیں آئے گا۔ اس کی بیوی کی صحت خراب رہنے لگی ۔ وہ ہر وقت کام کرتی۔کپڑے دھوتی اور برتن مانجھتی ۔ اس کے باوجودوہ صبر وشکر کرکے گزارا کررہی تھی اور کبھی شکایت کا لفظ زبان پر نہ لاتی تھی۔ اس کی ساس اس سے بالکل بیٹیوں جیسا پیار کرتی تھیں۔ وہ ان کا خیال کرتی، ان کا احترام کرتی تھی۔ ساس اور بہو کی ایسی محبت اورباہمی اتفاق نے گھر کو امن کا گہوارہ بنا رکھا تھا۔

گھر میں کبھی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتاتھا۔ سب ہی لوگ امن اور سکون سے رہتے تھے۔ایک دن اس کا دوست اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یا ر چلو شاپنگ سینٹر چلتے ہیں۔ کچھ تفریح ہوجائے گی۔ ہر لمحہ کام ، ہم بھی انسان ہیں ۔ وہ دونوں جب شاپنگ سینٹر میں داخل ہوئے تودیکھا کہ وہاں خواتین مختلف قسم کی چیزیں خریدنے میںمصروف تھیں۔دوست نے کہا کہ تم بھی اوپر کی کمائی کرسکتے ہو۔ ایسا سنہری موقع پھر کہاں ملے گا۔ اس کے دوست نے اسے سمجھانے کے انداز میں کہا کہ مجھے دیکھو میں بھی اوپر کی کمائی کرلیتا ہوں۔ جب وہ گھر پہنچا تو شاپنگ سینٹر کا ماحول ابھی تک اس کے خیالوں میں بسا ہوا تھا اوروہ اپنے خیالوں میں گم تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ ایک وہ خواتین تھیں لگتا تھا ریشم کی بنی ہوئی ہیں اور ایک میری بیوی ہے لگتا ہے کہ ریگستانی مٹی کی بنی ہوئی ہے ۔ جب اس کی بیوی اس کیلئے چائے لے کر آئی تو اسے چڑ سی ہورہی تھی۔ اس نے فوراً چائے کی پیالی میز پر رکھ دی اور برا سا منہ بناکر غصے سے کہا کہ بدمزہ چائے بنائی ہے، کبھی ڈھنگ سے کوئی کام کرلیا کرو۔بیوی نے کہا کہ ہمیشہ میں ہی بناتی ہوں، میرے ہاتھ کے بنائے ہوئے کھانے کی آپ ہمیشہ تعریف کیا کرتے ہیں ، پھرآج کیا ہوا ہے؟ اس کے ذہن میں اس کے دوست کی باتیں گھوم رہی تھیں کہ یار مجھ سے تمہاری یہ حالت دیکھی نہیں جارہی۔ اسی لئے تو تمہیں یہاں لے کر آیا ہوں۔ آج سے پہلے کبھی اس نے اپنی بیوی کو ایسی باتیں نہیں سنائی تھیں مگر جلد ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اس کی بیوی کے ذہن میں شک پیدا ہواکیونکہ کبھی اس کے شوہر نے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی۔

شوہر کا رویہ اس کو دکھی کرگیا۔ ایک دن وہ بہت پریشان تھااور اپنے دوست کے پاس بیٹھا اپنی پریشانی بیان کررہا تھا۔ دوست نے کہا کہ دیکھ یار اوپر کی کمائی شروع کر دے ۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوگا کہ تم کیسے اور کہاں سے کمارہے ہو ۔ عورتیں تو بیوقوف ہوتی ہیں۔ ان کی باتوں میں نہ آنا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ ایک طرف گھرکے حالات اور دوسری طرف دوست کے مشورے۔ وہ گھر لوٹا تب بھی پریشان تھا آتے ہی اس نے اپنی بیوی سے پانی لانے کو کہا۔ جونہی اس نے اپنے شوہر کی طرف پانی کا گلاس بڑھایا، اس کے ہاتھ سے گلاس چھوٹ کرفرش پر گرا اور ٹوٹ گیا۔

شوہر نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،بیوی کے چہرے پر ایک زور دار تھپڑ رسید کر دیااور کہا کہ جاہل عورت تمہیں کسی بات کا سلیقہ نہیں۔ اپنے ہاتھ اور اپنی شکل دیکھو کیسی بھنگن لگ رہی ہو۔ اس کی بیوی روتی ہوئی اپنی ساس کے پاس گئی۔ ان کی گود میں سر رکھ کر رونے لگی۔ ساس بہت حیران اور پریشان ہوگئیں کہ اچانک میرے بیٹے کو کیا ہوگیا ؟ اس نے بہو پر کیوں ہاتھ اٹھایا۔ انہوں نے بہو کو تسلی دی کہ وہ بیٹے سے پوچھیں گی کہ آخرگھر کی پرسکون فضاء میں بھونچال سا کیوں آگیا ہے۔ ایسا کون ہے جو میرے گھر کے درو دیوار میں شگاف ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔ انہوں نے بہو کو پاس بیٹھایا اور بیٹے سے کہا کہ شاید میری تربیت میں کوئی کمی رہ گئی تھی اس لئے تم نے ایک کمزور عورت پر ہاتھ اٹھایاہے۔ اس کا قصور کیا ہے ؟ صرف ایک شیشے کا گلاس ٹوٹ جانے پر تم نے اس پر ہاتھ اٹھایا۔

اس کا قصور صرف اتناہے کہ گھر کے کام کرتے کرتے اس کے ہاتھ کھردرے ہوگئے ہیں اور برتنوں کی سیاہی نے اس کے ہاتھوں کے رنگ کو خراب اور بدنما کرکے رکھ دیاہے ۔ اسے اتنی فرصت ہی کہاں ہے کہ اپنے ہاتھوں اور حلئے پر توجہ دے۔میں تمہیں بتارہی ہوں کہ یہی تمہاری سچی ہمدرد ہے اور تمہیں حرام کمائی سے روکتی ہے ۔ اس نے اپنے وسائل میں رہ کر اپنے گھرانے کو پالنے اور اپنے شوہر کو ناجائز کماکر لانے پر مجبور نہیں کیا اور اپنے بچوں کو حلال رزق کھلایا۔ وہ دن رات مشقت کرکے اپنے بچوں کو پال رہی ہے کام کرتے کرتے اس کے ہاتھ پاؤں کھردرے اور بھدے ہوگئے ہیں۔

اس کے یہ ہاتھ اور پاؤں آخرت کے دن خود گواہی دیں گے کہ وہ دنیا میں کس وجہ سے کھردرے اور بدرنگ ہوگئے تھے مگر اس نے شکوے کا ایک لفظ کبھی اپنے شوہر یا ساس کے سامنے زبان سے نہیں نکالا۔ اس کو یاد آنے لگا کہ اس کی شادی کو 15برس بیت گئے مگر میری بیوی نے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی۔ اس نے اپنی محنت اور سلیقے سے گھر کو جوڑے رکھا۔ اس کے شوہر کو اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا اور وہ سوچ رہا تھاکہ واقعی میری شریک سفر کے ہاتھ تو بہت حسین ،نرم و نازک ہیں جو ہماری نسل کو پروان چڑھانے میں اپنی آب و تاب کھو بیٹھے ہیں ۔روز آخرت اس کے ہاتھوں کا کھردرا پن اور بھداپن چاندکی مانند چمک رہا ہو گا۔میری بیوی ہی میری اصل ہمدرد ہے ۔اس نے مجھے برائی سے روکا ۔ اس نے لاشعوری طور پر اپنی بیوی کا ہاتھ تھام لیا۔ میری شریک سفر بہت ہی عظیم عورت ہے جس کے ہاتھ اور پاؤں شادی سے پہلے ریشم کی طرح نرم و ملائم تھے مگر کبھی اس نے شکوہ نہیں کیا کہ میرے ہاتھ اور پاؤں کیسے بدنما ہوچکے ہیں۔

شیئر: